از قلم: محمد فرقان (بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کررہا ہوں کہ اس کائنات کا ایک بڑا فتنہ بلکہ فتنوں کی ماں اور زمانے میں سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل کر خوشگوار فضا کو زہر آلود کرنے […]
از قلم: محمد فرقان (بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کررہا ہوں کہ اس کائنات کا ایک بڑا فتنہ بلکہ فتنوں کی ماں اور زمانے میں سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل کر خوشگوار فضا کو زہر آلود کرنے والی شی ئعصبیت اور تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکے فرزندانِ توحید کی ایک بڑی تعداد راہ راست پر آجائے۔ اس موضوع پر کئی دنوں سے کچھ لکھنے کی کوششیں کی لیکن قلب و دماغ مجتمع نہیں ہوئے۔آج جب کچھ ہمت ہورہی ہے تو یکطرف قلم کچھ لرزش محسوس کررہا ہے تو دوسری طرف انگلیاں بھی ساتھ چھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ تعصب کے اس عنوان پر لکھتے ہوئے قلم کی لرزش اور قلب و دماغ کی گھبراہٹ بے معنی نہیں۔ کیونکہ تعصب کے اس زہر نے ہر طبقے کو زہر آلود کردیا ہے، دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، دانشوران، سیاستدان اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ بعض شرع کے پابند سفید پوش طبقے کے افراد بھی اس تعصب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے آج اسلامی اخوت اور بھائی چارگی تہس نہس ہوگئی ہے۔ قلب مضطر کو بے کلی سے اطمینان کرتے ہوئے اس عنوان پر لکھنے کی ضرورت اسلئے محسوس ہوئی کہ اسی تعصب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنی پیر پر کلہاڑی مارلی تو ہزاروں معزز حضرات جن عہدوں کے لائق تھے ان سے وہ محروم ہوگئے اور ہزاروں افراد جن عہدوں پر فائز تھے ان سے انہیں دستبردار ہونا پڑا۔ شدت و انتہا پسندی، نفرت، تفرقہ اور غرور کے اس چشمہ تعصب اور عصبیت سے اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔آمین انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے مثبت اور منفی جذبات اور احساسات سے نواز رکھا ہے۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں کا اثر براہ راست معاشرہ پر بھی پڑتا ہے۔ آپسی محبت و الفت سے معاشرے مثالی بنتے ہیں، قومیں ترقی کرتی ہیں اور باہمی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے۔ انتشار، نفرت انگیزی، تکبر وغرور، انانیت، قومیت، علاقائیت، لسانیت، تفرقہ بازی ایسی چیزیں ہیں جن سے معاشرہ اس طرح بکھر جاتا ہے جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں، رشتہ دار، عزیز واقارب، گھر وخاندان اور قوم وقبیلوں کے درمیان نفرت ودشمنی جنم لینے لگتی ہے۔اگر آج ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، معاشرے پر نظر دوڑائیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے وہ”عصبیت اور تعصب“ہے۔ جذبہئ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ محبت و الفت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے اور نفرت، عداوت اور تعصب انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس روئے زمین پر بے شمار فتنوں نے جنم لیا لیکن ان تمام فتنوں میں ”عصبیت اور تعصب“ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، بعض مؤرخین نے تو عصبیت کو فتنوں کی ماں سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ تعصب خطرناک سماجی امراض ہے۔ یہ انسانیت کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ تعصب افراد، اقوام اور معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ ایسی آفت ہے جب بڑھتی اور پھیلتی ہے تو انسانوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ تعصب کی ہوا چلتی ہے تو تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ، مہذب، غیر مہذب، دیندار اور غیر دیندار بلکہ اہل علم شرع کا پابند سفید پوش طبقہ سمیت ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ غرور کا سرچشمہ ہے۔ یہ نفرت اور بدعنوانی کا بہت بڑا سبب ہے۔ تعصب کے باعث انسان افراد سے تعلق میں شدت پسند ہوجاتا ہے۔ افکار کے حوالے سے انحراف کی روش اپنا لیتا ہے۔ تعصب کا مارا انسان روا داری، افہام و تفہیم اور مختلف فکر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ تعصب شدت پسندی اور انتہا پسندی کا وہ کیڑا ہے جو نفرت، تفرقہ، گمراہی، بغض کو بڑھاوا دیتا ہے۔ تعصب اور عصبیت حق و انصاف اور اصول پسندی کا حقیقی دشمن ہے۔ اسکے چلتے ہمیں کسی کی ترقی، کامیابی اور عزت دیکھی نہیں جاتی۔ تعصب خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو، امت کے شیرازہ کو منتشر کردیتا، ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیتا، ان میں بغض وعداوت اور نفرت وکراہیت اور حسد وعناد کا زہر گھول دیتا ہے، جس کے بعد انسان اندھا ہوجاتا ہے، پھر انہیں باہم قتل وقتال اور لڑائی جھگڑے کرنے در پے آزار ہونے اور کسی بھی حال میں دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کرتے رہنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہیکہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی تو ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت مل گیا اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی تو اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔ شیطان نے وہیں سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا اور اس قتل کا سبب بھی عصبیت اور حسد ہی تھا۔ تعصبات کے نقصانات سے تاریخ کے ہزاروں صفحات سیاہ ہیں۔ انبیائکرام علیہم السلام اور مصلحین کو بندوں کی اصلاح اور ہدایت کی راہ میں غیر معمولی تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ تعصبات کے باعث خونریزیاں، حقوق کا ضیاع اور ظلم و ستم کا رواج قائم ہوا۔ آج امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ قوم پرستی اور عصبیت و تعصب کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے، یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکین مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی، قتل و غارت کی انتہائی ہوتی اور سینکڑوں لوگ اس تعصب اور عصبیت کے چلتے قتل کردیئے جاتے۔ مگر جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد اس روئے زمین پر اسلام کی کرنیں پڑنی شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اس نے جاہلیت کی عصبیت وتنگ نظری کے خاتمہ پر توجہ دی اور اس کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ دینی ومذہبی اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھایا، اسلامی اخوت و مودت کو ہی اس نے ایک مرکز پر مجتمع ہونے اور انسانی رابطے کا محور بننے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس طرح انسداد عصبیت اسلام کی اولین دعوت ہے۔ عہد نبوی میں پہلی مرتبہ حضورﷺ نے مواخات یعنی اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ مکہ مکرمہ میں ان لوگوں کے درمیان کرائی جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان میں زیادہ تر لوگ مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے لیکن کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو حبشہ، فارس اور دیگر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر ہجرت مدینہ کے بعد بھی آپ ؐنے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمادیا۔ اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت جامع ومفصل خطبہ دیا تھا، اس خطبے میں آپ ؐنے عصبیت کو ختم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو آگاہ رہنا، تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت وفوقیت حاصل نہیں، البتہ یہ فوقیت وبرتری حاصل ہوتی ہے تقویٰ سے، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا تمہارا پرہیزگار ہے، کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ صحابہؓ نے عرض کیا بے شک اللہ کے رسولؐ آپ نے پہنچا دیا، تو آپ ؐ نے فرمایا: موجود لوگ میرا پیغام ان تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ (مسند احمد)۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں بڑوں چھوٹوں، غریبوں ومالداروں، عرب وعجم، کالے گورے، قریب وبعید، رشتہ دار و اجنبی علاقائی وبیرونی کی تفریق نہیں اور نہ ہی طبقاتی امتیاز ہے۔ اسلام ایک ایسا جامع و مکمل، یکتا ومنفرد دین ہے جس نے اپنے تابع ہونے والوں کی مکمل راہنمائی کی ہے، پیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے ہیں، اسی نسبت سے اسلام نے عصبیت کے متعلق ایسے واضح اور قیمتی اصول بیان فرمائے جس سے تعصب اور عصبیت پسندی کی دیواریں ہل گئیں، ان کا وجود لزرنے لگا، اسلام نے انسانیت کو حیوانیت، درندگی، ظلم واستبداد، جبر ومشقت، تعصب وعصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ، جینے کا منظم نظام عطا کیا جس کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی، احکامات کی نافرمانی اوراسوہئ رسولؐ سے بغاوت کی، اور تعصب اور عصبیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو ہمیں تباہی کی طرف لے گیا، اسی لیے آج ہم دنیا میں ذلت وعبرت کا نشانہ ٹھہرے اور ٹھہرتے جارہے ہیں۔
اس پر فتن دور میں علاقائی اور لسانی تعصب اور عصبیت اپنے عروج پر ہے۔ اس فتنہ نے ملت اسلامیہ کا امن و امان غارت کر رکھا ہے، رشتوں کی اہمیت کو نیست و نابود کردیا ہے، اتحاد اتفاق اور پیار و محبت کے ساتھ رہنے والے اسلامی بھائیوں میں نفرت و عداوت کی بنیج بو دی ہے۔ جبکہ اسلامی احکام کے مطابق خاندان، قبیلوں، برادریوں، ذاتوں، علاقوں، صوبوں اور شہروں کی تقسیم اور ان کی بناء پر انسانوں کی تقسیم فقط شناخت اور پہچان کیلئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔“ (الحجرات :13)۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے قرآن نے رسومِ جاہلیت اور تمام طرح کی عصبیت کی بیخ کنی کی ہے چاہے وہ قومیت پرستی، قبیلہ پرستی، ذات وبرادری کی عصبیت، لسانیت وطنیت پرستی ہو، اسلام نے یکسر اس کی مخالفت کی ہے اور صالح معاشرے کے لیے بہترین اصول ارشاد فرمائے ہیں۔بہرحال یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاندان، برادری اور وطنی ولسانی تقسیم کا مقصد یہ ہیکہ اس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں ایک دوسرے سے تعارف ہوسکے کہ یہ شخص فلاں ملک میں سے فلاں صوبہ کے فلاں شہر کے فلاں قبیلہ اور برادری کے فلاں خاندان سے ہے لیکن افسوس کہ اب یہ تقسیم تعصب کے لیے استعمال ہونے لگی ہے۔ اور اسی تعصب اور عصبیت پسندی سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، عصبیت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اسی عصبیت نے اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو تہس نہس کر ڈالا ہے، عصبیت پسندی کی وجہ سے ہم اسلامی اخوت کے اس عظیم نعرے کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں، اس یکتا درس کو بھلا بیٹھے جس میں آقائے نامدارحضرت محمد رسولﷺ نے ارشاد فرمایا”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے“ (مشکوٰۃ)۔ عصبیت کی نحوست سے معاشرہ متعفن ہو رہا ہے لیکن اس سماجی اور اخلاقی بیماری کے علاج کی فکر بہت کم لوگوں کو ہے اور حد یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ اپنے کو بیمار نہیں بلکہ صحت مند سمجھتے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دوسروں پر ناحق ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ اور اگر انکی حقیقت آشکار ہوجائے تو فیصلہ کو سر تسلیم کرنے کے بجائے اپنے باطل مقاصد کے حصول کیلئے تعصب و عصبیت کے زہر کے پیالے کو آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس نے بھی اس زہر کو پیا وہ تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹک گیا کہ پھر اسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔ ایسے لوگ جو عصبیت پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں اور جاہلیت کا نعرہ لگاتے ہیں، اسلام انہیں دل کا گندہ اور معنوی نجاست میں مبتلا قرار دیتا ہے۔ مذہب اسلام عصبیت کو کس قدر ناپسند کرتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ”جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت پر قتل کیا اور جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے“ (مشکوۃ: 418)۔ اگر یوں کہا جائے کہ تعصب ناسور سے بھی بدتر ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ ناسور جیسے امراض تو دنیوی زندگی کو تباہ وبرباد کرتے ہیں بلکہ ان امراض میں مبتلا انسانوں کو ایمان والوں کو اخروی ثواب سے نوازا جائے گا اور تعصب وعصبیت سے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی، دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ، اور کتاب و سنت کی روشنی اور خوشبو سے دور ہیں وہ افراد جو عصبیت کے چوبچے میں غوطہ لگاتے ہیں، اور قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں، اور اس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے خوبصورت چہرہ کو داغدار کرتے ہیں۔ مذہب اسلام آفاقی و عالمگیر نظریہ و فکر کا حامل ہے، وہ کبھی بھی کسی تنگ نظری، تنگ خیالی قومیت، علاقیت، وطنیت اور فرقہ پرستی سے مصالحت کا روا دار نہیں ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ جس مذہب کی تعلیمات اس قدر وسیع و ہمہ گیر، شاف و شفاف اور جس کے اندر تعصب، عصبیت، تنگ نظری اور تنگ خیالی کی ذرا بھی گنجائش نہیں، اور جو مذہب جاہلی عصبیت (قومیت، لسانیت، طنیت و علاقیت) کو مٹانے کے لیے آیا، جس امت کو یہ پیغام دیا گیا کہ عجم و عرب کی بنیاد پر گورے اور کالے کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت و فوقیت اور برتری حاصل نہیں، جس امت کے آخری نبی ؐنے عصبیت کو جاہلانہ عمل قرار دیا، اس کو اپنے ہاوں کے خاک کے نیچے دبا دیا اور یہ فرمایا کہ جو عصبیت اور قومیت وطنیت کی طرف بلاوے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اس امت کی اکثریت میں یہ جاہلی برائی کثرت سے پنپ رہی ہے، عوام تو عوام مہذب و مثقف اور تعلیم یافتہ لوگوں بلکہ سفید پوش طبقے میں بھی یہ برائی کچھ زیادہ ہی پائی جارہی ہے۔ جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ جبکہ اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے، جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی، جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑے گئے جس کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے مغلوب ومحکوم بن گئے، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی، عربوں کو جب خانوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کی گئی تو اس سے پہلے ان عربوں اور دوسری مسلم وغیر مسلم قوموں میں اسی عصبیت کو ہوا دی گئی، اسے پروان چڑھایا گیا اور قومیت کے نعرے کا طوفان برپا کرکے اسلام کی عمارت کو کھوکھلا کیا گیا اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔ اتنا سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوا اور ہورہا ہے اسکے باوجود ہم صوبائیت، علاقائیت و لسانیات کی لڑائی لڑنے میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کررہے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور مشرق ومغرب، شمال وجنوب کی باتیں کرتے گھوم رہے ہیں۔ جبکہ اسلام کا اس برق رفتاری سے ساری دنیا میں پھیلنا اسی لئے ممکن ہوسکا کہ اس نے رنگ ونسل اور ہر طرح کی عصبیت وامتیاز کا پہلے خاتمہ کیا اور اتحاد و اتفاق سے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا کر ایک مثالی تاریخ رقم کی، لیکن افسوس کہ آج اسی اتحاد و اتفاق کو بعض ناداں لوگ علاقائی، لسانی اور رنگ ونسل کی عصبیت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں،جسکا کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی بیماری سے پیچھا چڑھائیں، اپنے دلوں میں اخوت ایمانی کو پروان چڑھائیں اور اسلام کے کلمہ پر متحد ویکجا ہوں کہ عزت و رفعت کی بحالی اس کے بغیر ممکن نہیں، آخر کب تک ہم بغض وعنات، کینہ وکدورت، حسد و نفرت کے دلدل میں پھنسے رہیں گے، کب تک عہد جاہلیت کی تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ تیزی سے پھیل کر ایک منظم معاشرے کو تباہی کی راہ پر لے جانی والا یہی تعصب اور عصبیت ہے، چپراسی سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک کے لوگ اس عصبیت کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور عصبیت بالخصوص قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کے گھناؤنے کھیل سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنے ذہنوں کو پاک کریں اور اسلام کے پیغام حق وانصاف اور مساوات کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا پھر اسلام کے دامن میں پناہ لینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھے۔ اگر ہم دین و اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب و عصبیت کو اپنے ذہن و دماغ سے نکال کر اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ دینا ہی ہوگا ورنہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگانے والوں کے مانند ہونگے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ہرطرح کے تعصب و عصبیت سے اور اس کے بھیانک نتائج سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو (مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں