اچھے تو کیا آئے برے بلکہ زیادہ برے دن آگئے

حفیظ نعمانی

وزیراعظم کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بڑے درد کے ساتھ فرمایا تھا کہ۔ اس دیش میں ہو کیا رہا ہے؟ ان کی فکر بھیڑ کی حکمرانی اور دو دو کوڑی کے آدمی کے ہاتھ میں قانون دیکھنے کے بعد کی تھی۔ عمر میں وزیراعظم ہم سے کافی چھوٹے ہیں۔ انہوں نے وہ نہیں دیکھا جو ہم نے دیکھا ہے کہ انگریز جب ہندوستان کی حکومت ملک والوں کو دے کر گئے ہیں تو حالت یہ تھی کہ وزیر خزانہ جس تجوری کو دیکھتے تھے وہ خالی تھی یا اس میں ردّی کاغذ بھرے تھے۔ انگریزوں کے زمانہ میں ضرورت کی ہر چیز یورپ سے آتی تھی جو اُن کے جاتے ہی بند ہوگئی انتہا یہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں کو امریکہ سے خیرات میں آیا ہوا سونف کی برابر سائز کا سرخ گیہوں برسوں کھانا پڑا۔
ہم چھوٹے تھے اس لئے یہ نہیں بتاسکتے کہ ہندو کن چیزوں کے لئے پریشان تھے لیکن مسلمان چار روپئے کلو (جو اس زمانہ میں سیر کہا جاتا تھا) بکرے کا گوشت بھی خریدنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئے تھے۔ ہماری ماں بہت بڑے زمیندار کی اکلوتی بیٹی تھیں انہوں نے لال گیہوں کھانے سے انکار کردیا اور 150 کلومیٹر دور اپنے باپ کے گھر سے گیہوں منگوایا۔ اور ہمارے نانا جب بریلی آتے تھے ایک بوری گیہوں ساتھ لاتے تھے۔
مقصد یہ ہے کہ وہ جو 2014 ء میں نریندر مودی نام کے لیڈر کو رسمیں گایا کرتے تھے۔ ’’اچھے دن آئیں گے۔‘‘ وہ تو کیا آتے اتنے برے دن یاد آرہے ہیں جو انگریزوں کے جانے کے بعد دیکھے تھے۔ ہم نے جی ایس ٹی کے بعد لکھا تھا کہ ہماری دوا کا خرچ 300 روپئے مہینہ بڑھ گیا 17 جولائی 2018 ء کو پھر ایک مہینہ کی دوا منگوانے کے لئے شبانہ کو بھیجا تو کچھ دیر کے بعد اس کی آواز آئی کہ دادا ابو روپئے کم پڑگئے۔ ہم نے معلوم کیا کہ کیا گرگئے؟ اس نے کہا نہیں 1530 کے بجائے 2535 مانگ رہے ہیں ہم نے معلوم کیا کہ کوئی نئی دکان ہے یا مالک بدل گئے جو ایک مہینہ میں ایک ہزار بڑھ گئے۔ اس نے کہا وہ پہچانتے ہیں بس کہہ رہے ہیں کہ قیمت بڑھ گئی ہم نے کہا واپس آجاؤ۔
اپنے بیٹے کو نسخہ دیا اور پوری بات بتائی انہوں نے کہا کہ ہم لائیں گے۔ اور سنایا کہ کل رات شہر کے تمام بڑے پریس والے اور کاغذ والے ایک تقریب میں تھے سب اس پر رو رہے تھے کہ جس کا جتنا جی چاہتا ہے قیمت بڑھا دیتا ہے۔ کاغذ والوں نے کہا کہ خریداری بند ہے اس کی وجہ سے کاغذ کے مل بند پڑے ہیں اور قیمت 3 روپئے کلو بڑھ گئی۔ اس کا کوئی جواب نہیں کہ کیوں بڑھ گئی؟ دس مہینے کے بعد الیکشن ہوں گے اس وقت تک کس چیز کی کتنی قیمت بڑھے گی کچھ خبر نہیں۔ تو کیا ایک وزیراعظم کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس اعلان کا الٹا اثر کیوں ہوا کہ جی ایس ٹی سے ہر چیز سستی ہوگی اور یہ کیا ہورہا ہے کہ جس کا جب جی چاہتا ہے قیمت بڑھا دیتا ہے؟ یہ تو اس وقت ہوتا ہے جب وزیراعظم اور حکومت پوری طرح بے اثر ہوجاتی ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایک طرح کا تعلق تو وہ ہوتا ہے جو مسز اندرا گاندھی اور صوبوں کے درمیان تھا کہ وہ کسی وزیراعلیٰ کو صوبہ میں تین سال سے زیادہ وزیراعلیٰ نہیں رہنے دیتی تھیں۔ خوبصورتی سے اسے مرکز میں بلا لیتی تھیں یہ صرف اس لئے کہ وہ لیڈر نہ بن سکے دوسرا طریقہ وہ ہے جو اُن کے بعد رہا کہ وزیراعظم وزیراعلیٰ کی طرف مدد کے لئے دیکھتے تھے۔ اگر اندرا گاندھی کے زمانہ میں کسی صوبہ میں قانون ہاتھ میں کوئی لیتا یا بھیڑ کسی کو موت کی سزا دیتی تو وہاں کا وزیراعلیٰ اسی دن بدل دیا جاتا۔ اب وزیراعظم کے سامنے الیکشن ہے اور ہر صوبہ میں جو باغی ہیں وہ کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں اور جو وفادار ہیں وہ وزیراعلیٰ کے وفادار ہیں۔ اس لئے وزیراعظم اور وزیرداخلہ صرف پیار بھرے خطوط لکھ سکتے ہیں وزیراعلیٰ کو مرکز میں بلاکر ماتحت نہیں بنا سکتے۔
اس ملک میں مسلمان 20 کروڑ ہیں اگر وزیراعظم اور وزیر داخلہ بھیڑ سے ایسے ہی ڈرتے رہے جیسے تین برس سے ڈر رہے ہیں تو نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ جن مسلمانوں کو کانگریس سے نفرت ہے وہ بھی اس کی طرف دیکھنے لگیں گے۔ وزیراعظم یوں بھی بے وجہ راہل گاندھی کو چھیڑ چھیڑکر ان کو مسلمانوں کے حق میں بولنے پر مجبور کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے وہ مشیر جو اُن کے جواب تیار کرتے ہیں وہ ان کے دوست نہیں ہیں۔ حیرت ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ ملک کے ہر شہر میں ہزاروں ہزار اور لاکھوں کی تعداد والے مسلم خواتین کے جلوس نکلے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ بل کے خلاف ہیں اور شریعت کو جیسا تیسا رکھنا چاہتی ہیں۔
اب اگر مودی جی یہ سوال کرتے ہیں کہ راہل صرف مسلمان مردوں کو ساتھ لے رہے ہیں یا عورتوں کو بھی؟ تو ان کا اشارہ آزاد مزاج بے لگام بے پردہ اور بے دین ان چند سو عورتوں کی طرف ہے جو اُن کے رابطے میں ہیں اور جو ایسی ہی مسلمان ہیں جیسے کچھ اپنے کو مسلمان کہنے والے آر ایس ایس کے رابطہ میں آگئے ہیں ورنہ پانچ کروڑ مسلمان عورتیں ان کے خلاف ہیں۔
اگر مسلمانوں کے بارے میں وزیراعظم نے بے تعلقی کی پالیسی آر ایس ایس کے حکم سے اپنائی ہے تب ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ اور اگر خود اپنائی ہے تو انہوں نے بھیانک غلطی کی ہے۔ 2014 ء میں جتنا ہندو کانگریس سے ناراض تھے اس سے زیادہ مسلمان ناراض تھے اگر مودی جی بہار میں اور اترپردیش میں گائے، پاکستان، قبرستان، شمشان، رمضان اور دیوالی نہ کرتے اترپردیش میں سلاٹر ہاؤس جو ناجائز تھے ان کو گروا دیتے اور دوسرے بنوا دیتے اور طلاق ثلاثہ کے بارے میں جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہہ دیا کہ اسے ختم کیا جاتا ہے تو اس کے لئے قانون اور تین سال کی قید بامشقت میں عجلت نہ کرتے تو مسلمانوں کا ایک طبقہ سنجیدگی سے ان کے ساتھ ہوتا۔ کیا مودی جی انکار کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے گھر میں دو عورتیں ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ ہندو اور عیسائی طلاق دیتے ہیں یا بغیر طلاق کے چھوڑ دیتے ہیں۔ جہیز کے لئے جلانا مارنا اور چھوڑنا جتنا ہندوؤں میں ہے کہیں نہیں ہے۔ مودی جی اپنے گھر کو دیکھیں مسلمان تو دیکھ ہی رہے ہیں اور جو کررہے ہیں ان سے زیادہ کوئی نہیں کررہا۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
29؍جولائی(ادارہ فکروخبر)

«
»

پاکستان میں فوج کے تعاون سے عمران خاں کے اقتدار کی راہ ہموار

مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہی تو سیکولرزم ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے