عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ
از : مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
استاد جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور
اس دنیا میں جس طرح ہر چیز فانی ہے اسی طرح محبت بھی فانی ہے اس کے باوجود انسانوں،جانوروں کے درمیان محبت کا مادہ اللہ کی طرف سے ودیعت شدہ ہے، اسی محبت کی بنیاد پر تمام رشتوں کا قرار ہے اور یہ حقیقت مسلم ہے کہ ایک سچا محب اپنے محبوب کی کسی لغزش پر فورا ناراض ہو کراس سے اپنے تعلق کو ختم نہیں کرتا ،بلکہ اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرکے اسے کئی ایسے مواقع فراہم کرتا ہے کہ اس کا محبوب ان مواقعوں سے فائدہ اٹھا کر مکمل اطاعت وفرمانبرداری کے ذریعہ اس کا دل جیت لے اور اس کی خوشنودی حاصل کرے، یہ حال انسان کی فانی محبت کا ہے تو اس محبت اور محب کے خالق ومالک جس کی محبت میں سچائی ، گہرائی ، بے غرضی مکمل طور پر موجود ہے ،اس کی ذات سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لئے جن سے اس کوبے انتہا محبت ہے،ایسے مواقع فراہم نہ کرے جن میں اس کے بندے اعمال صالحہ کے ذریعہ اسے راضی کریں اور اپنی خطاؤں کی بخشش کا سامان مہیا کریں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں کچھ مخصوص ایام متعین کئے ہیں ، جن میں ذی الحجہ کا پہلا عشرہ بھی ہے۔
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ سال کے افضل دنوں میں شامل ہے، کیونکہ یہ بیت اللہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ اسلام کے ایک اہم رکن ’’ حج ‘‘ کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے، ان دس دنوں کو ایام حج بھی کہا جاتا ہے، اس لئے کہ حج کے سارے شعائر اسی عشرہ میں مکمل کر لئے جاتے ہیں، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان دس راتوں کی قسم کھائی ہے،فرمان باری ہے : ’’ والفجر ولیال عشر والشفع والوتر‘‘ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی جو اپنی فضیلتوں اور بر کتوں میں بہت ہی اعلی مقام رکھتی ہیںاور قسم ہے جفت اور طاق کی جو کہ یوم النحر یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے اور جفت ہے، اور یوم عرفہ جو نویں تاریخ اور طاق ہے،(الفجر:معارف القر آن کاند ھلوی)۔ نیز اعمال صالحہ کے اعتبار سے بھی یہ دس دن اللہ کو بہت زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ نبی کریم ا نے فرمایا : تمام دنوں کے مقابلہ میں اس عشرہ میں نیک عمل کرنا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے تو صحابہ نے پوچھا کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ تو آپ انے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ کوئی شہادت کی نعمت سے سرفراز ہوجائے تو یہ افضل ہے( مسند احمد: ۶۵۰۵ )۔اسی لئے اس عشرہ کے روزوں کو سنت قرار دیا گیا ہے، یعنی ایک ذی الحجہ سے آٹھ ذی الحجہ تک اور پھر عرفہ کا روزہ ایک مستقل فضیلت کی چیز ہے، ان روزوں کی فضیلت اللہ کے رسول ا نے یوں بیان فرمائی : ’’:یعدل صیام کل یوم منھا بصیام سنۃ وقیام کل لیلۃ منھا بقیام لیلۃ القدر‘‘ اس عشرہ کے ایک روزہ کا ثواب ایک سال روزہ رکھنے کے بقدر اور اس کی کسی رات میں عبادت کرنا لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے، (سنن ترمذی : ۶۸۹)۔
اس حدیث کی بنیاد پر بعض حضرات نے عشرہ ذی الحجہ کو رمضان کے آخری عشرہ سے افضل قرار دیا ہے،جیساکہ علامہ زین الدین الملیباری ؒفرماتے ہیں ’’ ویتأکد صوم الثمانیۃ قبلہ أی قبل صوم یوم عرفۃ للخبر الصحیح المقتضی لأفضلیۃ عشرھا علی عشر رمضان الاخیر ‘‘کہ عرفہ کے روزہ سے پہلے ذی الحجہ کے شروع کے آٹھ دن روزہ رکھنا سنت مؤکدہ ہے، اس صحیح حدیث کی بناء پر جو رمضان کے آخری عشرہ پر ذی الحجہ کے عشرہ کے افضل ہونے کا تقاضہ کرتی ہے (فتح المعین مع اعانۃ : ۲/۳۰۰)۔
مذکورہ آٹھ روزوں کے بعد عرفہ کا روزہ سنت ہے ، حدیث پاک میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، حضرت ابو قتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ اسے عرفہ کے روزہ کے ثواب کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ا نے فرمایا ’’ یکفر السنۃ الماضیۃ والباقیۃ‘‘ کہ اس روزہ کی وجہ سے گذشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (مسلم ۱۹۷۷)۔دوسری حدیث میں آپ ا نے فرمایا: ’’ من صام یوم عرفۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر ‘‘ کہ جو عرفہ کا روزہ رکھے اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں( تنویر الحوالک لسیوطی : ۱۹۴) ۔نبی کریم ا نے حضرت ابن عباس ؓ کے سامنے اس دن کی فضیلت کو اس طرح بیان فرمایا:’ ’’یا ابن أخی ان ھذا الیوم من ملک فیہ سمعہ وبصرہ ولسانہ غفرلہ ‘‘ کہ اے میرے بھتیجے : اس دن جس نے اپنے کان ، آنکھ اور زبان پر قابو رکھا اس کی مغفرت کی جاتی ہے (مسند احمد ۲۸۸۴)۔حدیث میں گناہوں کی معافی صرف گناہ صغیرہ کے ساتھ خاص ہے، اس لئے کہ گناہ کبیرہ اور حقوق العباد کے لئے توبہ اور حقوق کی ادائیگی شرط ہے (دلیل الفالحین :۴/۴۸)۔
مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صوم عرفہ ، صوم عاشورہ کے مقابلہ میںافضل ہے، اس لئے کہ صوم عاشورہ سے صرف ایک ہی سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور صوم عرفہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں،علامہ سید بکری دمیاطی ؒنے اس فرق کی حکمت یہ نقل کی ہے کہ عرفہ کا روزہ شریعت محمدی اکے ساتھ خاص ہے اور عاشورہ کا روزہ شریعت موسوی سے بھی تعلق رکھتا ہے ، اس لئے صوم عرفہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں( اعانۃ الطالبین: ۲/۱۰۳)۔اسی طرح دس ذی الحجہ کی رات دعا کی قبولیت کے لئے بہت اہم ہے،امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جن پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے ان میں یہ رات بھی شامل ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس رات میں عبادت کروں (تلخیص الحبیر:۲/۱۹۱،روضۃ الطالبین:۲/۷۵) ۔نیز اس رات کی شب بیداری بھی باعث فضیلت ہے، نبی کریم ا نے فرمایا کہ جو شخص عیدین کی رات بیدار رہ کر اللہ کی عبادت کرے تو اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن سارے قلوب مردہ ہوجائیں گے(سنن ابن ماجہ : ۱۷۷۲) اسی طرح دس ذی الحجہ کا دن بھی مختلف خصوصیات کا حامل ہے ، اس لئے کہ اس دن مکہ مکرمہ میں حاجیوں کے طواف ، رمی ، سعی اور حلق جیسے شعائر سے مذہب اسلام کی جو شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے ،وہ بے مثال ہے اور مکہ کے علاوہ دنیا کے ہر گوشہ میں ملت محمدیہ اکے پیروکار اپنی صلاحیت کے مطابق جانوروں کی قربانی دے کر اطاعت خداوندی کا جو نمونہ پیش کرتے ہیںاس کی کوئی نظیر نہیں۔
الغرض اس پوری تفصیل سے عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت وفضیلت واضح ہوگئی،جو شخص اس عشرہ کو غنیمت جان کر اس میں عبادت کرے گا وہ فائدے میں رہے گا اور جس کا عمل اس کے برعکس ہوگا وہ نقصان میں رہے گا،لہذا اس عشرہ کو اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گذارنے کی سعی وجدوجہد کرنا چاہئے۔
جواب دیں