شام کی خانہ جنگی اور پیوٹن کی تجاویز

پوری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کی سب سے بڑی مجبوری اسرائیل کا وجودہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرائے بغیر کوئی مائی کا لال بھی امریکہ کی صدارت کے جلیل القدر عہدے تک پہنچ سکتا ہے نہ امریکہ پر اپنی حکومت کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اسرائیل کی حکومت عراق، لیبیا، مرسی برینڈ مصری حکومت حماس اور حزب اللہ کے فلسطینی دھڑوں، شام اور ایران کو اپنی قومی سلامتی کی راہ میں بکھرے ہوئے ایسے کانٹے سمجھتا ہے جن کو ہر صورت میں راستے سے ہٹانا ہی نہیں بلکہ جلانا بھی ضروری ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عراق کے دارالحکومت بغداد پر ماضی میں اسرائیل نے خود بھی سرجیکل سٹرائیک کی تھی، اس کے بعد تباہی کے بڑے ہتھیاروں کی جھوٹی خبریں گھڑ کر امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جان کیری نے اپنی صدارتی مہم میں بش کے عراق پر حملے کو بے سود کہا تھا اور اب اگلے دن صدر اوباما نے روس جاتے ہوئے سویڈن میں کہا کہ عراق کی جنگ کے وہ بھی مخالف تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ جیسی سپر طاقت کے قائدین بھی سٹرٹیجک بلنڈر کر سکتے ہیں جس سے انکی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن سنگدل لیڈر یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں، افغانستان اور عراق کی بیواں، یتیم بچوں اور لاکھوں اپاہج اور معذوری کا امریکہ کی طرف سے کی ہوئی ناانصافیوں کا ازالہ کیسے ہو گا؟ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ لیبیا کے صدر کرنل قذاقی کو قتل کر کے اس کی لاش کو کیسے مسخ کیا گیا۔ کیا بین الاقوامی قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں؟ پھر مصر کے جمہوری صدر مرسی نے جب اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کو توڑنے کی بات کی تو انجام کیا تھا۔ امریکی من پسند فوجی آمر نے تقریبا 5000 نہتے مصری مسلمانوں کو روزے کی حالت میں بھون کر رکھ دیا، تقریبا 10 ہزار لوگ زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے ہیں، امریکہ اور یو این او کیوں خاموش رہے۔ ادھر فلسطین کی قیادت اور عوام غزہ کی پٹی میں قید ہیں، پانی اور خوراک بھی صرف زندگی قائم رکھنے کیلئے مناسب مقدار میں اندر لے جانے کی اجازت ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے پیچھے بھی مغربی طاقتیں ہیں۔ جن لوگوں نے مصر میں جمہوریت اورانسانی حقوق کا گل گھونٹ کر ڈکٹیٹر شپ قائم کی وہی اب شام میں ڈکٹیٹر شپ کو ختم کر کے جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی کیلئے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ مصر میں پانچ ہزار لوگوں کے قتل کی پروا نہیں لیکن شام میں 1400 لوگوں کے گیس کی وجہ سے ہلاک ہو جانے پر مغرب اور امریکہ کا اتنا دل دکھ گیا کہ ان کے منہ کا نوالہ حلق سے نہیں گزر رہا ہے اور وہ انسانیت کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کے ثبوت کے بغیر فورا بشار الاسد کو سبق سکھانا چاہتے ہیں ۔اس کے بعد ایران کی باری آئے گی۔ اس میں شک نہیں کہ صدام حسین، بشار الاسد، کرنل قذافی جیسے آمروں کی ظالمانہ پالیسیوں سے مسلم بلاک کو نقصان ہوا لیکن کیا یہ بات قابل فہم ہے کہ شہنشاہ ایران، فلپائن کے صدر مارکوس اور مصر کے صدر حسنی مبارک کو کئی عشروں تک پالنے والی قوتیں صدام، قدافی اور بشار کے خون کی اس لئے پیاسی ہیں کہ وہ مشرق وسطی کے معصوم مسلمانوں کے حقوق کو بحال کروانا چاہتی ہیں؟ اس کے علاوہ شام پر امریکی حملے کی وجہ معاشی بھی ہے۔ چونکہ روس اور ایران کا تیل اور گیس عراق اور شام سے گزر کر بحرِ روم تک آ سکتا ہے جس سے اس کی یورپ کو ترسیل ہو سکتی ہے۔ امریکہ ایرانی گیس پاکستان تک لانے پر بھی راضی نہیں۔ تیسری امریکی یا مغربی حملے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کی موجودہ معیشت کو وار اکانومی کہا جاتا ہے یعنی جنگوں کے بغیر امریکہ کی دفاعی صنعت بیٹھ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کو دنیا کا انرجی ہارٹ لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ مزید ایران جیسے دوسرے باغی ممالک کو ڈرانے کیلئے بھی شام یر یلغار ضروری ہے۔ شام میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کی ایک بڑی وجہ اس گریٹ گیم کا حصہ بھی ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے بہت ہی اہم مسلمان ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکرسے جو نقصان مسلم بلاک کا ہو سکتا ہے وہ جنگوں سے ممکن نہیں۔
شام پر امریکی حملے سے پوری دنیا اور خصوصا مسلمان ممالک میں امریکہ کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچے گا اگر یہ جنگ افغان جنگ کی طرح لمبی ہو گئی تو امریکی معیشت پر اسکے گہرے اثرات نمودار ہونگے۔ روس اور چین کے ساتھ امریکی مخاصمت اور بڑھ جائیگی اور دنیا اس ایک غلط قدم کی وجہ سے تیسری جنگ عظیم کی لپیٹ میں بھی آ سکتی ہے۔ امریکہ کی حکومت امریکی اور یورپی عوام میں مزید غیر مقبول ہو سکتی ہے۔ ہوائی حملوں سے یہ ضروری نہیں کہ بشار الاسد کی حکومت گر جائے۔ امریکی حملے کے بعد اگر عسکری نقصانات کی تلافی روس، چین اور ایران نے کر دی تو معاملہ حل نہیں ہو سکے گا۔ دراصل شام پر حملہ کرنے کا امریکہ کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ چونکہ اخباری اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ویت نام میں خود انسان کش زہریلی گیس کو استعمال کیا تھا۔ عراق کے شہر فلوجہ میں سفید فاسفورس کے بم استعمال ہوئے جو انسانوں کے اجسام کو راکھ بنا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں پر ایٹم بم چلا کر ان کو راکھ کے ڈھیر کیا تو اب امریکہ کے پاس موجودہ برہمی کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ لیکن قارئین اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اگر ماضی میں کسی بھی ملک نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی تو اس کو جواز بنا کر دوسرے ممالک بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہوا وہ سخت قابل مذمت ہے جس کی تحقیق ضروری ہے اور مجرمان کو بین الاقوامی عدالتوں کے کٹہروں تک لے جایا جائے لیکن سپر طاقتیں خود ہی جج، جیوری اور ایگزیکٹو نہ بنیں۔
آخر میں یہ دیکھتے ہیں کہ ایسی صورت میں امریکہ کو کیا کرنا چاہئے اس کیلئے بہترین رہنمائی امریکی جنرل کولن پاول کی ڈاکٹرین کے مندرجہ ذیل نقاط سے حاصل کی جا سکتی ہے -1 امریکہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ کا اعلان صرف ایسی صورت میں کرے جس سے امریکہ کے قومی مفاد کو خطرہ ہو۔ شام میں پچھلے 40 سالوں سے حافظ الاسد خاندان کی حکومت ہے جس سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں -2 یہ دیکھا جائے کہ مقاصد کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیں، بمباری سے ویت نام، عراق اور افغانستان میں بھی مقاصد حاصل نہیں ہو سکے اور شام میں بھی فیصلہ کن جنگ نہیں لڑی جا سکتی -3 جنگی اخراجات کا خطرات کا اندازہ پہلے سے لگا لیا جائے -4 جنگ سے پہلے سیاسی اور سفارتی اقدام اٹھا کر مسئلے کو حل کر لیا جائے، شام کی صورت میں ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔ -5 EXIT سٹرٹیجی کا پہلے سے سوچا جائے ورنہ کمبل پکڑ لے گا -6 یہ دیکھا جائے کہ لمبی جنگ کی صورت میں بھیانک پہلو کیا ہونگے -7 کیا امریکی لوگ جنگ کے حق میں ہیں اس کا جواب نفی میں ہے -8 کیا بین الاقوامی برادری جنگ کے حق میں ہے اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔
قارئین شام پر امریکی حملہ نہ صرف بین الاقوامی امن بلکہ خود امریکی کے مفاد میں نہیں۔ امریکی کانگرس یہ اجازت دینے کیلئے تیار نہیں۔ انگریز پارلیمنٹ نے تو پہلے ہی دانشمندانہ فیصلہ کر دیا۔ امریکی صدر اوباما کو روسی صدر پیوٹن کی یہ تجویز پسند آ گئی ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی تحویل میں دے دئیے جائیں بشرطیکہ امریکہ طاقت کے استعمال کی دھمکیاں واپس لے۔ جنگ کی باتیں کرنے والا اوباما اب سیاسی حل کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ 

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے