اسبابِ طلاق؛‌چند غور طلب پہلو

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

نکاح مرد و زن کے درمیان جائز تعلقات کی استواری کا وہ واحد ذریعہ ہے؛ جس پر نسل و نسب کی حفاظت موقوف ہے۔نکاح کوئی وقتی اور عارضی رشتہ نہیں؛بل کہ ایک پائیدار معاہدہ ہے، جس کے ان گنت منافع قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔مثلاً نکاح کے بعد زوجین عفت و پاک دامنی والی زندگی گزارتے ہیں، بدنگاہی و زناکاری جیسے کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں،جنسی تسکین کے ساتھ ساتھ ذہنی و قلبی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔پھر اسی نکاح کے ذریعہ نیک و صالح اولاد وجود میں آتی ہے جو والدین کےلیے  آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور ثابت ہوتی ہے وغیرہ۔نکاح کی اسی اہمیت کے پیش نظرسرکار دوعالم ﷺ نےاسے نہ صرف اپنی سنت قراردیا؛ بل کہ پچھلے تمام انبیا‌ء کی سنت بتلایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ نکاح ،تکمیل ایمان کا سبب ہے اور  شرم گاہ کی حفاظت، جنت کی ضمانت ہے۔اس کے برعکس طلاق کے سلسلہ میں فرمایا گیا کہ وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین مباحات میں سے ہے۔(نسائی) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس حدیث کے ضمن میں تحریر فرماتےہیں:” طلاق ضرورت کے تحت جائز رکھی گئی ہے، بغیر ضرورت طلاق دینا بہت بری بات ہے؛ اس لیے کہ نکاح تو آپس میں الفت ومحبت اور میاں بیوی کی راحت کے لیے ہوتا ہے اور طلاق سے ان نیک مقاصد کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے، دونوں کو پریشانی ہوتی ہے، آپس میں دشمنی ہوتی ہے، نیز اس کی وجہ سے بیوی کے رشتہ داروں سے بھی دشمنی پیدا ہوجاتی ہے، جہاں تک ہوسکے ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے، میاں بیوی کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیے اور پیار ومحبت سے رہنا چاہیے“ (بہشتی زیور)یہی وجہ ہے کہ نزاع و اختلاف اور نشوز و نافرمانی کی صورت میں زوجین کے درمیان مصالحت و مفاہمت ہی شریعت مطہرہ کی اولین ترجیح اور اہم ترین مطلوب ہے۔

موجودہ حالات میں جب کہ تین طلاق کا قانون نافذ ہوچکاہے اور زیر التواء کئی ایک مقدموں کے علاوہ طلاق کےتازہ ترین واقعات بھی مسلسل رونما ہوتے جارہے ہیں؛اس لیےاس بات کی  ضرورت محسوس ہوئی کہ صرف مذمتی بیانات اور وقتی جوش و خروش کے بجائےطلاق کی اصل بنیاد اور اس کے اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالی جائے ؛تاکہ اجتماعی طور پر ہمیں غور و فکر کا موقع ملے اور  ٹھوس لائحۂ عمل کے ساتھ ہم میدان عمل میں  اتر سکیں ۔

عاقدین سے رائے مشورہ طلب کرنے میں کوتاہی:

نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے۔پھر جہاں ایک طرف اس حساس ونازک مسئلہ میں والدین کو بےجا اصرار و سختی سے منع کیا ہے۔وہیں دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی ہے کہ وہ والدین کی اجازت و اعتماد کےبغیرکوئی قدم نہ اٹھائیں۔اس معتدل تعلیم کے برعکس ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں والدین اور دیگر قریبی رشتہ دار ہی لڑکے یا لڑکی کو پسند کرنے میں نہ صرف کلیدی؛بلکہ کلی اختیار رکھتے ہیں اور اصل عاقدین سے استصواب اور مشاورت بھی ضروری نہیں سمجھتے یا برائے نام سرسری ذکر پر اکتفا کرتے ہیں یا پھر بچپن میں کیے گئےاپنے معاہدے کی دہائی دیتے ہیں؛ جس کا بعد میں چل کر بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہےاور اختلاف و ناچاقی کے بعدطلاق  تک کی نوبت آجاتی ہے ۔

ایسے مواقع پر توشریعت مطہرہ نے ایک نظر دیکھنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے؛بل کہ اس عمل کو زوجین کے درمیان موافقت وہم آہنگی کا سبب بتلایا ہے۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :کیا تم نے اسے دیکھا ہے ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :جاؤ اسے جاکر دیکھوکیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا ۔ایک روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، راوی کہتے ہیں کہ اس سے شادی کرلی اوراس عورت کی موافقت کا بھی ذکر کیا ۔  (ابن ماجہ، سنن دار قطنی)

معلوم ہوا کہ اولیاء وسرپرستان لڑکے اور لڑکی کی پسند کا خیال کرتے ہوئے ان کے اطمینان  کے بعد ہی بات کو آگے بڑھائیں ورنہ جلدا جلدی میں لیا گیا ایک فیصلہ پورا گھر اور خاندان اجاڑسکتاہے۔

حیثیت و کفائت کی عدم رعایت:

شادی بیاہ کے موقع پر باہمی یگانگت، برابری اور کفو کا بھی شریعت نےاعتبار کیا ہے؛کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان فکر وخیال، معاشرت، طرز رہائش اور دینداری وغیرہ میں یکسانیت یا قربت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہٴ نکاح مستحکم ہو۔ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے برے اثرات ان دونوں تک محدود نہیں رہتے؛بل کہ ہنستے بولتے کئی گھرانے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے احکام نکاح میں شریعت نے کفائت کی رعایت کی ہے۔

احناف کے نزدیک نکاح میں کفائت کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری ج ۱/ ص۲۹۰) یعنی زوجین کے درمیان ذات برادری، دینداری، مالداری، آزادی اور پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے؛ تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”تم صرف کفو والی عورتوں سے نکاح کرو“۔(دارقطنی)

اس وقت نکاح کے لیےطرفین کی جانب سے اونچے گھر،مال و جائیداد کی کثرت اور دیگر دنیوی ساز و سامان کو معیار بنالیاگیا؛جب کہ آپﷺنے دین داری اور اچھے اخلاق کو معیار بنانے کا حکم دیا۔

والدین یا سرپرستوں کا ناروا تسلط:

اللہ رب العزت نے آسمانوں پر سب سے پہلا رشتہ شوہر و بیوی کا بنایا پھر ان کے درمیان اپنی جانب سے محبت و مودت ڈال دی اور اس کو قدرت کی ایک بڑی نشانی قرار دیا؛‌‌یہی وجہ ہے کہ عام طور پر زوجین کے درمیان نزاع و اختلاف اسی وقت دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی تیسرا شخص درمیان میں دخل اندازی کرتا ہے یا زبان درازی اور چغل خوری کے ذریعہ معاملہ کو خراب کرنے لگتا ہے۔

جوائنٹ فیملی میں بہ کثرت ایسا ہوتا ہے کہ باضابطہ خوف وہراس کا ماحول بنایا جاتا ہے،  میاں بیوی کے جائز جذبات و احساسات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور خاندانی روایات کی پیروی کو شریعت سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے؛ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زوجین میں اتحاد باقی نہیں رہتا،شوہر یک طرفہ اپنے والدین کی سنتا ہے تو بیوی ناراض ہوجاتی ہے اورصرف بیوی کی سنتا ہے تو والدین کا نافرمان قرار پاتا ہے؛یہیں سے اختلاف و نزاع شروع ہوتا ہے اور بات طلاق تک پہونچ جاتی ہے۔بہ غور دیکھا جائے تو شرح طلاق میں اضافے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔

اس سلسلہ میں بعض بزرگان دین کا یہ تجربہ بھی بہت مفید ہے کہ نکاح کے بعد کچھ ماہ نوبیاہی جوڑے کو ساتھ رکھا جائے،اس دوران ان کی مناسب تربیت کی جائے پھر ان کا سنسار الگ کردیا جائے؛تاکہ وہ خود اپنے سیاہ و سفید کے مالک ہوجائیں۔ بہ صورت دیگر سرپرستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق تو برابر ادا کرتے رہیں ؛مگر بچوں کی حق تلفی اور کوتاہی کو نظرانداز کریں یا نصیحت وموعظت سے کام چلاتے رہیں۔بات بات پر گوش مالی اور زجر وتوبیخ ،طبیعت میں انقباض پیدا کرتی ہے ؛جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال:

خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک، ایسے کام سے مکمل اجتناب کریں جو اس محبت بھرےرشتہ کی دیواروں کو منہدم یا کمزور کردے۔ اور ہر ایسے کام کو انجام دینے میں سبقت کریں جس سے اس رشتہ کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ آج سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے،ابلاغ و ترسیل کے ان گنت ذرائع عام ہوچکے ہیں، پل بھر میں نہ صرف اپنی آواز کروڑوں میل دور تک پہونچائی جاسکتی ہے؛بلکہ اپنی حرکات و سکنات سے مطلع بھی کیا جاسکتا ہے۔

  سوشل ویب سائٹس میں زیادہ تر لوگ فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، گوگل پلس، انسٹا گرام اور واٹس ایپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں؛‌جن میں حسب استعمال نفع و ضرر کے دونوں پہلو موجود ہیں۔مگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیاجائے اور معاشرے کا بہ نظر غائر جائزہ لیاجائے تو شادی شدہ جوڑوں کےلیے سوشل میڈیا کا بہ کثرت استعمال سم قاتل سے کم نہیں۔نامحرموں سے چیاٹنگ و گفتگو، اہل خانہ کےلیےعدیم الفرصتی کا بہانہ،درون خانہ بھی اپنی ہی مصروفیات یا لغویات میں انہماک وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا نتیجہ طلاق و خلع کی شکل میں ظاہر ہورہاہے۔

آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا بہ وقت ضرورت محدود استعمال ہو اور حرام و لایعنی امور سے کلی اجتناب کی کوشش کی جائے تاکہ ازدواجی زندگی کو بارونق بنایاجاسکے۔

خواتین کی غیر ضروری ملازمت:

اسلام نے شوہر و بیوی کے درمیان تقسیم کار جو اصول بتلایا ہے،وہ پرسکون ازدواجی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ یعنی خاوند کمانے اور کھلانے کا مکلف ہے ؛جب کہ  بیوی امور خانہ داری کو انجام دینے کی ذمہ دار ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اس میں عورتوں کے تعلق سے یہ ہدایت بھی شامل ہے: ’’تم پر ان کو معروف کے مطابق کھانا کھلانے اور کپڑا پہنانے کی ذمہ داری ہے‘‘ (مسلم، کتاب الحج)۔

طلاق کے اسباب میں ایک اہم سبب محض جذبے اور شوق کی تسکین کے لیے خواتین کی غیر ضروری ملازمت بھی ہے۔یہ وہ ناسور ہے جو تیزی کے ساتھ مسلم سماج کا حصہ بنتا جارہا ہے؛جس کے متعدد نقصانات سامنے آرہے ہیں جیسے: احساس برتری کی کیفیت،خود مختاری کا جذبہ ،شوہر کے اختیارات میں دخل اندازی، اولاد کی پرورش وپرداخت میں کمی اور کوتاہی،بیوی کی آمد ورفت پرشوہر کی جانب سے شکوک وشبہات کا اظہار وغیرہ

نوٹ: واضح رہے کہ بہ وقت ضرورت درجۂ مجبوری میں پردہ وحجاب وغیرہ کی جملہ شرطوں کے ساتھ خواتین کی ملازمت کا نفس جواز اپنی جگہ مسلّم ہے۔خاص کر لیڈی ڈاکٹر یا معلمہ کی حیثیت سے اس کی خدمات نہایت قابل قدر ہے ۔

خلاصۂ کلام:

معاشرے میں وقوعِ طلاق کے یہ چند بنیادی اسباب تھے، ورنہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاً عورت کا بانجھ پن یا نرینہ اولاد سے محرومی،زوجین کی ایک دوسرے کے مزاج سے ناواقفیت یا ہٹ دھرمی،مرد کی جانب سے حقوق و فرائض میں کوتاہی،رہائش وغیرہ کا نامعقول انتظام، زوجۂ اولی کو اعتماد میں لیے بغیر نکاح ثانی کا اقدام وغیرہ۔یہ اور ان کے علاوہ جملہ اسباب کا سد باب اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس حوالے سے شعور بیداری مہم چلائی جائے،طریقۂ طلاق سے مکمل آگہی دی جائے،ملک کے ہر صوبے اور صوبے کے ہر ضلع میں جگہ جگہ ورک شاپ اور تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں اور مسجد کے ائمہ و خطباء کے ذریعہ اس تحریک کو فروغ دیاجائے۔ تب کہیں جاکر بےجا طلاق کے اس سیلاب کو بڑی حد تک نہ سہی کسی حد تک ضرور روکا جاسکتا ہے۔حق تعالی ہمیں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور حکمت و دور اندیشی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے ۔آمین

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے