مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
درس وتدریس کا مشغلہ بڑا محترم اور مقدس ہے ، نو نہالوں کو بنا سنوار کر اور تعلیمی اقدار وافکار سے مزین کرکے اچھے شہری بنانے کی ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے، ان کے ایک دن درس کے ناغہ سے کہا جا تاہے کہ چالیس دن کے سبق کی برکت ختم ہوجاتی ہے ، لڑکوں کا جو تعلیمی نقصان ہوتا ہے وہ الگ ، لیکن ادارے کے ذمہ داران اور حکومت کے افسران اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں میں لگاتے رہتے ہیں،دیگر اداروں میں بھی تدریسی عملہ سے غیر تدریسی کام لیا جاتا ہے لیکن اس پر دھیان رکھا جاتا ہے کہ طلبہ وطالبات کا درسی نقصان کم سے کم ہو، اسی لیے مدارس میں جو اساتذہ فراہمی مالیات کے لیے نکلتے ہیں ان کے لیے عموما شش ماہی یا سالانہ تعطیل کے وقت کا انتخاب کیا جا تا ہے؛ تاکہ تعلیمی نقصان نہ ہو جو اساتذہ تعلیمی اوقات میں نکلتے ہیں ا ن کے درس کا متبادل انتظام کیا جاتا ہے اس طرح نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں میں اس کا التزام نہیں کیا جاتا ، وہاں بی ، ایل، او، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری اور انتخابات کرانے کی ذمہ داری ان کے سر ڈال دی جاتی ہے اور اساتذہ مجبور ہوتے ہیں کہ وہ درس وتدریس چھوڑ کر اس کام میں لگیں، نہیں لگیں گے تو ان پر معطلی کی کارروائی ہو سکتی ہے اور نوبت بر خواستگی تک کی بھی آ سکتی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار محکمۂ تعلیم نے ان کے ذمہ میدان میں قضائے حاجت کر رہے لوگوں کی تصویر کھینچ کر محکمہ کو فراہم کرانے کا حکم دیا تھا، کتنی توہین آمیز بات تھی، اور کیسا عجیب لگے گا، جب مرد اساتذہ میدان میں قضائے حاجت کر رہی عورتوں کی تصویر لیتے اور عورتیں مردوں کی، یہ بے حیائی کی بات تھی، سخت اعتراض کے بعد یہ حکم واپس لے لیا گیا، ایک بار آوارہ کتوں کے بارے میں انہیں رپورٹ دینے کو کہا گیا تھا، ایسے میں کار طفلاں تمام نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، بعض اسکولوں میں دو ہی استاذ ہیں، ایک استاذمہینوں سے بی، ایل او کے کام کے نام پر اسکول سے باہر ہے، بعض کو امتحان کی گارڈنگ میں ڈال رکھا گیا ہے، اب ایک استاذ پانچ کلاس کو کیسے پڑھائے گا، ہر آدمی سمجھ سکتا ہے، اسی طرح بعض شعبہ کے اساتذہ کو غیر تدریسی کام کے لیے ڈپوٹیشن پر لگا دیا جاتا ہے، اس شعبہ میں ایک ہی استاذ ہو ایسے میں پورا شعبہ ہی بند ہوجاتا ہے۔
صرف بہار ریاست کی بات کریں تو یہاں دس ہزار سے زیادہ اساتذہ بی ایل او کے کام پر لگے ہوئے ہیں، کئی اساتذہ دوسرے محکمہ میں ڈپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں،جب کہ محکمہ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری کی ہدایت ہے کہ کوئی استاذ ڈپوٹیشن پر نہیں رہے گا۔ جن اسکولوں سے اساتذہ محکمہ تعلیم کے افسران کے دفتر میں چلے گیے ہیں، وہاں کی تعلیم ٹھپ ہے اور اس قسم کے اسکولوں کی تعداداس قدر ہے کہ انہیں انگلیوں پر نہیں گنا جا سکتا۔
بعض اسکول کے اساتذہ برسوں سے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں، پہلے ان کا استعمال صرف پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخاب میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب بی ایل او کا کام مستقل کام بن گیا ہے، اس سے سخت تعلیمی نقصان ہو رہا ہے، اساتذہ کی تنظیمیں اس کو ختم کرنے یا سلسلے کو مختصر کرنے کی مانگ کرتی رہی ہیں، لیکن مطالبہ پورا اس لیے بھی نہیں ہو رہا ہے کہ بہت سارے اساتذہ کی دلچسپی پڑھانے سے زیادہ باہر کے کام میں ہوتی ہے اور وہ اسکول سے باہر رہنا ہی پسند کرتے ہیں، اسی طرح جو اساتذہ ڈی ای ، او اور بی ای او وغیرہ کے دفتر میں ڈپوٹیشن پر ہیں، وہیں بنے رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہاں بالائی آمدنی، سہولت پہونچانے کی فیس اور رشوت کے مواقع زیادہ ہیں، اسکول کی خشکی کے مقابلے انہیں وہاں کی تری زیادہ پسند ہے، وہ افسران کے نام پر رقم اینٹھنے کا بھی کام کرتے ہیں، اور افسران تک پہونچانے کا بھی، ایسے اساتذہ کی دلچسپی درس وتدریس سے نہیں ہوتی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو یہ انتہائی ضروری ہے کہ تدریسی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں پر نہ لگایا جائے، دوسرے کام بھی ضروری ہیں، لیکن اس کے لیے سرکار الگ محکمہ بنا کر بحالی کرے جو پورا وقت سروے، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری ، انتخابی کاموں پر لگائے ، اس لیے کہ یہ کام اب جز وقتی نہیں، کل وقتی ہو گیا ہے ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
04دسمبر2022
جواب دیں