واضح ہو کہ وشوہندوپریشد کے بین الاقوامی صدر اور رام مندر تحریک کے سپہ سالار اشوک سنگھل نے گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں حالیہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کو ہندؤوں کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اس ملک سے مسلم اور سیکولر سیاست کے خاتمہ اور ہندوسیاست کے عروج کا آغاز ہوگیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کے نتائج سے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بھی ہندو نواز حکومت قائم ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب مسلمان کو سوچنا چاہئے کہ وہ اس ملک میں ہندؤوں کے جذبات کو نظر انداز کر کے کتنے دنوں سلامت رہ سکتے ہیں اس لئے انہیں اجودھیا متھرااور کاشی کے متنازعہ مذہبی مقامات پر سے اپنا دعویٰ ترک کردینا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندؤوں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ زیادہ دنوں تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو یکساں سول کوڈ تسلیم کرنا ہوگا۔
دراصل اشوک سنگھل نے مذکورہ زہریلی باتیں کہہ کر ان سخت گیر ہندوتو وادیوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جو نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کو ہندوتو کی فتح کے طور پر دیکھتے ہیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کا میابی کی زمین انہیں سخت گیر عناصر نے گاؤں گاؤں گلی گلی جاکر کبھی لوجہاد کبھی دہشت گردی کبھی گوکشی کبھی روزرویشن کبھی منہ بھرائی کے نام پر مسلمانوں اور ان کی حامی سیکولر پارٹیوں خصوصاً کانگریس کے خلاف نفرت کی مہم چلائی تھی۔ در اصل بی جے پی کی کامیابی کی شاندار عمارت کی نینو کے پتھریہی نامعلوم سنگھی کارکن ہیں جنہوں نے ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے جذبہ کے تحت پہلی بار کسی الیکشن میں اتنا بھر پور حصہ لیا تھا یہی نہیں اس الیکشن میں سنگھ کے تمام سرگرم اور خوابیدہ کارکنوں نے اپنا اپنا کرادر بخوبی نبھایا اورچار سال تک جان توڑ محنت کر کے یہ نتیجہ حاصل کیا اور اگر اب اشوک سنگھل آر ایس ایس کی اصلی زبان بول رہے ہیں تو اس پر کسی کو واویلا کرنے کا کیا حق حاصل ہے ۔ کیا بی جے پی کی اس کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں خود مسلمانوں ان کے نام نہاد ہمدوردوں قلم کاروں صحافیوں علماء دانشوروں نے اہم کردار ادا نہیں کیا ۔ کیا ان اقلیت نوازوں اور مسلمانوں کے ہمدردوں نے نریندر مودی کے اس مشورہ پر پوری ایمانداری سے عمل نہیں کیا کہ آپ لوگ میری اور بی جے پی کی کھل کر حمایت نہ کریں بس کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی بخیہ ادھیڑتے رہیں گڑے مردے اکھاڑتے رہیں ہمارا کام بن جائے گا اور ایسا ہی ہوا بھی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اشوک سنگھل نے تو صرف کہا ہے کہ زمینی سطح پر سنگھی کارکنوں نے اپنی حرکتیں شروع بھی کردی ہیں پونہ میں نوجوان کا قتل جگہ جگہ بے بات کی لڑائی مذہب کے نام پر جگہ جگہ چھیڑ خانی کبھی لاؤڈاسپیکر لگانے پر جھگڑاکہیں تبدیلی مذہب کے نام پر عیسائی مبلغوں کی پٹائی یعنی فسطائیت پر عمل شروع ہوگیا ہے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے ہنگاموں کاپیش خیمہ بن رہے ہین ان ہنگاموں سے سیاسی فائدہ دیکھ کر بی جے پی انہیں اور ہوا دے رہی ہے کانٹھ کا معمولی واقعہ جسے مقامی سطح پر سلجھا بھی لیا گیا تھا تل کا تاڑ بن گیا اور اطلاعات کے مطابق مغربی یوپی میں پتہ نہیں کتنے کانٹھ پھوٹ پڑنے کو تیار ہیں ۔ مذہب کی بنیاد پر گول بندی (Polarisation) سے واضح فائدہ اٹھانے کے بعد بی جے پی اسے کسی بھی طرح ہلکا نہیں پڑنے دے گی ابھی کئی اسمبلیوں کے الیکشن ہونا باقی ہیں ان کے لئے کھاد پانی تیار ہورہا ہے ۔ اشوک سنگھل کا بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اشوک سنگھل کے اس زہریلے بیان پر انکے خلاف سخت کارروائی کی جاتی بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران خصوصا وزراء اس کی مذمت کرتے اخباروں میں اداریے لکھے جاتے ٹی وی پر مباحثے ہوئے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک انگریز ی کے اخبار اور ایک ایگریزی چینل نے ضرور اس کی مذمت کی باقی سب نے اس زہر کو شیر مادر کی طرح ہضم کرلیا شاید اس لئے کہ اشوک سنگھ نے بہتوں کے جذبات کی ترجمانی کردی مگر عراق اور سری لنکا میں اکثریت کی سیاسی بالادستی ( Majoritarianism) کا انجام بد ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے ( Democracy) اور اکثریت کی بالادستی (Majoritarianisim) میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ہندستان کو سری لنکا یا عراق نہ بننے دیا جائے یہی اس ملک کے مفاد میں ہے۔
جواب دیں