اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا (زمین سے قریب والا آسمان) پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: ےَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِےَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔
قرآن کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟
قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا، چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ پھر آپ ﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔ 
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابت، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعب، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ 
حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔ 
قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟
۱) تلاوت قرآن:احادیث میں تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: مَنْ قَرَأ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِہَا لَا اَقُوْلُ اآآ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرَفٌ وَلَامٌ حَرَفٌ وَمِےْمٌ حَرَفٌجس نے قرآ ن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے او رایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اآآ ایک حرف ہے بلکہ” ا” ایک حرف ہے، "ل” ایک حرف ہے اور” م” ایک حرف ہے۔ (ترمذی)
۲) حفظِ قرآن: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہونچے۔ (صحیح مسلم)
۳) قرآن فہمی: چونکہ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت ہے اور اگر سمجھے بغیر قرآن پڑھا جائے گا تو اس کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم علماء کرام جنہوں نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لگایا، ان کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ایک آیت پیش ہے: وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ لہٰذا ہم روزانہ تلاوتِ قرآن کے اہتمام کے ساتھ کم از کم علماء کرام وائمہ مساجد کے درس قرآن میں پابندی سے شریک ہوں۔
۴) العمل بالقرآن: یہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے ، اور نزول قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں۔
۵) قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا: امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا) کی ذمہ داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورۂ العصر میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کے لئے چار صفات میں سے ایک صفت دوسروں کو حق بات کی تلقین کرنا ضروری قرار دیا۔ لہٰذا ہم احکام الٰہی پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔
اگر ہم حقیقی معنوں میں دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن وحدیث کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ہمیں قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا، جو تلاوت ، حفظ، تدبر اور عمل بالقرآن سے ہی ممکن ہے۔(یو این این)

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے