اسی لئے وہ مذہبی اصول پر ان تمام واہی تباہی خیالات کو ترجیح دیتااوران ہی پر عمل کرتاہے، جو کہ اس کا ناطہ صرف اس کے مالک ہی نہیں بلکہ انسانیت سے بھی توڑدیتے ہیں، جیساکہ ہم اپنے سماج میں رات دن، اپنے سفر ،حضر۔مقامات، عام پبلک پیلیس،ڈاکخانہ، اسپتال۔ راستوں، ریلوے اسٹیشنوں بس اسٹاپ، اور ہوائی اڈوں پر بھی دیکھتے ہیں کہ ہرایک اپنی باری سے پہلے دوسروں کو بیوقوف بناتے یا بدّھوسمجھتے ہوئے اس کو چقمہ دے کراپنی بالادستی قائم رکھنے یااپنی عقلمندی کارعب جماتے ہوئے دوسرے کانمبر کاٹ کر بڑے فخرسے سینہ تانتے ہوئے آگے بڑھ جاتاہے،اس طرح وہ اپنے مفاد کی خاطر دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈال کر سماج میں ایک نیا ظلم کھڑاکردیتانیز اس کے فاتحانہ انداز سے جہاں دوسرے کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے وہیں اس کی اس بدعملی وبداخلاقی کو چند ناعاقبت اندیش یا کم فہم لوگ چالاکی سمجھ کر وہ بھی اس کی ڈگرپر چلنے کاارادہ بنالیتے ہیں، گویاکہ اس نے اپنی اس غلط چال سے دوسروں کوبھی گمراہ اور کردیا جو کہ دونوں ہی چیزیں غلط ہیں، یعنی پہلے تو اس نے دوسرے کا نمبر کا ٹا، جو کہ اس سے پہلے آنے والے کاحق تھا،مسجداور نماز کے تعلق سے فرمایاہادی عالم ﷺ نے المناخ لمن سبق(جگہ اس کی ہے جو کہ پہلے آیا)،دوسرے یہ کہ اس نے بغیر ایک شخص کی رضامندی کے اس کے حق اورملکیت کو غصب کرلیا جس پر سخت نکیر آئی ہے ، ارشاد نبیﷺ ہے لایحل مال امرأِِ الابطیب نفسہٖ(کسی کا مال اس کی رضامندی کے بغیر دوسرے آدمی کے لئے حلال نہیں، )ایسے موقع پر اگرانسان کو جلدی ہی ہو تو وہ اپنے آگے ولاے آدمی کو اپنی مجبوری اورضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا نمبر مانگ کر تب آگے بڑھے، حالانکہ اس میں بھی ایک خدشہ یہ باقی ہے کہ جس سے آپنے درخواست(Request) کی ہے وہ تو رضامند ہوجائے مگر جو ا سکے پیچھے والا شخص نمبر(Que)میں لگاہے وہ اس پر راضی نہ ہوتواور مشکل میں جان آسکتی ہے، اس لئے بہتر تویہی ہے کہ اپنے حلم ،ضبط اور صبرکا مظاہرہ کرکے اپنے کام سے فارغ ہواجائے، دراصل اس طرح کی خودغرضی اورمطلب پرستی سوچ ہم لوگوں کے اندریہود کی ریشہ دوانیوں اورا ن کے اعمال کی نقل کا نتیجہ ہے، جس طرح کہ ہم دوررسالت سے لیکر آج تک دیکھتے ہیں کہ یہودی لوگ شب و روزصرف اپنا کام بنانے یعنی دوسرے کی ہانڈی اتارکر اپنی ہانڈی چڑھانے ہی کے فراق میں رہتے ہیں، جس کی تازہ مثال تل ابیب حکومت کی طرف سے غزہ کے فلسطینیوں کی زندگی سے کھلواڑ ہے ،کہ ان کا مقصد مسجد اقصیٰ کے دروازے مسلمانوں پر بند کرکے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیرا ن کاہدف ہے تو اس ناجائز مقصد کے لئے چاہے ان کو کتنے ہی خون بہانے پڑیں یا پھر پوری انسانیت کو تباہی کے دہانے اتارنے پڑے ان کو اس سے کوئی گریز ہے اور نہ پرہیز،کہ دنیا کے چیخنے اور چلّانے کے باوجود صیہونیوں کے کان پر کوئی جوں رینگتی دکھائی نہیں دے رہی، حالانکہ اس بربادی میں اب تک لاکھوں فلسطینی بوڑھے، جوان اورمعصوم بچوں کی بلی یہ ظالم لے چکے ہیں، چونکہ ہمارے اندر خود غرضی کاعنصربے انتہا داخل ہوچکاہے اسی لئے ہم کواپنی اجتماعی وانفرادی زندگی میں یہ بڑے بڑے اورتباہ کن عیب بھی حقیر اور کمترین دکھائی دیتے ہیں، چونکہ بے رحمی، ظلم وبربریت، بے انصافی، نامساوات ،وناہمواری کے جراثیم ہم کو اپنے مقصد میں کامیابی کازینہ نظرآتے ہیں ، اسی لئے انسانیت کا زوال ، محبت کا فقدان،خودغرضی کا دوردورہ،مطلب پرستی جوکہانسانیت کیلئے نامرادی وناکامی اورمحرومی کے نشانات تھے ہم کو اپنی زندگی کے خوشنمامناظر محسوس ہوتے ہیں، جس کے سبب انسانیت آج مکمل تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑی نظرآتی ہے ، غورکیجئے اسی دنیامیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کامقصد حیات دوسروں کے لئے جینااورمرنا ہوتاہے ، جس کی مثال میں، میںآ پ کو دوچارہزار برس پرانا،گھسا،پٹا ،فرسودہ ، کہنہ واقعہ یا چودہ سوسال پرانی حدیث نہیں اور نہ ہی کسی نبی، ولی پیر،پیغمبرجوگی سنیاسی ، مہاتما، سادھو، سنت،یاسیاسی وخود غرض لیڈر کانام بتاناچاہتاہوں، بلکہ اسی ہندوستان کے تناظر میں ایک ایسی بہادر اور دوسروں کے لئے جینے ،مرنے کی قسم کھانے والی خاتون کا نام لیناچاہوں گا،جوکہ عقیدۂ آخرت سے ناآشنا، مبدأومعاد کے ایقان وایمان سے خالی، صرف اسی دنیا کی موت وحیات کے عقیدہ کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینے والی خاتون جو کہ پورے 14سال کے لمبے چوڑے عرصے سے مکمل بھوک ہڑتال کی زندگی گذاررہی ہے ،جوکہ حکومت سے اس کی گدی یا کرسی کی طلبگار نہیں ،محض اپنی قوم کے حقوق ،اوربین الاقوامی اصول کے مطابق انسانی زندگی کے حقوق کا مطالبہ کرنیکی قصوروار ہے، غورکیجئے کہ سونیااور منموہن سنگھ بھی عوامی ووٹوں کی شہ پر پندرہ سال ٹھاٹ کرگئے اور اب سواتین ماہ (100)اچھے دنوں کا بھروسہ دلانے والی پارٹی کو بھی ضمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لئے ہوچکے ہیں مگر امپھال(آسام )میں ،آسام رائفل کے سپاہیوں کے ہاتھوں دس بے گناہوں کے خون کے لئے حق کی جنگلڑنے والی عوامی خدمتگار، سماجی کارکن اور شاعرہ ،ایروم شرمیلا،نومبر2000سے برابر بھوک ہڑتال پر ہیں جنھوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ جب تک ان بے گناہ معصوموں کا خون رنگ نہیں لائے گا یعنی ان کے خون کا بدلہ ان کے وارثین کو نہیں مل جاتانیز مجرموں کو کیفرکردارتک نہیں پہنچایاجاتاہے میں جان تو دے سکتی ہیں مگر اپنے قدم سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتی، مگرحکومت ہندہے کہ اس طرف سے گونگے کا گُڑ کھائے بیٹھی بہری اور اندھی بنی ہوئی ہے،غورکیجئے اگر یہی جزبہ قربانی ہم سب کے اندر پیداہوجائے تو نہ کوئی کسی کا نمبر کاٹ کرآگے بڑھے،اور نہ ہی کہیں ایک بیڑی پر قتل وخون کی نوبت آئے اور نہ ہی ہمارے ملک وسماج میں فرقہ ،ذات بندی اورٹولہ بندیوں کے لئے کہیں کسی کے خون سے ہولی کھیلنے کی نوبت پیش آئے۔ اور نہی کسی ماں بہن اوربیٹی کی عصمت وعزت پر حملے کی نوبت،اسی لئیہر ہندوستانی اور بھارتی کواپنے مذہب پرقائم رہتے ایک دوسرے کی عزت۔،احترام اورا س کے مان سماّن کی ضرورت ہے۔یہی ہرایک مذہب کی تعلیم اوردھرم کی گُہارہے۔اس لئے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہندوستانی سماج کے لئے ایروم شرمیلابھی ایک بہترین مثال ہیں۔
جواب دیں