عورت کے استحصال کاذمہ دار مردوں کا سماج

کیا انھیں شادی سے قبل باپ اور بھائی نیز شادی کے بعد شوہر اور بچوں کی خدمت کرتے ہوئے زندگی گزاردینی چاہئے اور اپنی زندگی نہیں جینی چاہئے؟ کیا گھر کے تمام فیصلے مردوں کو لینا چاہئے اور خواتین کو کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب ہاں میں ہیں تو معاف کیجئے گا ،پھر ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ اسلام نے مردو عورت کو برابر کے حقوق دیئے ہیں۔ آج مسلم سماج میں عورتوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور مردوں نے انھیں جس درجے پر رکھا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر علماء اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین کو اسلام نے مردوں کے مساوی حقوق دیئے ہیں اور انھیں کسی بھی پہلو سے کمتر نہیں بنایا ہے تو انھیں خود بھی اس کا عملی ثبوت دینا چاہئے اور عام مسلمان کو اس کی ترغیب دینی چاہئے۔ بھارت سے سعودی عرب تک ہرجگہ خواتین کی حالت یکساں نظر آتی ہے۔ ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ اسلام نے مردوعورت کو یکساں حقوق دیئے ہیں مگر مسلم سماج کا منظر نامہ ہمارے دعوے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں مسلم معاشرہ خواتین کو برابر کے حقوق دیتا ہے؟برصغیر ہندوپاک ، بنگلہ دیش وغیرہ میں عام طور پر مسلم لڑکیوں کو لڑکوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت لڑکوں سے کمتر درجے پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلامی تعلیمات کے سبب نہیں بلکہ مقامی ہندو سماجی اثرات کے تحت ہے۔ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہوسکتی مگر والدین اس کی رسمی اجازت صرف نکاح کے وقت لینا کافی سمجھتے ہیں۔ آج بھی اس کا کمانا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پردے کے نام پر جس طرح اس پر جبر کیا جارہا ہے وہ اس پردے سے بالکل مختلف ہے جو عہد نبوی میں رائج تھا۔افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی ریپ کرتا ہے تو پنچایت کے فیصلے سے اس کی بہن کو فریق ثانی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ سعودی عرب جس کے تانا شاہوں کادعویٰ ہے کہ وہ صحیح اسلام کا نفاذ اپنے ملک میں کر رہے ہیں، وہاں حالت یہ ہے کہ خواتین گاڑی تک ڈرائیو نہیں کرسکتی ہیں۔ یہاں آدھا سماج منظر سے غائب ہے اور ہرجگہ مردوں کا ہی اقتدار نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی اصلی اسلام ہے جو آج مسلم ممالک اور مسلم معاشرے میں نظر آتا ہے؟ کیا یہیوہ مساوی حقوق ہیں جو اسلام نے خواتین کو دیئے ہیں؟کیا اسلام نے عورتوں کو اسی طرح رکھنے کا حکم دیا ہے جس مقام پر مسلم معاشرے نے انھیں رکھا ہوا ہے؟
عہد نبوی کا معاشرہ اور آج کا مسلم سماج
ہماری سوچ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ مسلمان عورت کے آئی اے ایس بننے پر ہمیں اعتراض ہوتاہے۔ اسے پائلٹ بن کر ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اسے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ملی ،ملکی اور سماجی مسائل پر آواز اٹھاتے ہوئے ہم پسندنہیں کرتے، مگر گھر میں جھاڑو، برتن کرانے میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ بچوں کی غلاظت صاف کرانے اور نوکروں کے کام کاج کرانے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے، بلکہ نوکروں کو توصرف آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے مگر عورت بغیر تنخواہ کی نوکر ہے جو چوبیس گھنٹے سروس دیتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے علماء کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے۔ کیا ملکہ ایسی ہی ہوتی ہے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ سماج میں اعلیٰ مقام صرف اسے ملتا ہے جس کے پاس پیسے ہوتے ہیں اور مسلم سماج نے خواتین کے کام کاج پر پابندی لگادی ہے جس کے سبب وہ خود کفیل نہیں ہوتیں اور ہمیشہ مردوں کی دست نگر رہتی ہیں۔ انھیں مرد کی ہرنازیبا بات صرف اس لئے برداشت کرنی پڑتی ہے کہ وہ ان کا خرچ چلاتا ہے۔ اس سوچ میں اگرچہ اب تبدیلی آرہی ہے مگر اس کی رفتار بہت سست ہے۔ تاریخ وسیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کی ایک تجارت پیشہ خاتون تھیں اور زمانہ جاہلیت میں بھی ان کے کام کاج کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماتحت کام کیا اور آپ کی مردانہ حمیت کو کبھی اس بات سے ٹھیس نہیں پہنچی کہ ایک عورت کے ماتحت کام کریں۔ حضرت خدیجہ کے عالم اسلام پر احسانات ہیں کہ انھوں نے اپنی دولت کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت پر نچھاور کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے اسلام کا پیغام قبول کیا اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ان کے انتقال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شادیاں کیں ان میں ایک حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تھیں اور اپنی کمائی سے جو کچھ حاصل کرتیں اس کا بیشتر حصہ اللہ کے راستے میں خیرات کردیا کرتی تھیں۔ ان دوواقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عہد رسول میں خواتین کے کام کاج کرنے اور پیسے کمانے پر کوئی پابندی نہیں تھی بلکہ خود رسول اللہ کے گھر کی خواتین کماتی تھیں۔ اسی طرح سیاسی ، سماجی مسائل پر بھی خواتین کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی تھی اور ان کے مشوروں کا خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پاس رکھتے تھے۔ آپ اپنے گھر کی عورتوں سے مشورے کیا کرتے تھے اور یہ خواتین جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں اور اسلام کی حفاظت کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ لڑتی تھیں۔حالانکہ اسلام نے خواتین پر جہاد فرض نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سرگرمی کے ساتھ سیاست میں بھی حصہ لیا تھا۔ اسلام نے کماکر گھر چلانے او ر بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بھی مردوں پر ڈالی ہے لیکن اگر وہ کمانا چاہیں اور آگے بڑھنا چاہیں تو اسلام نے اس سے انھیں روکا بھی نہیں ہے۔ کام کاج اور سماجی ایشوز میں عورت کوحصہ لینے سے روک دینے کا مطلب یہ ہے کہ آدھے مسلم سماج کو برف لگادینا اور اسے ناکارہ بنا دینا۔ 
اعتدال کے راستے سے دوری
موجودہ مسلم معاشرے میں اسلام اور جدت پسندی کو ایک دوسرے سے کی ضد سمجھا جاتا ہے۔ جو مسلم خواتین کام کاج کرتی ہیں، ملازمت کرتی ہیں یا سیاست میں حصہ لیتی ہیں ، ان کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کم ہی واسطہ رہتا ہے، جب کہ اسلام پسند اور مذہبی قسم کی خواتین گھروں میں قید رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سماجی حالت ایسی کیوں ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان عورت اسلام کی پابندی کرے، جسم کو چھپانے والا لباس پہنے اور اسی کے ساتھ وہ ملازمت بھی کرے، سیاست میں حصہ داری کرے، سماجی خدمت انجام دے اور کسی پروفیشن میں اپنا کریئر بنائے۔ ہمارے ہاں عجیب افراط وتفریط کا عالم ہے کہ جو خواتین گھر کی چہاردیواری سے قدم نکالتی ہیں وہ تمام اسلامی احکام کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں اور جو مذہب پسند ہوتی ہیں وہ دبیز برقعے میں اس طرح قید رہتی ہیں کہ ہاتھ پر دستانے اور پیر میں موزے چڑھا کرہی کسی ضروری کام سے باہر جاتی ہیں۔اصل میں مسلم معاشرے میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو اسلامی تعلیمات کو دنیاوی ترقی میں رکاوٹ مانتا ہے تو دوسرا طبقہ وہ ہے جو کسی بھی فضول رسم ورواج کو اسلام کے نام پر قبول کرلیتا ہے اور اعتدال کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام انسان کی بھلائی کے لئے آیا ہے، اس کے لئے آسانیاں پیدا کرانے کے اتارا گیا ہے نہ کہ خواہ مخواہ کی پابندیاں لگاکر اسے پریشان کرنے کے لئے۔اسلام کی نظر میں مرد جس طرح سے انسان ہے اسی طرح عورت بھی انسان ہے۔ جس طرح مرد کے لئے اس کا دامن وسیع ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی وہ رحمت ہے۔ وہ ترقی کے راستے کھولنے کے لئے نازل کیا گیا ہے نہ کہ راستے بند کرنے کے لئے۔ اسلام نے جس طرح خواتین کے لئے جسم کو چھپانے کا حکم دیا ہے اسی طرح مردوں کو بھی حکم دیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ خواتین پردہ کریں اور مرد بے پردہ رہیں، درست نہیں ہوگا۔ اسلام نے کہیں نہیں کہا ہے کہ مرد جیسا چاہے لباس پہنے اور خواتین اس طرح پردہ کریں کہ ان کی آواز بھی نہ سنائی دے۔ عہد بنوی کے معاشرے میں خواتین ہر قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں یہاں تک کہ مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے لئے بھی آتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آج بھی کتابوں میں موجود ہے کہ ’’اللہ کی بندیوں کو اس کے گھر میں آنے سے مت روکو‘‘ مگر ہم نے اپنے خودساختہ قوانین کو خدائی قانون سے بھی بالاتر کر رکھا ہے۔ آج کم ہی مسجدیں ایسی نظر آتی ہیں جہاں خواتین کو داخلے کی اجازت ہو۔موجودہ مسلم معاشرے نے ان سے ان کے حقوق چھین لئے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ یہ خواتین کا استحصال ہے جس کے لئے مسلمان مرد ذمہ ہیں جن کا قبضہ مسلم معاشرے کے سیاہ سفید پر ہے۔ اسلام کے وہ قوانین جنھیں خواتین کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا ، ان کا استعمال آج انھیں کے خلاف ہتھیار کے طور پر ہورہا ہے۔ ہم نے مردوعورت کے درمیان فرق پیدا کیا ہے ورنہ قرآن کی نظر میں ان کے حقوق برابر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم معاشرہ انھیں وراثت تک میں حصہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ کی نظر میں جس طرح مرد انسان ہے اسی طرح عورت بھی انسان ہے اور خود اللہ ان کے اندر بھید بھاؤ نہیں کرتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: 
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو‘ جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بے شمار مردو عورت پھیلائے اور تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ جس کے نام سے ایک دوسرے سے مطالبہ کرتے ہو اور قرابت سے ڈرو۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تم سب کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘ (آل عمران4-)
’’جو کوئی نیک کام کرے گا‘خواہ وہ مرد ہویا عورت‘ بشرطیکہ صاحب ایمان ہو‘ہم اس کو اس کے اچھے کاموں کا بدلہ دیںگے۔‘‘ (سورۃالنحل97/)
’’جو شخص گناہ کرتاہے‘ اس کو برابر برابر ہی بدلہ ملتاہے‘ اور جو شخص نیک کام کرتا ہے‘ خواہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ مومن ہو‘ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے۔ وہاں انہیں بے حدلطف ملے گا۔ (سورۃالمومن40/)(یو این این)

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے