آسام میں خون آشامی

ان کے گھر جلادیے گئے ۔انہیں بھاگ کر پناہ گزیں کیمپوں میں گذارا کرنا پڑا۔حالیہ حملہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ انتخابی انتقام کا معاملہ ہے ۔جیسا کہ آنے والی خبروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے ۔بوڈو لینڈ مسلم اسٹوڈینٹ یونین کے جنرل سکریٹری رقیب الاسلام نے میڈیا کے سامنے وضاحت کی کہ بوڈو لینڈ میں 24 اپریل کی ووٹنگ کے بعد ہی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔بوڈو لیڈروں کا خیال تھا کہ مسلمانوں نے بوڈو امیدوار کے خلاف ووٹنگ کیا ہے ۔جبکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بوڈو لینڈ کے مقامی مسلمانوں نے کہا تھا کہ وہ بوڈو لینڈ لیڈروں کے خلاف ووٹنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔آسام میں کافی عرصے سے علیحدگی پسند تحریک کا زور ہے اور اس کا شکار وہاں کا مسلمان ہی ہوتا رہا ہے ۔تقریباً تیس سال قبل آسام کے نیلی میں ایک ہی دن میں جو قتل عام ہوا تھا اس کی نظیر نہیں ملتی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2191 لوگ مارے گئے تھے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار پانچ ہزار سے زائد کی ہلاکت بتاتے ہیں ۔نیلی کے باشندے آج تک 18 ؍فروری 1983 کا وہ دن نہیں بھول پاتے جب تین گاؤں بسنتوری،بوکدوبا ہابی اور بوربوری میں قتل عام ہوا تھا ۔بی بی سی نے حالیہ رپورٹ میں کئی انٹرویو پیش کئے ہیں اس میں ایک شخص عبد الحق جو کہ بسنتوری گاؤں کا رہنے والا ہے اس کے خاندان کے 12 افراد قتل کردئیے گئے ۔اسی طرح بوکدوبا ہابی کے مسلم الدین کے پورے خاندان کو ختم کردیا گیا ۔یہ المیہ صرف ان دو شخصوں کا نہیں ہے ایسے کئی سو لوگ ملیں گے جو ان حالات سے گذرے ہیں ۔آج تک وہ لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں ۔وہ اکیلے بچے ہیں جو اپنے زخموں کو لئے انصاف کی آس میں جی رہے ہیں کہ شاید کبھی یہاں کے نظام کا ضمیر بیدار ہو اور قاتل سزا پاسکیں اور مظلوم کے زخموں کو مرہم مل سکے ۔لیکن وہ انتظار ہنوز قائم ہے ۔ان جاری قتل عام کا سبب جو بھی لیکن یہاں ہمیں کئی باتوں کی طرف غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ایئر کینڈیشن کمروں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے کانفرنس روم سے کسی مذمتی بیان سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ان سیاسی رنجشوں اور انتقامی کارروائیوں کا سبب جاننے کی ضرورت ہے ۔سبب جاننے کے بعد اس کے تدارک کیلئے کیا ممکن ہو سکتا ہے وہ کارروائی کی جانی چاہئے ۔ہر کارروائی اور حادثہ کے بعد حکومت کو کوسنے اور فوج اور سیکورٹی کی مانگ کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت ذمہ دار نہیں ہے ۔بیشک وہ ذمہ دار ہے اور فوج اور سیکورٹی کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا پائیدار اور دائمی حل نہیں ہے ۔دائمی حل تو مقامی مسائل کوسمجھنے اور اس کو سمجھ کر حل کرنے سے ہی نکلے گا ۔یہاں ملی قیادت اگر کوئی سدھ بدھ نہیں لیتی یا اسے کسی مقامی مسائل کا ادراک نہیں تو کم سے کم ان لوگوں کو جو مقامی طور پر مسائل کا ادراک رکھتے ہیں انہیں مقامی سطح پر ہی اس کو حل کرنا چاہئے ۔ جب مسلمانوں کے سر سے موج خون گذر جاتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔بعد میں لاشوں کو گننے اور حقیر معاوضہ کیلئے سرکاری اہلکار باہر آتے ہیں ۔یا لیڈران مذمت کیلئے نکلتے ہیں ۔لیکن اس سے تو عبد الحق اور مسلم الدین کو اس کا خاندان واپس نہیں مل سکتا جو اس دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں ۔اس لئے مقامی سطح پر جو سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہوں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان کے ساتھ گفتگو کرکے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں اور کسی بھی تحریک اور سیاسی جماعت کی مخالفت کو مقامی سطح پر سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس کی مخالفت سے انہیں کس قدر نقصان ہو نے والا ہے ۔ یقین جانئے پولس فوج دیگر سیکوریٹی ایجنسیاں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو حکومت یا سیکورٹی فورسز کی جنگ خود لڑنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔انہیں اپنے تحفظ کی منصوبہ بندی خود ہی کرنی ہوگی ۔بے چارے ہمارے قائد بھی کیا کریں ان کی سیاسی معاشی اور جانے کیا کیا مجبوریاں ہوتی ہیں آخر وہ کہاں تک ان کا خیال کریں ۔اس لئے مسلمان زمینی حقیقت کو سمجھنے اور اسی کے مطابق اپنے مقددور بھر کوشش کریں ۔یہاں ہم پھر ایک بات دہرائیں گے کہ سب کو نریندر مودی کے ذریعے کیا گیا گجرات 2002 کا فساد یاد ہے اس پر خوب چرچا بھی ہوتی ہے ۔ ہم نہیں کہتے کہ ایس انہیں ہونا چاہئے لیکن تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جو کہ آسام میں ہوا تھا تیس سے زیادہ سال گذر جانے کے باوجود انہیں انصاف کیوں نہیں ملا ۔ میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ کے مظلومین پچیس سال گذرنے کے باوجود کیوں انصاف کو ترس گئے ۔ممبئی میں 92-93 کے فسادیوں کو کیوں نہیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا ۔کیا اس سے یہ نہیں سمجھا جانا چاہئے کہ کانگریس اپنے جرائم چھپانے کیلئے مودی کی درندگی کا شور تو کرتی ہے ۔لیکن خود کی حکومت میں ہونے والی درندگی پر خاموش رہتی ہے اور میڈیا کے ذریعے اتنا شور مچایا جاتا ہے کہ کسی کو کانگریس کی کارکردگی کی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہ ملے۔

«
»

حد قذف(احکام و شرائط)

’’بوکوحرام تنظیم ،،کاوجود :منظر پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے