وزیر اعلیٰ موصوف 03اور04جون کو تقریباً دو دن بیڑ ضلع کے دورہ پر رہے ،متعدد پروگرامس میں شرکت کی،بے شمار لوگوں سے ملے،کتنے ہی بی جے پی کارکنان کے گھر چائے کی’ چسکیاں‘ لیں لیکن پاس ہی کے دیہات میں موجود متاثرہ مسلم خاندان کی ’سسکیاں‘ سننے کا وقت ہی نہیں ملا۔وقت نہیں ملا یا وقت نکالنا نہیں چاہا یہ تو وہ ہی جانیں۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ گذشتہ 28مئی کی رات ضلع بیڑ مہاراشٹرکے تعلقہ دھارور کے موضع چورامبہ میں نورجہاں بیگم اور اس کی نابالغ بیٹی پروین کی عصمت دری کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کا واقعہ پیش آیا تھااس سلسلے میں پولس نے واردات کے پانچویں روزاسی موضع کے رہائشی کرشنا رام راؤریڈے اور بابو کچرو چنچے کو ان کے ذریعے کئے گئے جرم کے اقبالیہ بیان کی بناء پر گرفتار کیا ہوا ہے۔ اس دوران متاثرہ خاندان سے بیڑ کی قحط سالی کاجائزہ لینے آئے راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے صدر شرد پور،آر پی آئی کے صدر رام داس آٹھولے،ریاستی اقلیتی کمیشن کے چےئرمین حسن خان،ایم آئی ایم کے اورنگ آباد کے ایم ایل اے امتیاز جلیل،سلیم جہانگیر،و دیگر نے ملاقات کی اور حکومت سے اس ضمن میں موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔اتنا ہی نہیں آر پی آئی کے صدر رام داس آٹھولے نے متاثرہ خاندان کو ایک لاکھ روپئے کی امداد کا بھی اعلان کیا۔واضح ہو کہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والی ضلع کی وزیر رابطہ ووزیر برائے دیہی ترقیات،بہبود خواتین و اطفال پنکجا منڈے اب تک بھی متاثرہ خاندان سے ملنے نہیں آئیں جس سے مسلمانوں کے تعلق سے ان کی بے رخی منظر عام پر آئی ۔وزیر محترمہ پنکجا منڈے سے ضلع کے لوگوں کو خاص کر مسلمانوں کو خاصی امید تھی کہ محترمہ منڈے مسلم دوست آنجہانی گوپی ناتھ راؤ منڈے کی دختر ہیں اور اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے وہ مذکورہ مسلم خاندان کو تسلّی دینے ضرور پہنچے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ساتھ ہی مقامی بی جے پی ایم ایل اے آر ٹی دیشمکھ بھی واقعہ کے دو دن بعد یہاں پہنچے اور اب جب کہ اس واقعہ کو صرف چھ دن گذرے خود وزیر اعلیٰ ضلع کے دو دن کے دورہ پر آئے ہوئے تھے تب عوام کی نظر وزیر اعلیٰ کی جانب لگی ہوئی تھیں کہ اتنی بھیانک واردات کے بعد وزیر اعلیٰ متاثرہ مسلم خاندان نے ضرور ملاقات کرینگے۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔وزیر اعلیٰ نے بھی اس معاملہ میں اپنی قطعی بے رخی ظاہر کرتے ہوئے ضلع میں دو دن گذارنے کے باوجود متاثرہ خاندن کے افراد سے ملنا ضروری نہیں سمجھا۔کیا اسے وزیر اعلیٰ کا مخصوص ’بھاجپائی ‘ اور ’سنگھی ‘رویّہ سمجھنا چاہیے؟واضح ہو کہ اس دوران وزیر اعلیٰ نے کولہار واڑی تعلقہ بیڑ کے اپریل مہینے میں خودکشی کئے ہوئے کسان کے خاندان سے ملاقات کی اور ایک لاکھ روپئے کاامدادی چیک بھی سپرد کیا۔وزیر اعلیٰ نے اپنے دوروزہ بیڑ ضلع دورہ میں بندوسرا تالاب کا دورہ ،پالی گاؤں میں شجر کاری،سول اسپتال میں طبی کیمپ کا افتتاح ،پتر کار سنگھ کے پروگرام میں شرکت،ضلع انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ اور بی جے پی کے کارکنان کے گھر وں پر چائے کی دعوت کو کھلے دل سے قبول کرتے رہے اوراسی وجہ سے ان کے عثمان آباد کے ’قحط سالی ‘ کے دورہ میں بھی دیر ہونے کی خبر ہے۔ 14سال کی نابالغ بیٹی کی اجتماعی عصمت دری اور ماں بیٹی کا دوہرا قتل جیسا سنگین معاملہ اور وزیر اعلیٰ نے نہ ہی اپنے تقاریر میں اس واقعہ پر کوئی افسوس جتایا اور نہ ہی متاثرہ خاند ان کے افراد سے ملاقات کی حالانکہ اس دل دہلانے والے واقعہ کو ہوئے صرف چھ دن گذرے تھے اور وزیر اعلیٰ کی آنجہانی گوپی ناتھ راؤ منڈے کی پہلی برسی کی مناسبت سے ضلع میں آمد بھی ہوئی تھی۔جناب دیوندر پھڑنویس بھلے ہی بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات میں کامیاب ہوئے ہو،لیکن وہ’ وزیر اعلیٰ‘ مہاراشٹر کی تمام عوام ،سماج کے تمام طبقات، کے ہیں یہ انھیں الگ سے کہنے والی بات نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ ضرور کسانوں کی خود کشی کے معاملات کی فکر کریں ، اس ضمن میں ضروری اقدامات اٹھائیں اور ضرور ملیں ان متاثرہ خاندانوں سے جن خاندانوں کے کسانوں نے خود کشی کی ہو ،انھیں امداد بہم بھی پہنچائیں لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ دو مہینے قبل کی ہوئے خود کشی کے معاملے میں آپ متاثرہ کسان کے خاندان سے ملاقات کرتے ہیں انھیں امدادی چیک بھی فراہم کرتے ہیں ،تسلّی دیتے ہوئے تصویریں بھی اتار تے ہیں پھر انھیں تشہیر کے لئے میڈیا میں بھی پہنچاتے ہیں اور پاس کے ہی دیہات میں نابالغ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور ماں بیٹی کے قتل کے معاملے کو صرف پانچ سے چھ دن ہی ہو گذرے ہو ں اور آپ وہاں جا کر انھیں تسلّی اور امداد تو دور اپنی تقاریر میں اس واقعہ پر افسوس بھی ظاہر نہیں کرتے اس واقعہ کی مذمت بھی نہیں کرتے! آپ ہی بتائے کیا یہ وہی ملک نہیں ہے جہاں دہلی کی ایک بالغ لڑکی’نربھیا‘ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گیارہ بجے دہلی کی سنسان سڑک پر بس میں سوار ہو کر گذرتی ہے اور عصمت دری کا شکار ہوکر اس کی موت واقع ہوتی ہے اس واقع کی مذمت سارا ملک کرتا ہے،سار اپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کئی دنوں تک اس واقعہ پر اظہار افسوس کرتا ہے۔نت نئے قانون بنانے کی باتیں ،بحث مباحثے،گفتگو ہوتی ہے۔دہلی کے انڈیا گیٹ سے ممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا تک سماجی تنظیمیں اور کالج کے طلباء وطالبات موم بتیّاں جلا کر اظہار عقیدت پیش کرتے ہیں ۔یہاں مذکورہ تازہ واقعہ کی لڑکی تو نابالغ تھی ،اپنے گھر میں اپنی ماں کے آنچل میں سوئی ہوئی تھی اور دو درندہ صفت نوجوانوں نے اس بچّی کی عصمت تار تار کرکے اسے اور اس کی ماں کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ہمھیں یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہ واقعہ ان سب عوامل کو قابل مذمت نہیں لگتا جن کا ذکر یہاں دہلی معاملے کو لیکر کیا گیا ہے یا پھر ریاست کے وزیر اعلیٰ کو مذکورہ واردات پرکوئی افسوس نہیں ہے۔اگر ہے تو عمل تو بالکل متضاد نظر آتا ہے۔صرف ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس ‘ کی باتیں کرنے والے کی پیروکاری اور بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عمل ایسا مقصود ہے جس سے واقعتا سماج کا ہر طبقہ سماج میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے اور وزیر اعلیٰ اور وزراء بھی اپنے آپ کو صرف متعلقہ پارٹی کا وزیر اعلیٰ یا وزیر نہ سمجھیں بلکہ پوری ریاست کا وزیر یا وزیر اعلیٰ ہونے کی ذمہ داری ادا کریں ،یہی جمہوری ملک میں جمہوری عوام کی جمہوری حکومت سے توقع بھی ہوتی ہے۔(یو این این)
جواب دیں