ظفر آغا
اللہ رے ہم ہندوستانی مسلمانوں کی بے حسی! ارے اب تو میں خود یہ جملہ لکھتے لکھتے تھک گیا مگر ہماری بے حسی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر میں یہ کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا! تو سنئیے۔ جب نریندر مودی کے بر سراقتدار آنے کے بعد دہلی کے قریب محمد اخلاق نام کے شخص کی دادری میں موب لنچنگ ہوئی تو سارے ملک میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ اس کے خلاف بڑے بڑے احتجاج ہوئے۔ جلسے جلوس نکلے۔ دہلی میں ’ناٹ ان مائی نیم‘ کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر جو بھی موب لنچنگ کا واقعہ رونما ہوا، مسلمانوں نے پیسے اکھٹا کر مارے جانے والے افراد کی جو مالی مدد ممکن ہو سکتی تھی وہ مدد بھی کی، لیکن دھیرے دھیرے موب لنچنگ کے واقعات بڑھتے گئے، امت مسلمہ کا جوش و خروش ختم ہوتا گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ موب لنچنگ کی چھوٹی سی خبر چھپتی ہے اور مارے جانے والے فرد پر چار آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔
جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا۔ موب لنچنگ کا شکار ہونے والے فرد کا کوئی پرسان ِ حال بھی نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ دہلی کے نریلا علاقہ میں ابھی پچھلے ہفتے محمد سجاد نام کے ایک انیس -بیس سال کے نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا۔ اس کی لاش وہیں ایک کنال میں ڈال دی گئی۔ دو چار دن بعد لاش ملی تو اس پر فون چوری کا الزام لگایا گیا۔ وہ بے روزگار نوجوان اپنی ماں کے ساتھ اسی علاقے میں رہ رہا تھا۔ اب اس کی بے آسرا ماں کا کوئی سہارا نہیں۔ بیٹا ختم، کوئی اور ہے نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اکیلی عورت اب در بدر کی ٹھو کر کھانے پر مجبور۔ جناب اب بھی یہ نا کہوں کہ ہماری بے حسی سے اللہ بچائے، تو کیا یہ غلط بیانی ہوگی!
اگر ایسا کوئی واقعہ خدا نا کرے سکھ قوم کے کسی نوجوان کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو گردواروں سے لے کر دنیا بھر کی سکھ تنظیمیں بیوہ ماں کے لئے کھڑی ہو جاتیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ سن 1984 میں دہلی میں زبردست سکھ دنگے ہوئے اور سکھوں کی دکانیں جلائی گئیں تو چوتھے روز جلی ہوئی دکان کے سکھ مالکان نے اپنی دکانیں کھول دیں اور ان کے لئے ساز و سامان بھی جمع ہو گیا۔ میں نے جب پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے کھڑے ہو گئے تو جواب ملا، ہمارے بھائیوں نے ہماری مدد کی۔
یاد رکھیے سکھوں کی آبادی اس ملک کی کل آبادی کے تناسب میں ایک فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی کم از کم پندرہ فیصد ہے۔ اور ہمارا عالم یہ ہے کہ دہلی میں پچھلے سال جو زبردست فساد ہوئے تھے ان میں تباہ ہونے والے درجنوں افراد ابھی بھی لاچار اور بے سہارا گھوم رہے ہیں۔ ہاں جمعیۃ جیسی دو ایک تنظیموں نے کچھ امداد ضرور پہنچائی ہے لیکن سکھوں کی طرح وہ ایسی نہیں کہ ہر کسی کے آنسو پونچھ گئے ہوں۔ آخر کیا بات ہے کہ ایک چھوٹی سی قوم فساد کے چار دن بعد اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن کثیر آبادی والا مسلمان اپنے بے حال و پریشان بھائیوں کے لئے خاطر خواہ مدد مہیا نہیں کر سکتا ہے۔ مدد تو جانے دیجئے میں اور آپ ایسے بہت سے واقعات سے واقف ہیں کہ کہیں فساد ہوا اور لوگوں نے رسید چھپوائی اور خلیج، یورپ اور امریکہ جیسے ممالک سے امداد کے نام پر چندہ جمع کیا اور ڈکار گئے۔ میں دہلی میں خود ایک ایسے انتہائی باعزت اور ملت کے ہمدرد سے واقف ہوں جن کی تجارت ہی مسلمانوں کے امداد کے نام پر چندہ جمع کر کے عیش کرنا ہے۔ اور تو اور میرٹھ کے نزدیک ملیانہ کے فساد میں جن لوگوں کو پولیس نے گولی مار کر دریا میں بہا دیا تھا، ان کے نام پر قوم کے بڑے نامی گرامی لیڈران نے گیارہ کروڑ روپے کی رقم سن 1980 کی دہائی میں اکھٹا کی۔ لیکن مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کا آج بھی یہی الزام ہے کہ ان کو اس رقم میں سے ایک پائی بھی میسر نہیں ہوئی۔
یہ ہے امت مسلمہ کی حسی اور بے حسی کا عالم۔ جناب اس کام کے لئے کسی آر ایس ایس یا بی جے پی نے آپ کو کبھی نہیں روکا۔ بات یہ ہے کہ جب کسی قوم کا یہ عالم ہو جائے کہ اس میں وقف کی رقم خرد برد کرنے کے الزام سے گرفتار وسیم رضوی جیسے لوگ موجود ہوں تو پھر اسی قوم کا یہ عالم نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگاً ایک وسیم رضوی کو کیا روئیے، لاکھوں کروڑ روپے کے اوقاف کوڑیوں میں بیچ کر قوم کے لیڈران کھاگئے اور کسی کے ماتھے پر شکن نہیں! بھلا ایسی قوم میں اگر محمد سجاد نام کا شخص موب لنچنگ کے ذریعہ مارا جاتا ہے تو بھلا اس کی ماں کا کون پرسان حال ہوگا!
لیکن یہ وہی قوم ہے جو کوئی دو سو سال قبل تک دنیا کی سپر پاور تھی۔ اموی و عباسی خلافتیں، ترکی کی خلافت عثمانیہ، مغل سلطنت جیسی عظیم الشان تاریخ سے مزین قوم اب اس عالم میں ہے کہ اس کو دنیا میں جب جو چاہے جہاں چاہے پیٹ لے۔ جس قوم نے اس ملک میں کوئی آٹھ سو سال حکومت کی ہو، اب وہ موب لنچنگ کا شکار ہے۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہے۔ یاد رکھیے جب حاکم تھے تو آج سے بھی زیادہ اقلیت میں تھے۔ یعنی اقتدار کا تعلق نمبر سے نہیں ہوتا۔ وہ قومیں جو ترقی کرنا چاہتی ہیں ان کو اکثریت و اقلیت سے کچھ لینا دنیا نہیں ہوتا۔ ترقی کا تعلق نمبر سے نہیں عقل سے ہوتا ہے۔ اور عقلمند وہی ہوتا ہے جو اپنے دور کے تمام علوم پر قدرت رکھتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ ساری دنیا بھر کے مسلمانوں میں پاکستان نے واحد ایک ایسا سائنس داں پیدا کیا تھا جس کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس کو پاکستان نے شہریت سے بے دخل کر دیا۔ جس قوم میں عاقل کی قیمت نہیں ہوگی، قوم کے محمد سجاد کی مائیں آٹھ آٹھ آنسو ہی بہائیں گی اور قوم کو شرم نہیں آئے گی۔ شرم ان کو آتی ہے جن کے حِس ہو۔ جب حِس ہی ختم ہو جائے تو کیا کیا جائے! ہمارے پاس نہ تو کوئی ڈھنگ کی تنظیم ہے اور نہ ہی بے لوث افراد ہیں، جو قوم پر جان چھڑکنے کو تیار ہوں۔ بقول علامہ اقبال عالم اسلام کی خودی ختم ہو چکی ہے اب اس قوم کو احساس اور حِس آئے تو آئے کیسے۔ ناجانے اور کتنے محمد سجاد اسی طرح مار دیئے جائیں گے اور ان کی مائیں ایسے ہی بے سہارا گھومتی رہیں گیں۔ ہم اور آپ جیسے چند لوگ واویلا کریں گے اور بس پھر بات ختم۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں