مہنگائی کو چھومنتر کرکے بھگادینے کا دلاسہ دیاگیا،گڈگورننس یعنی عمدہ حکمرانی کا عہد کیاگیا،بیروزگاروں کے لیے ہر سال لاکھوں روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا، اور نہ جانے کیاکیا وعدے کیے گئے بس آسمان سے چاندتارے توڑکر عوام کی ہتھیلیوں پر سجادینے کے وعدے کی ہی کسررہ گئی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ۳۱فیصد رائے دہندگان ان لمبے چوڑے وعدوں کے دامِ فریب میں آگئے اور اس طرح پارلیمنٹ کی تقریباً ۵۲فیصدنشستیں یعنی۲۸۲سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں گریں اور نریندر مودی ایک اکثریتی سرکار کے وزیر اعظم بن کر مسندِ اقتدارپربراجمان ہوگئے۔اب باری ان کی تھی کہ وہ اپنے وعدوں کو وفا کرتے لیکن ۲۶مئی۲۰۱۴ء کو وزارتِ عظمیٰ کاحلف لینے کے بعد جیسے جیسے دن اور مہینے گزرتے گئے اور سال ۲۰۱۴ء بھی رخصت ہواتوعوام کی امیدیں بھی موہوم ہوگئیں اورحکومت جس ڈگرپرچل رہی ہے اس سے بجا طورپر یہ اشارہ ملتا ہے کہ عوامی توقعات شاید بہت جلدمایوسی میں تبدیل ہوجائیں۔
وفاقی کابینہ کی تشکیل سے لے کر اب تک وزیر اعظم مودی کی زیر قیادت حکومت کی جو سوچ،ترجیح اور کارکردگی رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی فلاح و بہبود تو نہیں البتہ ہندوتوا کی ترویج و اشاعت اور اس کا فروغ اس کا اصل مقصد اور نصب العین ہے۔مودی کی حکومت بنتے ہی اگر اچھے دن کسی کے آئے ہیں تو وہ ہیں ہندوتوا گروپ جن کے عزائم ہر روز کسی نہ کسی شکل میں ہم سب پر آشکار ہورہے ہیں۔ان زعفرانی گروہوں کے دلوں میں دبے ہوئے سارے ارمان ان کے کسی نہ کسی لیڈرکی زبان سے باہر آرہے ہیں۔اگر اس ملک کا آئین و قانون ان کی راہ میں حائل نہ ہوتاتو شاید یہ اب تک مذہبی اقلیتوں کو ٹھکانے ہی لگا چکے ہوتے۔ابھی تو یہ صرف دھمکیوں سے ہی کام لے رہے ہیں۔ہندوستان صرف ہندووں کا ہے،یہاں رہنے والے سارے لوگ ہندو ہیں،جو مسلمان ہیں یا عیسائی و بودھ ہیں وہ پہلے ہندو ہی تھے انھیں واپس گھرلانا ہے یعنی ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو دھرم میں لانا ہے،اپنی بیٹیوں کو کسی اور مذہب کے لڑکے سے شادی کرنے سے روکنا ہے البتہ دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمان لڑکیوں کو بہوبناکر لانا ہے،ہندودھرم کا تحفظ کرنے کے لیے ہندوعورتوں کو چار بچے پیدا کرنے کی تلقین کرنا یہ اور ان جیسے بیشمار فرمودات کو وزیر اعظم کی خاموش حمایت سے اندازہ ملتا ہے کہ مسلمانوں سے کشیدگی بڑھانے کا حکم اوپر سے ملاہوا ہے جس کی تعمیل میں پارٹی کے ممبرپارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج سے لے کر مرکزی وزیر جیوتی نرنجن تک اور گھرواپسی کرانے والے لیڈرراجیشورسنگھ سے آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور وشو ہندوپریشدکے اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا تک برسرِ کار ہیں۔
یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود ہندوتوا گروپوں کو تبدیلیِ مذہب سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے؟کیوں لالچ اور خوف کے ذریعہ وہ گھرواپسی کی مہم چلانے کے درپے ہیں؟وہ کون سا خوف ہے جس کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ دوسری مذہبی اقلیتیں اس ملک میں نہ رہیں اور اگر رہیں تو ہندوبن جائیں؟ہندودھرم اس ملک کا سب سے بڑا دھرم ہے پھر اس کو خطرہ کس سے ہے؟اور اس کی حفاظت کے لیے کیوں ہندو عورتوں کو چار بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے؟کسی بھی تکثیری معاشرے میں بین مذاہب شادیوں کا انجام پانا ایک عام سی بات ہے،اپنا مذہب ترک کرنے اور اپنی پسند کا کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کی آزادی بھی سیکولر اور مہذب معاشرہ میں انسانی حقوق کے دائرے میں آتی ہے جس کے عملی مظاہرے ہندوستان سے لے کر امریکہ اور یورپ ہر جگہ ہوتے رہے ہیں۔پھرآخراس کی وجہ سے صرف ہندومذہب ہی کیوں خطرے میں ہے کوئی اور مذہب اس خطرے کو کیوں محسوس نہیں کر رہاہے؟ہندوتوا گروپوں کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور اگر انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کی اپنی صفوں میں ہی کوئی نقص ہے تو پہلے اس کا تدارک کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں پر عتاب نازل کرنا چاہیے۔خاص کر اکثریتی فرقہ کا اقلیتی فرقوں کو خوف زدہ کرنا،ان کے حقوق اور ان کی آزادی کو چھیننا نفع بخش نہیں ہوسکتا۔اچھے دن،ترقی،بدعنوانی کا خاتمہ،بیرونِ ملک سے بلیک منی کا حصول،مہنگائی میں کمی لانا،روزگار کے مواقع پیدا کرکے بیروزگاری کو کم کرنا،خواتین کو تحفظ فراہم کرنا،دنیا میں ہندوستان کی بہتر امیج بنانا،صنعتوں کو مضبوط بنانا،کسانوں،غریبوں کے حالات کو بہتر بنانا،جہالت اور ناخواندگی، بیماری کو دورکرناان سب مسائل کو جوں کا توں چھوڑکر یا محض ان میں سے کچھ پر پیش رفت کرنے کا فریب دے کر صرف اور صرف ہندوتواکا راگ الاپنا کیا یہی گڈگورننس ہے۔انتہا تو تب ہوگئی جب حال ہی میں۷؍جنوری کواختتام پذیر ہوئی۱۰۲ویں انڈین سائنس کانگریس کی سالانہ کانفرنس میں دنیا بھر کے ۶نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کی موجودگی میں نہ صرف مشتبہ قسم کے سائنس دانوں اور ماہرین نے بلکہ مرکزی وزیروں نے بھی سائنس کو ہندوتوا کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی اور ہندو دھرم اوراس کی دھارمک کتابوں کو ہوائی جہاز سے لے کر نیوکلیائی سائنس تک بیشتر ایجادات کا ماخذ قرار دیا لیکن دنیا نے اسے بھونڈے مذاق اور فاش غلطی سے تعبیر کیا۔
مثلاً سائنس و ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر ہرش وردھن نے فرمایا کہ الجبرا اور فیثاغوری تھیوری ہندوستان کی دین ہے۔انھوں نے اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا لیکن ایک دوسرے مقررممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ سنسکرت کے سربراہ ڈاکٹرگوری مہولکر نے بتایاکہ فیثاغوری سے ۳۰۰ سال قبل بودھیان نے سلبھ سوتر میں جیومٹری کا جوفارمولہ لکھا تھا وہی دراصل فیثا غوری تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک اور مقررکیپٹن آنند جے بوڈا نے بتایا کہ ہوائی جہاز دراصل ویدک دور کی ایجاد ہے جسے ہم آج وائٹ برادرس کی ایجاد مانتے ہیں۔کیپٹن کے مطابق ویدک دور کے ہوائی جہاز صرف ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہی نہیں بلکہ ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک بھی جاتے تھے اور مخالف سمت میں بھی اڑ سکتے تھے اور یہ بات سادھوبھاردواج کی کتاب’دیمانیکاپرکانم‘سے ثابت ہوتی ہے۔کیپٹن بوڈاکے مطابق ایسا ہواجہاز ایک رشی مہارشی بھاردواج نے سات ہزار سال قبل ایجاد کیاتھا اور اس جہازکے چالیس انجن تھے۔
ایک دوسرے مقرر نے کہا کہ گائے میں ایک ایسا جرثومہ ہوتا ہے جو اس کے ذریعہ کھائی گئی خوراک کو۲۴قیراط کے سونے میں تبدیل کردیتا ہے۔ایک دوسرے مقرر کرن نائک نے کہا کہ مہابھارت کی جنگ کے دوران ویدک زمانے کے وہ ہوائی جہاز زمین سے چاند پر ہوتے ہوئے مریخ سیارے پر گئے تھے جہاں ایک راجہ نے اپنے حریف پر حملہ کیاتھا اوراس کے ہیلمیٹ کو توڑڈالاتھا۔انھوں نے کہاکہ اگر آپ کو میری باتوں پریقین نہ ہوتوآپ کو امریکہ کی خلائی تنظیم ناساپرتویقین کرنا پڑے گاجس نے مریخ پر ہیلمیٹ پایاہے اور اس کے پاس اس کی شہادت موجود ہے۔انھوں نے ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ چینی کا قمام پلاسٹک سرجری میں بھگوان گنیش کا ہاتھی کا سراس کے انسانی دھڑمیں جوڑنے کے لیے کیاگیا تھا۔واضح ہوکہ اس سے قبل بھگوان گنیش کے سر کی پلاسٹک سرجری کے معجزے کا انکشاف خود وزیر اعظم مودی نے گذشتہ سال ممبئی میں ایک اسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے کیاتھا۔اس ایک مثال سے واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اور ہندوتوا تنظیموں کوہندوتوا ایجنڈے کو سربلند کرنے کے احکامات کہاں سے مل رہے ہیں۔(یو این این)
(مضمون نگار ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں)
جواب دیں