آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی کب تک!!

اس ملک میں یا دیگر ممالک میں جب کبھی مذہبی اور نسلی تعصب کی بنیاد پر کوئی قوم دوسری قوم کے خلاف ہتھیار اٹھاتی ہے تو وہ نسل کشی کے ارادوں سے ہی اٹھاتی ہے۔ جہاں تک آسام کے حالیہ واقعات کا تعلق ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار مودی کے اُس تقریر کا ردعمل جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ان کے اقتدار پر آنے کے بعد بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو اپنا بوریہ بستر باندھ کر اپنے ملک واپس ہونے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش سے ہندوستان میں پناہ لینے والے دو قسم کے تارکین وطن ہیں۔ ایک بنگالی مسلمان جو غیر قانونی طریقہ سے ہندوستان میں آباد ہوگئے ہیں دوسرے وہ غیر مسلم جو مسلم ملک میں اذیت رسانی کا شکار ہوکر پناہ لینے کیلئے یہاں آگئے ہیں۔ اس اشتعال انگیز تقریر کا یقیناًیہ ردعمل ہوگا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی اور بوڈو انتہا پسندوں کے درمیان چند ماہ پہلے طئے پائے گئے ایک معاہدے کی بنیاد پر ہی یہ ردعمل ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسلم کش فسادات اچانک نہیں ہوئے بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے کروائے گئے اور اس کے لئے نہ صرف بوڈو انتہا پسند گروپ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ ذمہ دار ہیں بلکہ بی جے پی اور اس کے ساتھ ساتھ کانگریس کی ریاستی حکومت بھی فرائض کی ادائیگی میں غفلت کی وجہ سے برابر کی ذمہ دار ہے۔
آسام میں نسلی تطہیر کے نام پر مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد واقعات کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ آسامیوں کو مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش ہے۔ ان کا یہ الزام ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے مسلمان سرحد پار کرکے آسام میں بود و باش اختیار کئے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان نے کلیدی رول ادا کیا اور اس وقت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش سے ہندوستان میں پناہ لینے والے بنگالیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں مفت رہائش کی سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ان کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2011 ء کے مردم شماری کے مطابق آسام میں 84ہزار 826بنگلہ دیشی ہیں جبکہ آسام کو ’’بیرونی‘‘ عوام سے پاک کرنے کی تحریک چلانے والوں کادعویٰ ہے کہ ہر سال 9ہزار بنگلہ دیشی ہندوستان آتے ہیں اور یہیں بس جاتے ہیں۔ اور ایک عام اندازے کے مطابق ان کی آبادی 2تا10ملین کے درمیان ہے۔ 
بوڈو انتہا پسند اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے رہے ہیں کہ آسام میں بنگالی زبان بولنے والے سبھی مسلمان بنگلہ دیشی نہیں ہیں بلکہ یہ مسلمان لگ بھگ سوا دو سو برس سے یہ یہیں پر مقیم ہیں۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں19ویں صدی کے اوائل سے ہی یہاں بنگالی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ 1826ء میں برطانیہ نے پہلی اینگلو برمی لڑائی میں مقامی فوج کو شکست دی اور ’’معاہدہ یندابو‘‘ کے تحت آسام کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس وقت بھی مشرقی بنگال سے ہزاروں کی تعداد میں بنگالی بولنے والے مسلمان منتقل ہوگئے تھے۔ مقامی افراد کے علاوہ انگریزوں نے کم اجرت والے مزدوروں کے حصول کے لئے ان بنگالیوں کو آنے سے روکا نہیں تاہم 20ویں صدی کے دوسرے دہے تک ان بنگالی مسلمانوں کے خلاف مقامی عوام میں سیاسی تحریکات شروع ہوگئیں جس کے بعد بنگالی مسلمانوں کی آبادی پر پابندی کا مطالبہ شروع ہوا۔ مگر مسلم آبادی کو بھلا وہ کیسے روک پاتے جس میں ہمیشہ سے منجانب اللہ برکت ہی برکت ہے۔ آسام میں جو بنگالی مسلمان ہیں انہیں پناہ گزین کہنا یا غیر قانونی باشندے قرار دینا سب سے بڑا ظلم ہے کیوں کہ یہ وہی بنگالی مسلمان ہیں جنہوں نے 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور تقسیم وطن سے پہلے ہی سے آسام کے ناگاؤں، کمروپہ، گول پارہ اضلاع میں مسلمان آباد تھے۔ ان کے خلاف جو تحریکات چلائی جارہی ہیں وہ صرف اور صرف مذہبی اور نسلی بنیادوں پر ہیں۔ حالانکہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی 30.92فیصد ہے۔ اور ضلع دھوپری میں 74.29فیصد، گول پارہ میں 53.71فیصد، بار پیٹا میں 59.36فیصد مری گاؤں میں 47.58، ناگاؤں میں 50.99، کریم گنج میں 52.30، ہیلاکنڈی میں 57.99فیصد، کچر میں 36.13فیصد، دارنگ میں 35.54فیصد ، گیگاؤں میں 38.5 فیصد مسلمان آباد ہیں۔
آزادی ہند اور تقسیم وطن کے وقت سے ہی آسام میں جو بنگالی مسلمان تھے انہوں نے اپنی علاحدہ شناخت نہیں بنائی بلکہ انہوں نے مقامی عوام کی طرح اپنی زبان کو آسامی ہی رکھا۔ اس کا ثبوت صرف ایک ضلع دھوبری کافی ہے جہاں مسلم آبادی 74.29فیصد ہے اور جن کی مادری زبان آسامی ہے‘ ان کا فیصد 70.07 ہے۔ آسام کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی شناخت برقرار رکھتے ہوئے آسامی تہذیب و ثقافت کو اختیار کیا۔ اس کے باوجود ان کے خلاف مسلسل پُرتشدد تحریکات چلائی جاتی رہی ہیں۔ بدترین فسادات یا مسلمانوں کی نسل کشی 18؍فروری 1983ء کو ضلع ناگاؤں کے علاقہ نیلی میں ہوئی تھی جب 2000 مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس وقت آسام میں کانگریس کے ہتیشور سائیکیا کی حکومت تھی۔ 1983ء سے 2014ء تک کم از کم 6 مسلم کش فسادات ہوئے۔ جولائی 2012ء میں ہتھیاروں سے لیس بوڈو انتہا پسندوں نے نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو موٹر بائک سے روند ڈالا تھا جس پر شدید ردعمل ہوا اور چار انتہا پسند ہلاک کردےئے گئے جس پر بوڈو انتہا پسندوں نے بڑے پیمانے پر تشدد برپا کیا اور ایک سو سے زائد مسلمان شہید کئے گئے جن میں معصوم بچے اور عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ آسام میں مقیم بنگالی مسلمانوں کے صفائے کی تحریک دارالحکومت دہلی میں بھی منظم کی گئی جسے کئی انتہا پسند تنظیموں کی حمایت حاصل رہی۔ ان تحریکات کا اثر مہاراشٹرا میں بھی ہوا جہاں سے بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی پناہ گزیں کہہ کر پہلے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر ان سے رشوت حاصل کی اور پھر انہیں زبردستی بنگلہ دیشی سرحد کے پار کردیا گیا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مہاراشٹرا سے جن بنگالی مسلمانوں کو نکالا گیا وہ بنگلہ دیشی نہیں تھے بلکہ مغربی بنگال سے ان کا تعلق تھا۔بوڈو لینڈ ایک علیحدہ ریاست کی تحریک ایک عرصہ دراز سے چلائی جارہی ہے بوڈو مطالبات کے پیش نظر 13؍مئی 2005ء کو بوڈولینڈ ٹیری ٹوریل کونسل BTC کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سیاسی طور پر بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ کا اس پر تسلط ہے۔ 2006کے الیکشن میں فرنٹ نے کامیابی حاصل کی اور کانگریس کے ساتھ مفاہمت کرکے اپنے موقف کو مستحکم کیا۔ 2010ء کے انتخابات میں بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ نے کانگریس کی حمایت سے کامیابی حاصل کی اور کابینہ میں بھی دو نشستیں حاصل کرلیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ بوڈو قبائیلوں کو کانگریس کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے اور اپنے سیاسی مفادات کیلئے وہ اس کی کوتاہیوں اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتی رہی ہے۔ مئی 2014ء کے اوائل میں کھوکراجار میں جو واقعات پیش آئے اس میں کانگریس بھی اس حد تک ذمہ دار ہے کہ اس نے مودی کی تقریر کے امکانی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاطی اقدامات نہیں کئے۔ ہوسکتاہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وہ بوڈوقبائل میں اپنی مقبولیت سے محروم ہونا نہیں چاہتی۔
جہاں تک پناہ گزینوں کا تعلق ہے ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت ہندوستان میں صرف بنگلہ دیش کے پناہ گزیں نہیں ہیں بلکہ برما، پاکستان اور افغانستان کے بھی پناہ گزین ہیں۔ پاکستان سے سکھ اور ہندو کثیر تعداد میں ہندوستانی سرزمین پر بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ان پناہ گزینوں میں ایل کے اڈوانی بھی شامل ہیں جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت سندھ (پاکستان) سے ہندوستانی علاقہ میں آگئے تھے اور حیرت و تعجب کی بات ہے کہ وہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہندوتوا نظریہ کے حامل قائدین ہندوستان کو ’’بیرونی پناہ گزینوں‘‘ سے پاک کرنے کی بات کرتے ہیں۔آسام کے واقعات کا بار بار دوہرایا جانا نظم و نسق کے نکمے پن کا ثبوت ہے۔ اس کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ الیکشن 2014کے نتائج کے بعد جو بھی جماعت حکومت تشکیل دے گی اس سے اس سلسلہ پر سنجیدگی سے مذاکرات کی ضرورت ہے ورنہ مستقبل میں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے