ایشیا میں کروڑوں مسلمان مگر بغیر لیڈر شپ کے

تمام عرب ملکوں کی آبادی کو یکجا کردیاجائے‘ تو بھی وہ کل ملاکر انڈونیشیا کی آبادی کے برابر نہ پہنچیں۔ اسی طرح عوام پر اثرات ڈالنے والی شخصیات میں بیشتر کا تعلق بھی غیر عرب خطو ں سے ہی ہے۔ بیشتر مسلمان ہندوستان‘پاکستان ‘بنگلہ دیش ‘چین‘انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ افغانستان اور سابق سوویت یونین کے خطوں میں رہتے ہیں۔ اگردیکھا جائے‘ توتمام مسلمانوں میں تقریباً80فیصدکاتعلق انہیں ملکوں سے ہے۔ اس طرح یہ ایک طاقتور ترین مسلم خطہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی طاقت کا احساس نہیں کیا اور ہرمعاملے میں ان کی نظرعرب ملکوں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قائدعرب کی طرف سے اٹھے اوران کی مذہبی رہنمائی بھی عرب کے علماء ہی کریں۔ حالانکہ جس طرح سے غیر عرب علاقے مسلمانوں کی اکثریت کے مسکن ہیں اس طرح بڑے بڑے قائدین‘ اہل علم اور عظیم ادارے بھی غیر عرب ایشیائی ملکوں میں ہی ہوئے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘مولانا محمدعلی جوہر‘ علامہ اقبال‘ مولانا ابوالاعلی مودودی‘ محمد علی جناح‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘سرسیداحمد خاں‘ سیدامیر علی‘ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام‘ ڈاکٹرعبدالقدیرخاں‘ قاضی
نذرالاسلام وغیرہ وہ شخصیات ہیں‘ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالم گیر اور دیرپا اثرات چھوڑے۔ یہ سبھی غیر عرب ہیں اور جنوب ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے تعلیمی ادارے
پاکستان‘ بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں کئی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور مدارس اسلامیہ ہیں۔ ہندوستان جہاں عام طور پر مسلمانوں کو حکومت سے شکایتیں رہتی ہیں‘ یہاں بھی کئی بڑے بڑے ادارے ہیں‘ جومختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین پیدا کررہے ہیں اوریہاں عرب کے طلباء بھی استفادے کے لئے قدم رکھ رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اورہمدرد یونیورسٹی ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم تعلیمی ادارے ہیں‘ جہاں عصری اور جدید تکنیکی تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دینی تعلیم کے لئے یہاں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند ہے‘ جہاں افریقہ ویوروپ سے بھی طلباء آتے ہیں۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور‘ندوۃ العلماء لکھنؤ‘الثقافتہ السنیہ کا لی کٹ‘الجامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ‘ الجامع الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ‘ مظاہرعلوم سہارنپور اور جامعہ سلفیہ بنارس ایسے دینی تعلیمی ادارے ہیں‘ جن کے نام جامعہ ازہر( مصر) کے بعد لئے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی محققین پیدا کئے جاتے ہیں‘ جو اسلامی موضوعات پرکام کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاردیتے ہیں۔ اس قسم کے مدرسے جنوب ایشیا میں بڑے پیمانے پر ہیں‘ جہاں اہل عرب بھی علم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔
غیر عرب مسلمان تعلیم میںآگے
خاص بات یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے مقابلے غیر عرب مسلمانوں میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے‘ اسی لئے ان کے اندر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔ عرب ملکوں میں دولت کی بہتات ہے‘ کیونکہ وہاں کی زمین ’’سیال سونا‘‘ اگلتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس عیش وعشرت کے سامان موجود ہیں۔ اگر وہ اپنی دولت کا مثبت استعمال کرتے‘ تو وہ علم وہنر اور سائنس وتکنالوجی میںیوروپ سے بہت آگے ہوتے‘ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے‘ تو ایشیا کے غیرعرب ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی مالی حالت خواہ بہت اچھی نہ ہو‘ مگر وہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں عربوں سے بہت آگے ہیں۔ آج جس قدر اہل علم وہنر دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں پیدا ہو رہے ہیں‘عرب میں نہیں ہوتے۔ سعودی عرب میں شرح خواندگی 77فیصد ہے ‘جبکہ عراق میں 74فیصد ہے۔ یہ دونوں کثیرآبادی والے عرب ممالک ہیں۔ان کے مقابلے انڈونیشیا اورملیشیا میں شرح خواندگی100فیصد کے آس پاس ہے‘ کچھ ایسی ہی صورت حال سوویت یونین سے آزاد ہونیوالے مسلم ملکوں کا ہے۔ ظاہر ہے کمیونسٹ تسلط نے انہیں اسلام سے دور کردیا ہے‘ مگر بہت تیزی کے ساتھ ان ملکوں میں بیداری کی لہر آرہی ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان میں شرح خواندگی کم ہے۔
کثیر مسلم آبادی والا خطہ
پیوفورم کی رپورٹ کے مطابق ایشیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا خطہ ہے۔ یہاں دنیاکی 62فیصد مسلم آبادی رہتی ہے۔ یہاں کی کل آبادی کا 24.8فیصد حصہ مسلمان ہے‘ یعنی یہاں کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ پیوفورم کی یہ رپورٹ 2010 میں منظر عام پر آئی تھی اور امکان ظاہرکیاگیا تھاکہ یہاں جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ مستقبل میں ان کی آبادی کا تناسب بڑھ سکتا ہے۔ واضح ہوکہ ایشیا میں بیشتر مسلم آبادی والے ممالک آتے ہیں جن میں انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ازبکستان‘ ایران ‘ ترکی اورچین شامل ہیں۔ یوں توسب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا ہے ‘مگرجنوبی ایشیا کی 90فیصد مسلم آبادی ہندوستان‘ پاکستان اوربنگلہ دیش میں رہتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں چین اور ہندوستان شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑی آبادی کے باجود یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے‘ وہاں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ مگر شناخت کا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہندوستان اورچین جیسے ملکوں میں اگرچہ کروڑوں مسلمان ہیں‘ مگریہاں ان کے ساتھ شناخت کامسئلہ بھی ہے اوروہ اپنے وجود کو دوسروں سے الگ شناخت کے ساتھ باقی رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں ان کی معاونت کرتے ہیں وہ اسلامی تعلیمی ادارے‘ جن کاقیام ہی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہوتا ہے۔
مسلمان ساری دنیامیں کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر و ہ ایشیا میں زیادہ گھنی آبادی رکھتے ہیں‘ مگرموجودہ دورمیں ان کی نہ توکوئی عالمی لیڈر شپ بن پائی ہے اورنہ ہی علاقائی لیڈر شپ۔ وہ جہاں کہیں بھی بغیر کسی لیڈرکے زندگی گذار رہے ہیں‘ مسلم اکثریتی ملکوں میں تووہ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان ممالک میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں‘لیڈر شپ کی کمی کے سبب گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں۔ حالانکہ ان کے بہت سے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اثرانداز ہوتے بھی ہیں‘ مگر تمام مسلمان انہیں اپنا رہنما تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
مقبول ترین مسلم شخصیات
ایک عالمی ادارہ The Royal Islamic Stratagic Studieso Centreکی رپورٹ کے مطابق د نیا کی 500 اثرانداز ہونے والی مسلم شخصیات میں سے بہت سے افراد ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس لسٹ میں بیشتر مسلم سربراہان مملکت ہیں‘ مگر بعض غیر سیاسی شخصیات بھی ہیں۔ ایسی شخصیات میں پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ‘انڈونیشیا کی مسلم تنظیم نہضتہ العلماء کے چیئرمین ڈاکٹر کے ایچ سید عقیل سرادی‘ہندوستان کے اہلسنت کے پیشوا مفتی اختر رضا خاں ازہری پاکستان کے اسلامی محقق 
مولانامحمد تقی عثمانی‘ جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مولانامحمودمدنی‘ بوہرہ طبقہ کے مذہبی پیشوا سیدنا برہان الدین شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام افراد ایک خاص طبقے یاکسی خاص مکتبہ فکر کے لئے ہی قابل قبول ہیں۔ دوسراطبقہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے باوجود یہاں وہ منتشر ہیں اور ان کے بیشتر مسائل کا سبب ان کا یہی انتشار ہے۔ ظاہر ہے سیدنا برہان الدین کاحلقہ اثر بوہرہ فرقے تک محدود ہے۔ اس طرح حاجی محمد عبدالوہاب کے اثرات تبلیغی جماعت کے افراد تک ہی ہیں۔ مفتی اختر رضا خاں ازہری اپنے مریدین میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں‘ تو مولانا محمود مدنی کی مقبولیت جمعیۃ علماء ہند تک محدود ہے۔ ان حضرات کو دوسرے مسلکی گروپ کے لوگ قبول نہیں کرتے‘ بلکہ انہیں حضرات کے اپنے مکتبہ فکرمیں ہی کئی گروپ ہیں‘ جوان کی مخالفت میں آواز بلندکرتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے طبقے میں مقبولیت کے باوجود یہ حضرات مقبول ترین لیڈر ہیں‘ مگر افسوس کہ مسلمانوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں‘ جو ہر طبقے کے افراد کے لئے قابل قبول ہو۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے