آسام میں انتخابی بربریت

اور جس شدت اور جنگجوئیت کا سنگھ پریوار کے حامی اور کارکن مظاہرہ کررہے ہیں وہ خطرناک بھی ہے اور تشویشناک بھی ۔ ہندی پٹی سے موصول اطلاعات کے مطابق جہاں جہاں بی جے پی کے امیدوار کی پوزیشن کمزور دکھائی دی وہاں وہاں سنگھ پریوار کے کارکنوں نے افواہ بازی اور کانا پھوسی کے اپنے آزمودہ نسخہ کا استعمال کرتے ہوئے دو پہر کے بعد زبردست گول بندی (Polarisation) کرایا اور کئی سیٹوں پر انتخابی ریاضی الٹ دی۔ 
بی جے پی کے وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی نے آسام میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فرقہ واریت کا بیج بویا تھا اور کہا تھا کہ ہندو پناہ گزینوں کو ملک میں بسایا جائے گا باقی(یعنی مسلم) کو بنگلہ دیش سرحد کے پار ڈھکیل دیا جائے گا۔ بی جے پی آسام میں اپنی پیٹھ بڑھانے کے لئے ہمیشہ فرقہ وارانہ کارڈ کھیل کرتشدد بھڑکاتی رہی ہے جس کی بدترین مثال نیلی کا قتل عام ہے۔ اطلاعات کے مطابق آسام میں فائرنگ کے دو واقعات میں کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ہلاک ہونے والے افراد بنگالی مسلمان تھے اور مبینہ طور پر انھیں بوڈو قبائلیوں نے نشانہ بنایا۔پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے گذشتہ رات ریاست کے کوکراجھار اور باسکا اضلاع میں دو مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی۔یہ دونوں علاقے بوڈولینڈ علاقائی کونسل (بی ٹی سی) میں شامل ہیں، جہاں دو برس پہلے بھی بوڈو قبائلیوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔حکومت نے متاثرہ علاقے میں گشت کے لیے فوج کی مدد حاصل کر لی ہے اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی دس کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں۔بوڈو قبائلیوں کا الزام ہے کہ سرحد پار بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان غیر قانونی طور پر اس علاقے میں آباد ہوگئے ہیں۔ یہ علاقہ بھوٹان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد کیان واقعات کا پارلیمانی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس علاقے میں 24 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے جس میں ایک قبائلی اور ایک غیر قبائلی امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔آسام پولیس کے سربراہ ایل آر بشنوئی کے مطابق جمعرات کی شام تقریباً سات بجے پہلے واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے، جبکہ کوکراجھار میں حملہ آدھی رات کے قریب کیا گیا اور اس میں سات لوگ مارے گئے۔پولیس کے مطابق دونوں حملوں میں اے کے سیریز کی رائفلیں استعمال کی گئیں اور حملہ آوروں کا تعلق نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ سے بتایا جا رہا ہے۔
آسام کے بوڈو اکثریت والے علاقوں پر حکومت کرنے والی بوڈولینڈ علاقائی کاؤنسل کے سربراہ ہاگرما موہلیاری کا کہنا ہے وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بوڈو اکثریت والے علاقوں میں نہیں رہنے دیں گے۔آسام کے وزیر اعلی ترون گوگوئی بھلے ہی یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے کوکراجھار اور اس کے قریبی علاقوں میں نسلی تشدد کا سبب غربت اور وسائل کی کمی ہے لیکن ہاگرما موہلیاری واضح الفاظ میں کہتے ہیں ’تشدد کی وجہ بنگلہ دیشی مسلمان ہیں‘۔ہاگرما موہلیاری کو نا پسند کرنے والے انہیں آسام کا ’مودی‘ کہتے ہیں وہیں ان کے چاہنے والے انہیں ’چیف کہہ کر پکارتے ہیں‘۔ کوکراجھار کے بوڈو قبائل ان کے ساتھ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہاگرما موہلیاری اتنے اعتماد سے یہ کہتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نہیں رہنے دیں گے۔بوڈو لبریشن ٹائیگر یا بی ایل ٹی کے سربراہ رہ چکے ہاگرما نے اپنی ساتھیوں کے ساتھ 2003 میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور امن مذاکرات میں حصہ لینے کے بعد بوڈو پیپلز فرنٹ یا بی ایف کی شروعات کی تھی۔بی پی ایف ان دنوں آسام اور مرکز میں یو پے اے کی اتحادی ہے اور اس کے ریاستی اسمبلی میں بارہ رکن اسمبلی اور ایک وزیر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک رکن ممبر پارلیمان بھی ہیں۔ہاگرما موہلیاری کہتے ہیں ’ہم تو بنگلہ دیشیوں کو رہنے نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر خودمختار بوڈو علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیشیوں کو یہاں سے جانا ہی ہوگا‘۔
آسام میں بوڈو قبائیلیوں اور اقلیتی مسلمانوں کے درمیان گزشتہ ایک ماہ سے فرقہ وارنہ تشدد جاری ہیں جس میں اب تک تقریبا نوے افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس لڑائی کے باعث تقریباً چار لاکھ افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور خوف کے سبب بیشتر افراد نے اب بھی کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔آسام کے مختلف علاقوں میں مقامی بوڈو قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان برسوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور دو نوں برادریوں میں کئی بار فسادات ہو چکے ہیں۔فسادات سے متاثرہ بیشتر علاقوں میں فوج تعینات ہے۔تشدد سے سب سے زیادہ کوکراجھار، چرانگ اور دھبری اضلاع متاثر ہوئے ہیں جہاں مختلف علاقوں میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
جمعیۃعلماء ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ایک بیان میں آسام میں بوڈو شدت پسندوں کی طر ف سے مسلم آبادی پر حملہ کر کے سات آدمیوں کے قتل اور ۱۱؍ کے زخمی کر دینے کی سخت مذمت کی ہے ۔ انھوں نے کہاکہ جمہوریت میں انتخابی عمل عوام کی پسند کے مطا بق بہتر حکومت کی تشکیل اور عوام کی اس میں حصہ داری کے لیے ہوتاہے نہ کہ قتل و غارت گری ،سماج میں نفرت و اشتعال انگیز ی اور ملک کو کمزور کر نے کے لیے ، جس طرح کچھ پا رٹیو ں اور تنظیموں کی طرف سے خصوصا انتخابات کے موقع پر اشتعال انگیزی کی جاتی ہے وہ انتہائی قابل مذمت اور اصلا ح طلب ہے ۔تازہ اطلاعات کے مطا بق دھوبڑی ضلع کے بالا پاڑا اور سا پت گرام پر بو ڈو سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں نے اس لیے حملہ کر کے مسلم اقلیت کے سات افراد کوشہید اور ۱۱؍کو زخمی کر دیا کہ وہ بوڈو امید وار کے حق میں ووٹنگ نہیں کرر ہے ہیں ۔ اس خدشے سے کہ بو ڈو امیدوار ہا رجا ئے گا ،مسلم اقلیت اور دیگر قبیلے پر، بوڈو کے لوگ حملہ کر کے دہشت پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نہ نکلیں ۔ اس سے پہلے بھی گو سا ئی گا ؤں میں ۲؍ مسلم او رایک غیرمسلم کو مار دیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ بوڈو لینڈ کے حامی گروپ سے ریا ستی کانگریس کا اتحاد ہے ۔ موجودہ صورت حال جمہوریت کو مجروح کر رہی ہے ۔
انتخابی مہم کے دوران کھلے عام مذہبی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا نعرہ کس مقصد سے لگایاجارہا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں مگر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ آسام کا واقعہ اور دیگر جگہوں پر مذہبی گول بندی کرکے ووٹ حاصل کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے مگر یہ سب اس کمال ہوشیار سے کیا جارہا ہے کہ قانونی گرفت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے۔ ایسے میں ہماری جمہوریت اور اس کا سیکولر کردار کیسے بچے گا یہ بڑا سوال ہے۔

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے