اروند کجریوال کے نام کھلا خط

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں یہ سب کچھ اروند بھائی آپ کی ذاتی کوششوں، قربانیوں اور بے لوث ورکروں کی انتھک محنت کی وجہ سے ہوا، اب تک جو الیکشن بھی لڑا گیا وہ آپ کے نام اور آپ کی بنائی ہوئی زمین پر ہی لڑا گیا۔
اس لوک سبھا الیکشن میں ریاستی سطح پر ممبئی، پنجاب، دہلی اور ہریانہ سے علاوہ کہیں بھی حوصلہ افزاء کام نہیں ہوا۔ اول تو ریاستی یونٹس مضبوط نہیں تھیں دوسرے یہ کہ ریاستی ذمہ دار خودانتخاب کے میدان میں کود پڑے تاکہ اروند کجریوال کی بنائی ہوئی زمین پر الیکشن جیت لیں اور اس طرح ریاستی یونٹس غیر مستحکم ہوکر رہ گئیں۔ 
میں مہاراشٹرا کی بات کرو تو یہاں صرف دو چہرے تھے ایک مینگ گاندھی اور دوسرے انجلی دمانیہ یہ دونوں انتخاب کے میدان میں کود پڑے اور مہاراشٹرا یونٹ کو رام بھروسے چھوڑ دیا اور پھر اس یونٹ کو محترمہ پریتی مینن نے جسطرح چاہا چلایا گویا اُن کو سارے اختیارات حاصل تھے۔ اور سوراج کے نام پر وجود میں آنے والی پارٹی خود سوراج سے محروم نظر آنے لگی، اور اُس کے بعد سیٹوں کی تقسیم کو لیکر فیصلے بھی جلد بازی میں کئے گئے لیکن بھیونڈی کی سیٹ پر متنازعہ شخص کو تمام ثبوت اُس کے خلاف ہونے کے باوجود بھی ٹکٹ دیا گیا جو اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ مہاراشٹرا اسٹیٹ ایکزیکیٹیو کمیٹی کے تمام ممبران نے اپنی من پسند سیٹوں کو منتخب کیا اور الیکشن بھی لڑاسوائے ایڈوکیٹ شکیل احمد کے، جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے ایڈوکیٹ شکیل احمد کے علاوہ نارتھ سینٹرل ممبئی سے کوئی دوسرا مضبوط دعویدار نہیں تھا اس کے باوجود اس سیٹ پر کینڈیڈیٹ ڈیکلئیر کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اور ۲۲؍ مارچ کو مسٹر فیروز پالکھی والا کو ٹکٹ دے دیا گیا جن کے پاس نہ کوئی قابلِ ذکر سوشل بیک گراؤنڈ تھا اور نہ پولیٹیکل، جب کہ مسٹر پالکھی والا نے اتوار ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۴ء ؁ کو پارٹی آفس اندھیری میں بتایا کہ انہوں نے سیاست میں خود انٹری نہیں لی ہے بلکہ ۳؍ دن قبل پریتی مینن نے اُن کو فون کرکے الیکشن لڑنے کیلئے تیار کیا پھر نارتھ سینٹرل ممبئی کے ورکروں کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم آپ لوگ جس طرح کہیں گے ہم الیکشن لڑینگے (اُس وقت اُن کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس لوک سبھا میں کتنی ودھان سبھا آتی ہے اور اُس میں ایم.ایل.اے کون کون ہے) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پریتی مینن نے شکیل احمد کو ہٹانے کیلئے یہ گندہ اور پارٹی اُصولوں کے خلاف کھیل کھیلاجبکہ نارتھ سینٹرل ورکنگ کمیٹی مسلم کینڈیڈیٹ کی ڈیمانڈ کررہی تھی اور کئی بار آفس میں وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ اس سیٹ پر مسلم کینڈیڈیٹ کو ہی اُتارا جائیگا لیکن اچانک اس میں تبدیلی کردی گئی اس کے باوجود وہاں کے ورکروں نے جی جان لگا دی اور ۳۵۰۰۰؍ کے قریب اُن کو ووٹ بھی ملیں۔ ایسا ہی کچھ رائے گڑھ کی سیٹ پر ہوا جہاں دانش لانبے کو ٹکٹ نہ دے کر پیراشوٹ سے کینڈیڈٹ اُتارا گیا جس سے پارٹی ورکروں میں مایوسی محسوس کی گئی اس کا سبب بھی پریتی مینن کو ہی بتایا جاتا ہے۔ ایڈمینسٹریشن کے نام پر آفس میں ڈکٹیڑشپ کا احساس ہوتا ہے اور یہ سب صرف مینگ گاندھی اور انجلی دمانیہ کے ممبر آف پارلیمنٹ بننے کی خواہش کے سبب ہوا، اگر یہ دونوں چاہتے تو الیکشن میں پارٹی بہت اچھا کرسکتی تھی۔ 
آپ نے دہلی میں جو کچھ کیا اس کے بعد لوگوں میں گلے شکوے تھے۔ آپ کو چاہئے تھا کہ پہلے آپ دہلی پر فوکس کرتے اور دہلی کو پوری طرح اپنے ساتھ کرتے پھر اُس کے بعد دیکھتے کہ ہندوستان بھر میں آپ ہی آپ ہیں۔ 
مجھے ایسا لگتا ہے اروند بھائی آپ کو شاید آپ کے ساتھیوں سے وہ صحیح مشورے اورہمدردی نہیں مل رہی جس کے آپ مستحق ہیں بلکہ کہیں نہ کہیں آپ کے قد کو آپ کے ساتھی زیادہ بڑھنے نہیں دینا چاہتے۔ اور جیسا کہ عام خیال ہے کہ آپ کی پارٹی میں RSS کی ایک پوری لابی گھس چکی ہے جو عام آدمی کو آپ سے دور کرنے کاکام کررہی ہے۔ ہم لوگ سمجھتے تھے کہ اب دن ضرور نکلے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو پرشانت بھوشن،کمار وشواس، پروفیسر آنند کمار، میدھا پاٹکر، الیاس آعظمی، عرفان اللہ صاحب اور مینگ گاندھی جیسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے، آپ اپنے فیصلوں میں مخلص لوگوں سے مشورہ کریں اور پرانے ساتھیوں کو نظر انداز نہ کریں۔ آپ کے آس پاس رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان سب کا وجود بھی اروند کجریوال سے وابستہ ہے، یہ احساس عام ہوتا جارہا ہے کہ یہ صرف کہنے کی بات ہے عام آدمی پارٹی ایک آندولن ہے اور سوراج کو لانے کی پابند ہے اگر ایسا ہوتا تو سینئر لیڈر پارٹی نہ چھوڑتے دہلی میں اشوتوش کو شاذیہ علمی اور پالکھی والا کو ایڈوکیٹ شکیل احمد پر ترجیح نہ دی جاتی۔ 
آپ کے ساتھ مخلص لوگوں کی کمی ہے اس کا ثبوت آپ کا بنارس سے اور کمار وشواس کا میٹھی سے الیکشن لڑنا ہے۔ دراصل آپ کے ساتھیوں نے آپ کو اور کمار کو سیاسی خودکشی کرنے پر مجبور کیا اگر ایسا نہیں تو پھرسنجے سنگھ نے سلطان پور الیکشن کیوں نہیں لڑا وہاں پرچار کیوں نہیں کیا یا عام آدمی پارٹی کا کوئی مضبوط امیدوار کیوں نہیں کھڑا کیا۔ مسلمانوں کو بھی اس الیکشن میں پارٹی کی طرف سے صرف سمجھانے اور پھسلانے کا کام کیا گیا اُن کو نہ ہی پارٹی میں عزت دی گئی اور نہ ہی کوئی اہم مقام دیا گیا اس کے باوجود اس الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں نے بھرپور ووٹ اور سپورٹ دیا، بنارس اس بات کا گواہ ہے۔ 
ایک اور اہم بات ! لوک سبھا الیکشن کیلئے جو طریقہ کار تھا (جس میں کئی سو لوگوں کی دستخط اور اُن کے نام و نمبر دیئے جانے سے) اس کو پوری طرح اپنایا نہیں گیا۔ پیراشوٹ سے بھی کنڈیڈیٹ اُتارے گئے جس نے سوراج کا خواب دیکھنے اور اس کے لئے محنت کرنے والے ورکروں کو مایوس کیا لیکن صرف اروند بھائی آپ کی سچائی، ایمانداری او رقربانی کو دیکھتے ہوئے کڑوے گھونٹ پی لئے گئے۔ ہمیں اُمید ہے پارٹی کے اندر بھی اور پارٹی کے باہر بھی سوراج نافذ کیا جائیگا۔ 
خدا آپ کو سلامت رکھے اور ملک و قوم کے لئے مفید بنائے۔
سید عبدالرحمن ملی (ممبئی)

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے