اورنگ زیبؒ کے دیس میں (قسط ۲)

عبد الحمید اسید عیدروسہ

رابعہ دُرّانی بی بی کا مقبرہ:
طلبا کے چہرے پر فرحت و شادمانی کے آثار رونما ہورہے تھے، کیونکہ ماں کی محبت میں سنگ مرمر سے آراستہ کیے ہوئے تاج محل نما ایک خوبصورت عالیشان عمارت کی زیارت کرنی تھی، بہرحال وہاں پہونچتے ہی فوراً ایک ایک ٹکٹ پچیس روپیے میں خریدا گیا جو کوئنس کی شکل میں ہم طلبا کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا اور جس کے گم کرنے پر ایک سو پچیس روپیہ جرمانہ کا بھی اعلان کیا گیا۔ بہرکیف اندر داخل ہوئے تو ہر طرف ہریالی اور خوبصورت درخت بوئے ہوئے تھے جو مقبرہ کی عمارت کے حسن کو دوبالا کررہے تھے، اورطلبا ایسے محسوس کررہے تھے گویا تاج محل میں داخل ہورہے ہیں، مقبرہ کے کنارے چاروں طرف تاج محل کی ہی طرح چار لمبے لمبے منارے تھے جو ایک خوبصورت منظر پیش کررہے تھے۔ گردش ایام، زمانہ کی اُلٹ پھیر اور سخت ہواو ¿ں کے ساتھ آنے والی تند و تیز آندھیوں کے باوجود ایک پرشکوہ اور قابل دید عمارت جو ماں کی محبت کی جاودانیت کا زبان حال سے قصیدہ سنارہی ہے، دیکھنے والوں کے دلوں کو موہ رہی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کی چہیتی ایرانی بیوی دِلرس بانو جو رابعہ دُرّانی کے لقب سے مشہور تھی اورنگ آباد کی خاک میں دفن ہے اس کی یاد میں تعمیر کیا گیا، یہ مقبرہ بالکل تاج محل آگرہ کے نمونہ پر بنا یا گیا ہے، لیکن یہ مماثلت محض طرزِ عمارت اور ظاہری شکل تک محدود ہے، تاج محل کے مقابلہ میں اس کا سائز چھوٹا ہے، بجائے سنگ مرمر کے زیادہ تر چونے ، اینٹ اور پتھر کا ہی استعمال اس عمارت میں کیا گیا ہے۔ یہ عالیشان اور دلکش مقبرہ شہزادہ اعظم شاہ نے اپنی ماں کی محبت میں بنوایا تھا، اورنگ زیب بادشاہ نے اپنی بیگم کے شاندار مقبرہ کے پاس ایک مسجد بھی بنوائی تھی، اس مسجد اور مقبرہ کے بنانے میں زر خطیر خرچ ہوا، اس لیے کہ اس میں سنگ مرمر کا استعمال ہوا ہے۔ ایک فرانسیسی سیّاح جس نے سترھویں صدی کے وسط میں دکن کے ایک بڑے حصہ کا سفر کیا اپنے سفرنامہ (سلسلہ آصفیہ) میں لکھتا ہے کہ ”سنگِ مرمر جو لاہور کے قرب وجوار سے چھکروں میں بھر کر تقریباً چار مہینہ میں آیا، ایک مرتبہ جبکہ سورت سے جارہا تھا تو مجھے اورنگ آباد سے پانچ منزل پر تین سو چھکڑوں سے زیادہ چھکڑے ملے جن میں سنگِ مرمر بھرا ہوا تھا، ان میں سے ہر گاڑی میں کم از کم بارہ بیل جوتے ہوئے تھے، مقبرہ کے اطراف کے باغات وغیرہ کے طرز بھی ہو بہو تاج محل کے ہے، اس مقبرہ کو اورنگ زیب کے فرزند شہزادہ اعظم شاہ نے عطاءاللہ معمار کے ذریعہ ۱۷۰۱ھ میں چھ لاکھ اڑسٹھ ہزار دو سو تین روپئے سات آنے خرچ کرکے بنوایا ہے، لیکن صوبہ ¿ دکن کے قدیم فرد حساب کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اٹھارہ لاکھ روپیے صرف ہوا ہے، یہ عطاءاللہ تاج محل کے معمار احمد کا بیٹا تھا۔مقبرہ کی یہ عمارت اسلامک طرز کی ایک بے نظیر اور نہایت خوبصورت، حسین و جمیل عمارت ہے، اس کی خوبصورتی اور رعنائی ہر دیکھنے والے کی نظر کو اپنے جانب کھینچتی ہے۔ احاطہ مقبرہ کی کل زمین چھتیس ہزار مربع مکسر ہے، اس کے اطراف ایک وسیع صحن ہے جو پانچ سو گز لمبا اور تین سو گز چوڑا ہے، اس کے احاطہ میں ایک پُر فضاءباغ ہے، اسی طرح اس مقبرہ کا چبوترہ بھی وسیع ہے، اس کے کونوں پر چار مینار اڑتالیس فٹ کے مدوّر اور بہتّر بہتّر فٹ کے بلند ہیں اور ان کے اندر زینہ ہیچدار میناروں پر چڑھنے کے لیے بنا ہوا ہے، ایک سو بائیس سیڑھیاں ہیں، مینار کی آخری منزل پر پہونچنے سے شہر کی تمام عمارتیں اور دور دور کے باغات بہ حسن و خوبی دکھائی دیتے ہیں اور ان کا نظارہ بڑا دلچسپ اور دلکش معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح مقبرہ کے بیچ میں زیر گنبد تعویز مرقد سنگ مرمر کا بہت خوبصورت بنا ہوا ہے، یہان سے چوبیس سیڑھیاں اتر کر تہہ خانے کے بیچ میں اصلی قبر ہے۔ دِلرَس بانو بیگم جن کا لقب رابعہ دُرّانی تھا ان کا انتقال اورنگ آباد میں اکتوبر سولہ سو ستاون عیسوی ۷۵۶۱ءمیں ہوا، ان کی قبر سنگِ مرمر کے چبوترہ پر ہے،ا س سے کوئی ایک فٹ اونچی اور اس کے بیچ میں مربع جگہ ہے جو مٹی سے بھری ہوئی ہے۔ اس طرح یہ مقبرہ ان پہلے درجہ کی مغلیہ عمارتوں میں داخل ہے جو ان کے جاہ و جلال اور صناعی کو ظاہر کرتا ہے۔ (تاریخ اورنگ آباد اور خجستہ بنیاد) 
پن چکی: 
ظہر کی اذان ہوئی تو فوراً مقبرہ سے نکل کر پن چکی کی طرف روانہ ہوئے، گھڑی کے تقریباً دیڑھ بج رہے تھے، پن چکی پہنچ گئے، پن چکی کے علاقہ کے اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک حوض بنا ہوا تھا جو کسی نہر سے جڑے رہنے کی وجہ سے اس میں آرہا تھا اور حوض کے ایک جانب ایک چکی رکھی ہوئی تھی اور اس کے نیچے ہی ایک پنکھا تھا جو چکی سے جوڑ دیا گیا تھا، نہر سے اس کا تعلق تھا، نہر کا پانی اس پنکھے پر گرنے کی وجہ سے پنکھا گھومنے لگتا تھا جس کی وجہ سے آٹا پیسنے کے لیے بنائی گئی پن چکی گھومنے لگتی، پہلے یہ پنکھا لکڑی کا بنا ہوا تھا وہ پنکھا ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس کی جگہ لوہے کا پنکھا لگوایا گیا، حوض کے کنارے ایک برگد کا بہت اونچا درخت کھڑا ہے، اس کے بارے میں مقامی طور پر یہ مشہور ہے کہ یہ کافی پرانا درخت ہے اور اس کے نیچے پہلی بار حضرت بابا شاہ مسافرؒ نے قیام فرمایا تھا جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے، اسی حوض کے ایک گوشہ میں برگد کے پیڑ کے قریب ایک گہرا کنواں ہے اور یہ کنواں بابا شاہ مسافرؒ کے زمانہ میں فقراءکے لیے کھدوایا گیا تھا، اس کی کھدائی میں خود بابا شاہ مسافرؒ نے بنفس نفیس فقراءکے ساتھ حصہ لیا، بعد میں نہر سے جوڑ دینے کی وجہ سے یہ حوض تعمیر ہوا، پھر اس کنویں کو اسی حوض میں داخل کیا گیا۔ یہ حوض پچاس فیٹ لمبا اور چالیس فیٹ چوڑا اور نو فیٹ گہرا ہے، یہ پن چکی اس لیے بنائی گئی تھی کہ ”حضرت باباشاہ مسافرؒ کے اس تکیہ میں رازق حقیقی کی شان ایک کھلی حقیقت کی طرح جلوہ گر تھی، فقراءو مساکین اور کئی سو یتیموں کی یہاں مستقل سکونت تو تھی ہی، مسافروں اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شب و روز جاری رہتا، ان سب کے نان و نمک کا سر انجام لنگر خانہ سے ہوتا، شُولہ کے علاوہ کم و بیش تین چار من آٹے کا روزانہ صرفہ تھا جس کی پسوائی انسانی ہاتھوں اس دور کی چکیوں کے ذریعہ امر تعزیری سے کم نہ ہوتی، اس لیے منتظمین نے بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو رائیگاں نہیں جانے دیا اور ایسی چکی ایجاد کی جو چلتی تھی تو اس وقت کی اہم ضرورت کو پورا کرتی تھی اور ساکن ہے تو آج بھی جاذبِ نظر ہے۔ “ (مزار کے قریب نقش شدہ کتبے سے ماخوذ ہے)
یہاں پر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے اور باباشاہ جب پہلی بار تشریف لائے تو اس مقام پر ایک خس پوش مسجد موجود تھی، یہی خس پوش مسجد بتدریج پختہ بنی۔ بہر حال ظہر کی نماز کا وقت بھی کافی ہوتا جارہا تھا تو دو بجے مولانا رحمت اللہ صاحب ندوی کی امامت میں اسی مسجد کے اندر ہم لوگوں نے نمازادا کی۔
حضرت محمد عاشور بابا شاہ مسافرؒ: 
آپ کا اصلی نام محمد عاشور ہے، شاہ مسافر کا خطاب آپ کے پیر حضرت باباشاہ پلنگ پوشؒ نے دیا تھا۔ آپ کی پیدائش مو ¿رخین کا قیاس ہے کہ ۰۶۰۱ھ کے بعد کے کسی سال وسط ایشیاءکے مشہور شہر بخارا کے قریب ایک مردم خیز قصبہ غجدوان میں ہوئی۔ آپ کمسن ہی تھے والدین کا سایہ ¿ عاطفت سر سے اٹھ گیا، خالہ نے آپ کی پرورش کی۔ حصول علم کے لیے سات سال کی عمر میں غجدوان سے بخارا تشریف لائے، پھر یہیں پر آپ نے کلام مجید کو حفظ کیا اور بقیہ علوم کی تکمیل کی۔ دوران تعلیم باباشاہ سعید پلنگ پوشؒ کو بیٹھے دیکھا، بے اختیار طبیعت ان کی طرف کھینچ گئی،ا سی طرح تعلیمی سفر ہوتے رہے، بنگال پہنچنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ آپ کے پیر اور نگ آباد میں قیام پذیر ہیں تو آپ بھی اورنگ آباد پہنچ گئے اور اپنے آپ کو اپنے پیر کی خدمت میں وقف کردیا۔ حضرت باباشاہ سعید پلنگ پوشؒ نے اپنی خلعت سے سرفراز کیا، کچھ دن بعد باباشاہ مسافرؒ اپنے پیر کی اجازت سے حرمین شریفین کی زیارت کےے لیے پیدل قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ کی حاضری کے بعد پیر کی کشش آپ کو ہندوستان لے آئی۔ حضرت باباشاہ مسافرؒ پر خشیت الٰہی کا رنگ غالب تھا، آپ کے ارادت مندوں میں غریب سے لے کر بڑے بڑے صاحبان اقتدار غرض سب ہی طرح کے لوگ شامل تھے۔ بہرحال ۵۲۱۱ھ میں حضرت بابا شاہ مسافرؒ بیمار ہوگئے، ضعیف العمری کے سبب آپ کو کئی امراض نے گھیر لیا اور آخر کار ۵/ رجب المرجب ۶۲۱۱ھ بروز منگل مغرب کی اذان سن کر اس دار فانی سے کوچ فرماگیے۔ انتقال کے بعد خانقاہ ہی کے احاطے میں اپنے پیر پلنگ پوشؒ کے پہلو میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ 
چونکہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوگئے تھے اس لیے میں اور ماسٹر سمیع اللہ صاحب نے ان کے مزار پر پہنچ کر قبر کی زیارت کی، پھر فاتحہ پڑھ کر وہاں سے فوراً نکل گئے۔ 
دولت آباد قلعہ: 
اب پن چکی سے نکل کر دولت آباد کے لیے روانہ ہوئے، راستہ میں بس پر امرود اور سنترے بڑے مزے سے کھاتے تھے اور ہمارے اساتذہ ¿ کرام اپنے ہاتھوں سے خود پھل کاٹ کاٹ کر دیتے تھے، بار بار پوچھتے تھے کہ کسی کو چاہیے، کوئی باقی تو نہیں ہے ! ان کے اس محبت بھرے انداز سے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ایک باپ اپنے بچوں کو کھلا رہا ہو۔ 
بہر حال اسی طرح چلتے رہے ، ماسٹر سمیع اللہ صاحب اور مولانا عمار صاحب پچھلی سیٹوں میں آکر بیٹھ گئے اور ہنسی مزاق کرنے لگے، ماسٹر صاحب کہانیاں سنانے لگے، طلبا بڑے شوق سے اپنی توجہ کو ان کی طرف مرکوز کرکے سننے لگے، کہانیاں زیادہ تر مولویوں کے متعلق تھی، صرف مولویوں کی مزاحیہ کہانیاں سنا رہے تھے، اچانک مولانا عمار صاحب کہنے لگے کہ کیا سر آپ کو تو صرف مولویوں کی کہانیاں یاد ہے تم جیسے ماسٹروں کی کہانیاں یاد نہیں ہے کیا، اس بات پر سارے طلبا دیر تک ہنستے رہے۔ قلعہ پہنچنے سے پہلے ماسٹر صاحب نے قلعہ کے متعلق بتایا کہ یہاں پر سات سو سیڑھیاں چڑھنا ہے، طلبا بڑے طنز بھرے انداز میں پوچھنے لگے کہ ہم سیڑھیاں چڑھ کر کیا کریں گے ؟ ماسٹر صاحب نے کہا؛ ارے بیوقوفو! آگے چل کر اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم نے زندگی میں کیا کیا تو بتانا کہ ہم سات سو سیڑھیاں چڑھ چکے ہیں،ا س پر بھی طلبا کا فی دیر تک ہنستے رہے۔ بہر حال تین بج کر پانچ منٹ پر دولت آباد قلعہ پہنچ گئے۔ پہلے ٹکٹ خریدا گیا پھر قلعہ کے اندر چلنے لگے، اندر چلتے ہی سب سے پہلے بندروں نے ہمارا پوری گرم جوشی سے استقبال کیا، قریب تھا کہ وہ معانقہ بھی کرلیتے لیکن طلبا کو اس کے لیے ہمت نہ ہوئی، جس کے بھی ہاتھ میں تھیلیاں دیکھتے تو وہ کھینچے بغیر نہیں رہتے تھے۔ ہمارے درجہ کے ایک ساتھی مفیض خلیفہ کو بس پر رکھی ہوئی کھانے کی چیزوں کو لانے کے لیے بھیج دیا گیا جن کا مدرسے کی طرف سے تمام طلبا کے لیے انتظام کیا گیا تھا، کئی قسم کے کھانے اس میں موجود تھے، جب بندروں نے اس کو آتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ بھائی ہمارے لیے کچھ لارہے ہیں، تو ان پر ایسے لپک پڑے کہ وہ ڈر کے مارے تھیلے کو ان کے حوالے کرکے بھاگنے لگے، اس میں اتنا کھانا تھا کہ میرے خیال سے بندروں نے پورا ہفتہ اسی پر گزارا کیا ہوگا۔ بہرکیف آگے چلنے لگے، قلعہ نیچے سے دیکھنے پر کافی اونچا معلوم ہوررہا تھا۔ اوپر چڑھنے لگے، چڑھتے چڑھتے تھک کر کسی جگہ بیٹھتے تو تھوڑی دیر آرام کرتے، پانی پیتے پھر اوپر چڑھنے لگتے تھے، یوں معلوم ہورہا تھا کہ ہم ماو ¿نٹ ایوریسٹ پر چڑھ رہے ہیں۔ اب قلعہ کے قریب پہنچنے ہی والے تھے، اوپر سے ماسٹر سمیع صاحب واپس آنے لگے جو سب سے پہلے چند طلبا کے ساتھ اوپر چڑھ گئے تھے اور بڑے فخر سے کہنے لگے، چلو بھائی فتح ہوگیا ہے اوپر چڑھو اب کوئی پریشانی نہیں، یوں معلوم ہورہا تھا کہ محمد بن تغلق کے ساتھ فتح کرنے میں یہ بھی شامل تھے۔اللہ اللہ کرکے اوپر پہنچ گئے، کافی بلندی پر رہنے کی وجہ سے گویا پورا مہاراشٹرا نظر آرہا تھا جو دیکھنے والوں کے لیے ایک خوبصورت منظر معلوم ہورہا تھا، وہاں پر ایک توپ رکھا ہوا تھا جو کئی ٹن وزنی تھا، وہ اتنا وزنی تھا کہ میرے خیال سے اگر ۰۴ یا ۰۵ لوگ بھی اٹھانے کی کوشش کرتے تب بھی وہ اپنی جگہ سے اٹھ نہ سکتا تھا، اس کو تو قلعہ کی حفاظت کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس طرح سفر کے ذمہ داروں میں سے صرف دو حضرات مولانا عمار صاحب اور ماسٹر سمیع اللہ صاحب ہم طلبا کے ساتھ اوپر آنے میں کامیاب ہوئے، باقی اساتذہ نے ہمت بھی نہیں کی۔ یہ پورا قلعہ پہاڑ کو تراش کر بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے پرکشش معلوم ہورہا تھا۔ یہ دولت آباد اس کا پرانا نام دیوبیری تھا، یہاں کا یہ قلعہ ۷۸۱۱ءمیں یادو نامی بادشاہ نے پہاڑ کو تراش کر ایک مضبوط قلعہ کی شکل میں تعمیر کرایا تھا۔ ۷۲۳۱ءمیں محمد بن تغلق نے اس کو فتح کیا اور اس کا نام دولت آباد رکھا اور انھوں نے دہلی سے اپنا پایہ تخت دولت آباد منتقل کیا، لیکن دو سال کے اندر ہی پانی کی قلت کی وجہ سے اپنا پایہ تخت پھر سے دہلی منتقل کرنا پڑا۔ اس قلعہ کی بہت سی خصوصیات ہیں، اس قلعہ کے اندر خفیہ راستوں کی بھول بھولیّاں ہیں اور بڑی سی خندق بھی ہے، دور کئی جگہوں پر دشمن فوج کو دھوکہ دینے کے لیے کئی دروازے بنائے گئے ہیں جو سیدھے کھائی میں جاکر گرتے ہیں، اسی طرح یہاں پر چاند مینار بھی ہے جسے علاءالدین بہمن شاہ نے ۸۵۳۱ءمیں قطب مینار کی نقل کرتے ہوئے تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعہ میں اورنگ زیب نے ایک چینی محل کی تعمیر کی تھی جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، چونکہ وقت کافی ہوگیا تھا اس لیے ہم قلعہ کو پورے طور پر دیکھنے سے قاصر رہے۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹہ کے بعد قلعہ سے اترے اور فوراً یہاںسے خلد آباد اورنگ زیبؒ کی قبر کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ 
ایک نظر اورنگ زیب عالمگیرؒ پر: 
مغلیہ سلطنت کا چھٹا بادشاہ جس نے ۸۵۶۱ءسے ۷۰۷۱ءتک تقریباً پورے پچاس برس حکومت کی اور وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا جس کی وفات سے مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا جسے دنیا اورنگ زیب عالمگیرؒ کے نام سے جانتی ہے۔ 
جن کا نام محی الدین تھا، اورنگ زیب لقب، ان کے والد شاہ جہاں نے انہیں عالمگیر کا خطاب دیا۔ اورنگ زیب نے بچپن ہی سے دینی تعلیم کا آغاز کیا، وہ مغل بادشاہوں میں پہلا بادشاہ ہے جس نے قرآن شریف کو حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا، اس کے علاوہ گھڑ سواری، تیر اندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں ۶۳۶۱ءکو دکن کا صوبیدار مقرر ہوا، اس دوران کئی بغاوتوں کو فرو کیا، اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ 
تخت نشینی: 
اورنگ زیب روز جمعہ ذیقعدہ ۸۶۰۱ھ کو تخت نشین ہوا، اس موقع پر مغلیہ رسم و آئین کے مطابق نمود ونمائش نہیں کی گئی، بلکہ نہایت ہی سادگی کے ساتھ رسم تختِ نشینی عمل میں آئی، اسی طرح اورنگ زیبؒ سفید اور سادہ لباس پہن کر تخت نشین ہوئے۔ اورنگ زیبؒ کو تخت نشین ہوئے اگرچہ ایک سال ہوگیا تھا لیکن اس وقت تک خطبہ و سکہ شاہ جہاں ہی کے نام کا جاری تھا، احکامات پر مہر بھی شاہ جہاں کے نام کی ہی لگائی جاتی تھی، جب دارا کو عالمگیر نے اجمیر کے مقام پر شکست دی اور فتح یاب ہوکر دہلی آئے تو امراءنے جلوس ثانی فرماکر اپنے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کرنے کا مشورہ دیا، چنانچہ اورنگ زیبؒ نے جلوس ثانی کا اعلان کردیا، ۴۲ رمضان المبارک ۹۶۰۱ھ جلوس ثانی کی تاریخ مقرر ہوئی،ا س وقت ان کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ 

مذہبی دستور العمل: 
اورنگ زیب عالمگیرؒ وقت کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایک متقی اور پرہیزگار انسان بھی تھے، اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف کیا، آپ وضو کرکے اکثر اوقات حمد باری میں صرف کرتے تھے، ایام مبارک اور جمعہ کے دن بھی برابر روزے رکھتے ، جمعہ کی نماز جامع مسجد میں عام مسلمانوں کے ساتھ ادا کرتے، کمال تقوی کے باعث پوری پوری رات اپنے محل کی مسجد میں بیٹھے رہتے، عابدوں سے صحبت رکھتے، خلوت میں کبھی تخت پر نہیں بیٹھتے، چاندی اور سونے کے برتن کا کبھی استعمال نہیں کرتے، ان کے مقدس دربار میں کوئی بے ہودہ گفتگو نہیں ہوتی تھی اور غیبت کا ایک لفظ بھی منھ سے نکل نہیں پاتا۔ عالمگیرؒ نے اپنے زمانے میں تعلیم اور درس و تدریس کو جس قدر ترقی دی تھی ہندوستان میں کبھی کسی کے عہد میں نہیں ہوئی، عالمگیرؒ کے عہد حکومت کا سب سے بڑا روشن کارنامہ ان کا عددل و انصاف ہے جس میں عزیز و بیگانہ، غریب و امیر، دوست و دشمن کی کوئی تمیز نہ تھی، پورے ملک میں جس قدر مسجدیں تھیں سب میں امام و مو ¿ذن و خطیب مقرر کئے، جن کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی تھی، اسی طرح اورنگ زیبؒ جب تخت نشین ہوئے تو انھوں نے ہندو ¿وں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کی اور فحاشی کا انسداد کیا، خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی، بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا، سجدہ کرنا، ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا، اسی طرح سکّوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا،اورنگ زیبؒ نہایت رحم دل اور انصاف پسند بادشاہ تھا، اورنگ آباد میں اورنگ زیبؒ کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں، وہ بڑا متقی، پرہیزگار، مدبر اور اعلی درجہ کا منتظم تھا، خزانے سے ذاتی خرچہ کے لیے کبھی کوئی چیز نہیں لیتا تھا، بلکہ قرآن مجید لکھ کر، ٹوپیاں سی کر اپنا گزارا کیا کرتا تھا، وہ ایک سلجھا ہوا ادیب بھی تھا، اسلامی فکر کا امین اور محافظ بھی تھا، اس کے خطوط رقعات عالمگیرؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اسی طرح اپنے زمانے میں انھوں نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا وہ یہ تھا کہ شرعی مقدمہ کے فیصلہ کے لیے کوئی جامع و مانع کتاب موجود نہ تھی جس میں تمام مفتیٰ بہ مسائل جمع کردئے گئے ہوں، چنانچہ آپ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے تمام علماءو فضلاءکو جمع کرکے تصنیف کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا، ان علماءکی کئی برس کی لگاتار محنت کے بعد وہ کتاب تیار ہوئی جو آج فتاویٰ عالمگیریؒ کے نام سے مشہور ہے، اور عرب و روم میں وہ فتاوی ہندیہ کہلائی جاتی ہے، فتاویٰ عالمگیریؒ فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے، یہ اور اسی طرح کے دیگر دینی و اصلاحی کارناموں کی وجہ سے بعض علماءنے اورنگ زیبؒ کو اپنے دور کا مجدد قرار دیا ہے۔ 
وفات:
 اب خاتمہ کے دن قریب آچکے تھے، جگہ جگہ فساد چل رہا تھا، ملتان میں سکھوں کا زور شروع ہوچکا تھا، دکن کی حالت ایک جنگل کی سی تھی، اتنے عرصوں کی تکلیفوں سے آخر کار بادشاہ کی تندرستی نے جواب دے دیا، اور جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو خود ہی انھوں نے یہ کہا کہ بس اب میرے سفر کا خاتمہ ہے۔ بہرحال ایک ہفتہ تک آپ صاحب فراش رہے اور اسی حالت میں آخر شبِ جمعہ ۸۲ ذیقعدہ ۸۱۱۱ھ مطابق ۳ مارچ ۷۰۷۱ءکو پچاس برس کی سلطنت کرکے ۱۹ سال کی عمر میں نماز فجر پڑھ کر کلمہ پڑھتے شہنشاہ عالمگیرؒ نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔ شہر احمدنگر میں وفات پائی اور وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیے گئے، یہ اورنگ آباد سے ۳۱ کلومیٹر دور چھوٹا سا قصبہ ہے یہاں پر ان کا مزار ہے، اس علاقہ میں بہت سے اولیاءمدفون ہیں جن میں حضرت برہان الدینؒ اور زین الدینؒ بہت ہی مشہور ہیں، ان کی وصیت کے مطابق ان کے پیر و مرشد شیخ زین الدینؒ کے بغل میں ان کو دفن کیا گیا، یہاں پر اورنگ زیبؒ کے بڑے فرزند اعظم شاہ کا بھی مزار ہے، دکن کے نوابوں نے حضرت اورنگ زیبؒ کے قبر کی نشاندہی کے لیے کچھ نشانات لگائے ورنہ ان کی وصیت تھی کہ ان کی قبر کو مقبرہ نہ بنایا جائے، جب ہم نے ان کی قبر کی زیارت کی تو بالکل عام قبروں کی طرح پایا، نہ کوئی عمارت تھی اور نہ گل بوٹوں سے مزین کرکے خوبصورت کیا گیا تھا۔
یہی ایک سچے پکے مسلم حکمراں کی شان ہوا کرتی ہے،اور ایک جوان مرد باہمت اور متقی انسان کے اندر اسی طرح کے اوصاف پائے جاتے ہیں، وہ وقت کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ان تمام اوصاف کا حامل ہونا خدا کی توفیق اور نصرت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ 
آج کل کے مسلم حکمرانوں کا ان سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو زمین و آسمان کا فرق ہوگا، ان کو تو اپنی جان پر کھیل کر خدا کے کلمہ کو نافذ کرنے کے لیے جہاد کرنا پڑتا تھا، مگر آج کے مسلم حکمرانوں کو باپ دادا کی وراثت سے حکمرانی جن کے قدموں پر آپڑی ہو وہ قابلیت اور اہلیت کہاں سے حاصل ہوسکتی ہے؟ جو عیش و مستی سے باز آنے کے سلسلہ میں سوچ بھی نہیں سکتے، تو پھر ان سے کیا توقع کہ وہ خدا کے کلمہ کو نافذ کریں گے، جس پاک زمین پر کل تک شرک گوارا نہیں تھا آج نہ صرف اسی مقدس زمین پر آزادی سے شرک و کفر کی اجازت ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود ہمارے عرب بھائیوں میں جو اس روئے زمین پر توحید کے علمبردار اور اپنی ہزاروں کمیوں اور کمزوریوں کے باوجود کل تک اپنی اس ایمانی امتیازی شان کے لیے شہرت رکھتے تھے کھلم کھلا ان میں شرک سرایت کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے عرب ملک میں واقع ایک مندر میں علی الاعلان ہمارے بھائیوں کو عربی لباس میں عبا اور غترے کے ساتھ بت پرستی اور اس کے متعلق شرکیہ کاموں کو کرتے ہوئے دیکھا گیا اور پوری دنیا میں یہ ویڈیو وائرل ہوئی، ایک اس وقت کو یاد کیجیے جب ایک عرب حکمراں ہندوستان کے دورے پر تھے، ان کو بنارس میں ان علاقوں سے گزرنا تھا جہاں سرِ راہ مجسمے رکھے ہوئے تھے، ہندوستانی سرکار کی طرف سے اس عرب حکمراں کو ان کے توحیدی مزاج کے پیش نظر شرک کے سایہ سے بھی دور رکھنے کے لیے ان کے وہاں سے گزرتے وقت ان مجسموں کو کپڑوں سے ڈھانک دیا گیا تھا۔ 
ادنیٰ سا غلام اس کا گزرا تھا بنارس سے      منھ اپنا چھپاتے تھے شرما کے صنم خانے 
لیکن افسوس! آج ان ہی عرب ملکوں میں نہ صرف شرک و کفر گوارا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کے ساتھ خود اس میں اپنی شرکت سے بھی ان کو عار محسوس نہیں ہورہا ہے، اہل ایمان اور اہل تقوی و باحمیت مسلمانوں کے لیے ان کی سرزمین تنگ ہے، لیکن اسلام دشمنوں کے لیے نہ صرف کھلی ہوئی ہے بلکہ وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور اللہ کے نیک بندوں کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں اسلام دشمنوں کی ان کی طرف سے نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ مدد بھی کی جارہی ہے“۔ (ارمغان حجاز)
یہ تھے حضرت عالمگیرؒ کے چند نمایاں اوصاف جنھوں نے وقت کے بادشاہ ہونے کے باوجود کبھی آرام و راحت، عیش و مستی کی زندگی نہیں گزاری، نہ کبھی کسی پر ظلم و زیادتی کی، نہ عدل و انصاف کے دامن کو اپنے ہاتھ سے گرجانے دیا، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مسلمان ہو یا کافر سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا، افسوس کہ آج جس انداز سے اس نیک بادشاہ پر جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں تاریخ میں اس کا کوئی بیّن ثبوت نہیں مل سکتا۔ آپ کو یہ بات سن کر حیرت ہوگی کہ اورنگ زیبؒ کے زمانے میں بڑے بڑے عہدوں پر جن کو مقرر کیا گیا تھا تقریباً اکثریت غیر مسلموں کی تھی، اس کے باوجود اورنگ زیبؒ پر ھندو کشی کا الزام لگانا سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں۔ 
ہاں! ایک واقعہ عالمگیرؒ کا اپنی خلافت کے زمانے میں ایک مندر کو منہدم کرنے کا ملتا ہے جس کے اسباب کچھ تھے جس کا منفی اثر عوام پر پڑ رہا تھا اس لیے اس کو توڑنے ہی میں عافیت تھی، ا س کی وجہ سے اورنگ زیبؒ کو مندر شکن یا ظالم نہیں کہا جاسکتا۔ اس مندر کے انہدام کا پس منظر حقیقت شناس مو ¿رخ پانڈے جی نے اس طرح پیش کیا ہے: ”اورنگ زیب کے لشکر میں بہت سے راجہ اور جرنیل تھے، وہ جب اورنگ زیب کے ساتھ جاتے تھے تو پالکیوں میں ان کی رانیاں بھی ساتھ رہتی، ایک بار جب لشکر بنارس کے قریب سے گزررہا تھا تو انہوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ بنارس کی یاترا کر آئیں، اسی طرح بنارس کے مندروں میں پوجا پاٹ کرنے کے لیے اورنگ زیبؒ نے رانیوں کو بخوشی اجازت دے دی اور اپنی فوج کا ایک دستہ پالکیوں کی حفاظت کے لیے مقرر کیا، جب تین دن کے بعد پالکیاں واپس آئیں تو ایک پالکی کم تھی، چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک ہندو راجہ کی رانی واپس نہیں آئی، اس پر اورنگ زیب کے حکم سے شہر بنارس کو گھیر دیا گیا اور رانی کی تلاش شروع کردی، جب فوج نے سارا بنارس چھان مارا تب رانی ایک مندر کے تہہ خانے میں بند پائی گئی، وہ اپنے اوپر ہورہے ظلم و ستم پر گریہ وزاری کررہی تھی،اورنگ زیبؒ نے جب اس ظلم و ستم کی داستان سنی تو کہا کہ یہ مندر جہاں ایک پاکباز عورت پر اتنا ظلم روا رکھا گیا، بھگوان کا استھان نہیں شیطان کا اڈّہ ہے، اور سزا کے طور پر اس مندر کو منہدم کرنے کا حکم جاری کردیا، ممکن ہے کہ یہ حکم دینا غلط ہو مگر اورنگ زیبؒ کی نیت پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس میں ھندو ¿وں ہی کا فائدہ تھا اور ایک ہندو رانی کی خاطر یہ قدم اٹھایا گیا، نیز ان راجاو ¿ں نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا ۔ دوسری طرف مندروں کی حفاظت کے فرامین اور مندروں کے لیے جاگیر اور پجاریوں کے لیے وظائف مقرر کرنے کے واقعات بھی تاریخ میں جا بجا ملتے ہیں، ان واقعات کے بعد بھی اورنگ زیبؒ کو مندر شکن کہا جائے تو اس سے زیادہ غلط بیانی اور کیا ہوگی“(تاریخ اورنگ آباد اور خجستہ بنیاد)
بہر کیف چونکہ مغرب کا وقت ہوگیا تھا اس لیے مزار سے باہر نکلتے ہی اذان ہوگئی، تو فوراً یہاں سے کاشف العلوم روانہ ہوئے، وہاں پر ناشتہ تیار تھا، روٹیاں اور گوشت کا سالن بنایا گیا تھا، چنانچہ جلدی سے کھاکر فارغ ہوئے،ا س کے بعد فوراً ایک (mall) کی طرف روانہ ہوئے، تقریباً دیڑھ گھنٹہ گھومنے کے بعد طلبا باہر نکلے، پھر یہاں سے کاشف العلوم روانہ ہوئے، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاءکی نماز جمع تاخیر کی نیت سے ادا کی، نماز سے فارغ ہوتے ہی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، تقریباً گیارہ بج رہے تھے، تھوڑی دیر گفتگو کرنے لگے، وقت گزرتا گیا تقریباً ساڑھے بارہ بجے اپنا بستر بچھا کر سوگئے، پھر صبح نماز سے پہلے ہی بعض طلبا نہا دھوکر فارغ ہوئے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے وہاں کے امام مولانا ذاکر صاحب سے ملاقات کی، کچھ دیر بات کرنے لگے، پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ تقریباً پچیس سال سے درجہ حفظ میں تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں، ان کی عمر ۸۴ سال تھی، اس کے باوجود روزانہ ایک پارہ سنانے کا معمول تھا، انھوں نے بتایا کہ سال بھر ہمارا یہی معمول رہتا ہے، تھوڑی دیر بعد میں چند طلبا کے ساتھ مدرسہ کی چہاردیواری سے نکل کر اورنگ آباد کی گلی کوچوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے نکلا، تھوڑی دور چل کر ایک میدان میں ہم لوگ رک گئے جہاں صبح صبح بڑے چھوٹے سب جسمانی ورزش کررہے تھے، کوئی فٹ بال کھیلتا نظر آرہا تھا تو کوئی کچھ اور، حالاںکہ اکثر علاقوں میں اس وقت سب کے سب گہری نیند میں رہتے ہیں، جبکہ یہ صبح کا بہترین وقت ہوتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ (اللھم بارک لی امتی فی بکورھا) لیکن افسوس اس کے باوجود لوگ سونے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، اللہ سبھوں کو توفیق دے۔ اس کے بعد آپس میں باتیں کرتے کرتے واپس مدرسہ پہنچے۔ اب ہم کو یہاں سے مالیگاوں جاناتھا، تو فوراً اس کی تیاری کرنے لگے، جانے سے قبل وہاں کے ذمہ داروں نے خصوصی طور پر حضرت عالمگیرؒ کے ان کمروں کی زیارت کرائی جو مدرسہ کی چہاردیواری کے اندر ہی موجود تھے، جہاں پر فتاویٰ عالمگیری تصنیف کی گئی تھی، ان کمروں میں تھوڑی دیر بیٹھنے سے ایک قسم کی طمانینت حاصل ہوئی، اس لیے کہ اس وقت کا بادشاہ جو اپنی پوری زندگی راہ خدا میں صرف کرکے رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ کا مصداق بن چکا تھا، وہ اس کمرے میں آرام فرمایا کرتا تھا اور وقت کے علما ءو صلحاءکی مجالس وہاں پر لگا کرتی تھی، بہر حال یہاں سے باہر نکلے، روانگی سے قبل انھوں نے اپنے مدرسہ کے مختلف درجوں کا بھی مشاہدہ کروایا، اس کے بعد میں نے وہاں کے ناظم مولانا معز الدین فاروقی صاحب ندوی سے خصوصی طور پر ملاقات کی، درخواست کرنے پر انھوں نے اپنے قلم سے چند سطریں نصیحت کے طور پر ہم طلبا کے لیے تحریر فرمائیں۔  (جاری)

«
»

رمضان کے مہینے کا استقبال کیسے کریں؟

بابری مسجد کا انہدام۔ پرگیہ ٹھاکر کے فخریہ کلمات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے