دفعہ 135Aکے ذکر سے وادی کشمیر بھڑک اٹھی

باخبر کے قلم سے
رشید انصاری

سنگھ پریوار کو یوں تو دستورِ ہند سے ہی بڑی نفرت ہے اور دستورِ ہند میں کشمیر کے تعلق سے تمام دفعات (370 اور 135A) سے خصوصی بغض ہے کیونکہ ان دفعات کے ذریعہ ملک میں کشمیر اور کشمیریوں کے خصوصی اور منفرد موقف کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ وادی میں جب یہ افواہ پھیلائی گئی کہ دستور کی دفعہ 135A منسوخ کردی گئی ہے تو ساری وادی میں جیسے آگ سی لگ گئی معمول کے مطابق حریت پسندوں نے مظاہرے کئے وادی میں کاروبارِ زندگی معطل ہوگیا۔ پولیس اور فوج نے حسب معمول مظاہرین اور پتھر پھینکنے والوں پر بے تہاشہ لاٹھی چارج ، اشک آور گیس کا استعمال اور کئی جگہ عوام پر پیلٹ گن فائرنگ بھی کی گئی۔اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان دفعات سے واقعی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو کشمیریوں کے غم و غصہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل تین خبریں جو بے حد اہم ہیں جن میں سے ایک کا راست تعلق ہم سے نہیں ہے لیکن ہماری حکومت کے لئے نشان عبرت ہے۔ پہلی تو خبر پاکستان سے ہے جہاں نیوز 24 ٹی وی چینل کے میزبان سندیپ چودھری نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں 17 روپے فی لیٹر کمی کردی! ’’اچھے دن ‘‘لانے والی مودی حکومت نے شائد اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں مجموعی طور پر 17 روپے کی بھی کمی نہیں کی ہوگی۔ دوسری خبر کے مطابق ہندوستانی افواج کے ’’نامور ‘‘ میجر گوگوئی کے خلاف ایک لڑکی کے ساتھ ڈیوٹی کے اوقات کے دوران ہوٹل میں داخل ہونے اور ناشائستہ حرکات کے جرم میں ان کا کورٹ مارشل ہوگا۔ میجر صاحب کی ایک کشمیری شہری فاروق کو انسانی ڈھال بناکر پتھر بازوں سے بچانے کے اقدام پر حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں نے مذمت کی تھی لیکن ان کو سرکاری اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ تیسری خبریہ ہے کہ ممتاز قانونداں اور راجیہ سبھا کے رکن کے ٹی ایس تلسی نے ہندوستان کے دم توڑتے ہوئے نظام انصاف کے بارے میں کہا ہے کہ ہمارا نظام انصاف ’’آئی سی یو‘‘ میں ہے۔ مذکورہ بالا خبروں کا حوالہ کیوں دیا گیا اس کی وضاحت کی شائد ہی کوئی ضرورت محسوس کرے۔
اب اصل موضوع کی طرف چلیں دفعات 370 اور 135Aکی منسوخی کا مطالبہ کرنے والوں کو اس بات کا شائد ہی کوئی پتہ ہو کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ تو بہرحال ہے لیکن یہ ملک کی تمام دوسری ریاستوں سے جموں و کشمیر کا اٹوٹ انگ ہونا منفرد و مختلف ہے۔ 1947ء میں کشمیر کے مہاراجہ نے بے شک ہندوستان میں شرکت کی تھی لیکن ہندوستان میں شرکت چند شرائط کے تحت تھی ۔ ان شرائط میں وہی سب کچھ شامل تھا جو کہ دفعہ 370 اور 135Aمیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کی بھاری مسلم اکثریت کی وجہ سے مہاراجہ کشمیر نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کو پاکستان میں شریک کریں لیکن شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کو ترغیب دی کہ وہ ہندوستان میں شرکت کریں۔ ان کی وجوہات میں ایک اہم وجہ تو یہ تھی کہ شیخ عبداللہ کے تعلقات محمد علی جناح سے بھی اچھے نہیں رہے اور شیخ صاحب کو جناح کی ماتحتی منظور نہ تھی۔ دوسری وجہ پنڈت جواہر لال نہرو سے ان کی گہری دوستی تھی۔ تاہم شیخ صاحب نے کشمیریوں کے مفادات کی حفاظت کی خاطر جموں و کشمیر کی شرکت کو مشروط رکھا تھا اور جبکہ ان دفعات کو منسوخ کرنے کی بات کی جائے تو اس سے وادی میں آزادی کا مطالبہ تقویت پائے گا اور ساری وادی آگ اور خون میں نہا بھی سکتی ہے۔ دستوری اور قانونی لحاظ سے ان دفعات کو منسوخ کرنے کے لئے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہوگا۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے لئے اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بھی بلانا ہوگا جو ناممکن ہے۔ دفعات 370اور 135A ایسے دفعات ہے جو کشمیریوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کو مرعات عطاء کرتے ہیں اور خصوصی حقوق عطاء کرتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ غیر کشمیری جموں و کشمیر میں جائیداد نہ رکھ سکتا ہے اور نہ خرید سکتا ہے۔اس سے ان ہندو سرمایہ داروں کو بہت اذیت ہوتی ہے جو وادی کشمیر کا سب کچھ خرید کر کشمیریوں کا وہی حال کرنا چاہتے ہیں جو فلسطین میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا کیا ہے۔ آج جو کشمیر کے مالک ہیں کل ان کو بھکاری بنانا اصل منصوبہ ہے۔ دفعہ 370 اور 135Aکی منسوخی کا مطالبہ اسی مذموم اور شیطانی منصوبہ کو پورا کرنے کا بہانہ ہے۔
اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ 1953ء تک جموں و کشمیر میں پنڈت جواہر لال نہرو کے حکم سے شیخ عبداللہ کی غیر آئینی اور ناجائز طور پر معذول کرکے گرفتار نہیں کیا۔ کشمیر کو اپنی دستور ساز اسمبلی ، اپنا پرچم، وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم اور گورنر کو صدر ریاست کہلائے جانے کی خصوصی مراعات ہیں۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری سے پنڈت نہرو نے کشمیریوں کو آزادی کی تحریک چلانے کی ترغیب دی۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس احمقانہ منصوبہ میں مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی (جنہوں نے مسلمانوں کی بھلائی کو ہمیشہ نظر انداز کیا) کے مشوروں کا بھی اہم کردار رہا ہے اگر نہرو یہ ہمالیائی غلطی نہ کرتے تو شائد 1953ء سے آج تک کشمیر میں آگ اور خون کا بھیانک کھیل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔

«
»

ان تہی دستوں کے ہاتھوں میں نہ چادر ہے نہ خاک

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجابِ صنفِ نازک ہے وبال؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے