ارمانوں کا خون

غبارِ خاطر؛از:ابو سعد چارولیہ

آج صبح ہی سے گھر پر ایک خاص قسم کی ہلچل تھی،کوئی بھاگ رہا ہے ،کوئی دوڑ رہا ہے ،کوئی بازار میں سامان لینے جارہا ہے ـ ابّا آج صبح سویرے بغیر نہائے دھوئے کام پہ نکل گئے ، بڑی بہن کی پھرتی قابلِ دید تھی ، وہ امّی کے ساتھ مل کر ٹفن تیار کررہی تھی ،چھوٹی بہن ادھر سے ادھر کودتی جارہی تھی کہ بھیّا آج مدرسے کو جائیں گے، اتنے میں چھوٹے بھائی کی آواز آئی: امّاں! میں بھیّا کے لیے ناشتہ اور ضروری چیزیں لے آتا ہوں ـ 
غرض یہ کہ گھر بھر میں عید کا سماں تھا اور ایک مابدولت تھے جو گال پُھلائے ،شکنیں چڑھائے ،زمانے بھر سے بیزار بیٹھے تھے ،دل میں تو بار بار آرہا تھا کہ آج تو جی کڑاکے کہہ ہی دیں: " مجھے مدرسہ وَدَرسہ نہیں جانا ،تم لوگ یہاں مزے کرتے ہو اور میں میلوں دور وہاں جھک ماری کرتا ہوں، بہت ہوگیا، اب کے میں کسی بھی حال میں مدرسہ نہیں جاؤں گا " دل ہی دل میں طرح طرح کے خیالات آتے اور جاتے رہے ،دماغ وسوسوں کا جال بُنتا اور پھر خود بہ خود ٹوٹ جاتا، قسمہا قسم کے ڈائیلاگز ذہن میں کُلبلاتے اور پھر بلّی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کا موقع آتا تو اپنی موت آپ مرجاتے ـ اسی سوچ بچار میں کوچ کا وقت ہوگیا اوپرے دل کے ساتھ دولقمے مارے اور اٹھ گیا، بے چاری امّی پکارتی رہی کہ بیٹا! سفر ہے کچھ تو کھالو ؛مگر یہاں گھر چھوڑنے کے غم کے ساتھ غصہ اِس پر بھی تھا کہ ابّا نے صرف دوہزار روپے کیوں دیے ؛لہذا اس غصے کا اظہار ضروری تھا، ابّا یہ سارا ماجرا دیکھ کر سمجھ گئے کہ اصل درد کہاں ہے !بغیر کھائے چپ چاپ اٹھے اور بیڈ روم سے اپنا کرتا اٹھالائے اور جیب میں جتنے پیسے تھے ریزگاری سمیت (تین سو روپے)سب نکال کر دے دیے ؛یہاں تک کہ آخر میں ایک روپیہ کا سکّہ نکل آیا وہ بھی دے دیا، خدا جانے !ذہن پر کس قسم کا بھوت سوار تھا کہ کچھ سوچے بِنا وہ ایک روپیہ بھی لے لیا، کن اَکھیوں سے دیکھاکہ گھر کے سبھی افراد کو میری یہ حرکت نہایت ناگوار گذری؛ مگر کسی نے کچھ کہا نہیں تو میں نے بھی اس خیال کو ایسے ہی جھٹک دیا جیسےبے وقت آئی ہوئی مکّھی اڑائی جاتی ہے
خیر! ابا تو ایک لقمہ بھی نہ کھاسکے تھے ،امّی نے بھی زبردستی دو لقمے ٹھونسے اور اٹھ گئیں، سب لوگ ہاتھ دھوکر مابدولت کو رخصت کرنے کے لیے تیار ہوگئے چھوٹے بھائی نے — جسے پچھلے مہینے فیس نہ بھرنے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا تھا — بیگ اٹھایا، امّی نے مسکراتے ہوئے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور ماتھا چوم کر بَلائیں لیں، ابّو نے سر پر ہاتھ پھیرا، کچھ نصیحتیں کیں، جس کا آخری جملہ یہ تھا:"بیٹا! محنت سے پڑھنا، وقت ضائع مت کرنا ،ہم بڑی مشقّتوں سے تمہیں پڑھا رہے ہیں" نہ جانے اس جملے میں کیا کسَک تھی کہ بے اختیار آنکھیں اوپر اٹھ گئیں اور دل کانپ کر رہ گیا ،ابّو کا چہرہ گو سپاٹ اور ہر قسم کے تأثرات سے خالی تھا؛ تاہم آنکھوں میں چھپا درد جھلک رہا تھا ؛بلکہ چھلکنے کو تھا، ہونٹوں پہ زخمی تبسّم تھا اور آنکھوں میں درد کے سائے لہراہے تھے ، امّی تو ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی رودی تھی، قبل اس کے کہ مجھ سنگ دل کی آنکھیں اپنا کام کرتیں دھیمی آواز سے سلام کرکے تیزی سے زینے اترگیا ـ 
آج پہلی مرتبہ چھوٹا بھائی خاموش تھا میں نے چھیڑا تو اسے بھی آج ہی اُبَلنا تھا ،کہنے لگا: بس بھیّا! کیا بتائیں! آپ کے جانے کے بعد گھر کی کیا حالت ہوتی ہے! آپ کے جاتے ہی چھوٹی بہن پھوٹ پھوٹ کر رودیتی ہے، امّی بیڈ روم میں جاکر بستر پر اوندھے منہ گر جاتی ہیں، بڑی بہن بالکنی میں کھڑے کپڑوں کے بجائے آنسو سُکھارہی ہوتی ہے، ،ابّو ان سب کو چھوڑ کر پتہ نہیں کیوں ہمیشہ باتھ روم میں چلے جاتے ہیں، تمہارے جانے کے بعد اکثر گھر میں آٹھ آٹھ دن تک صرف کھچڑی پکتی ہے جسے سب گھر والے اَچار یا چٹنی کے ساتھ ملاکر کھالیتے ہیں، سب سے برا حال گھر پر امّی کا ہوتا ہے ،بسااوقات تین تین دن تک کچھ کھاتی نہیں ہے، ایک چپ سی لگ جاتی ہے، پورا پورا ہفتہ گذر جاتا ہے اور ہم لوگ امّی کے منہ سے ایک جملہ سننے کو ترس جاتے ہیں ،رات کو چپکے چپکے میں دیکھتا ہوں، امّی کروٹیں بدلتی رہتی ہیں، 
تمہیں پتہ ہے ایک مرتبہ اچانک رات کو مری آنکھ کھلی ، کسی کے رونے کی آواز آرہی تھی ، دیکھا کہ امّی جان مصلّے پر بیٹھی دعا مانگ رہی ہیں، میں قریب ہی تھا ،ہچکیوں کے درمیان صرف اتنا سن پایا کہ اے اللہ! میرا معاذ….. 
صبح جب میں نے ابّو کو قصہ سنایا تو ابّو کہنے لگے: بیٹا! تمہاری امّی تو بیسیوں مرتبہ رات کو اچانک اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہوا ؟ توروتی ہوئی بڑی بے بسی سے کہتی ہے: بس! یونہی اچانک خیال آگیا کہ میرے معصوم بچے نے کھایا بھی ہوگا یا نہیں! اسے کوئی ستاتا تو نہ ہوگا! وہ اگر بیمار ہوگیا تو میرے لختِ جگر کو کون دیکھے گا" اسی قسم کے جملے کہہ کہہ کر خود بھی روتی اور مجھے بھی رلاتی ہے اور جس رات یہ قصہ پیش آتا ہے پھر وہ رات میری اور تمہاری امّی کی مصلّے پر گذر جاتی ہے "ـ 
چھوٹا بھائی اپنی رَو میں یہ سب سناتا جارہا تھا اور میں حیرت و تعجّب کے مارے بُت بنا اپنی جگہ کھڑا تھا چھوٹے بھائی نے کہا: بھیّا! جس دن ہم بہن بھائی رات کو کھاپی کر فارغ بیٹھتے ہیں تو سب سے زیادہ تمہاری باتیں کرتے ہیں اور امّی کھل کر تمہارے بچپن کے قصے سناتی ہیں اور ہر مرتبہ ابّو اخیر میں اٹھتے ہوئے یہ کہتے ہیں: "تم لوگ دیکھنا ایک دن میرا بیٹا بہت بڑا عالم بنے گا" ـ
مجھ پر یکے بعد دیگرے حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے جارہے تھے اور رفتہ رفتہ حیرت کی جگہ ندامت و شرمندگی لے رہی تھی ـ بلڈنگ کے نیچے کھڑے کھڑے ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ میرا جگری دوست خالد آدھمکا اور اپنے بے تکلّفانہ انداز میں کہنے لگا: "بس کیا یار! اتنی جلدی چل دیے، ابھی تو آئے تھے " میں مسکرا کے ٹال گیا تو اسے کچھ یاد آگیا ،کہنے لگا:یار! آج صبح غضب ہوگیا ،تمہارے ابّو صبح سویرے حاجی جنید کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے اور حاجی چلّا چلّا کر کہہ رہا تھا کہ :"صبح صبح بھکاری قرض مانگنے آجاتا ہے، حیثیت نہیں ہے تو اپنے بیٹے کو نوکری پہ لگا ،کیوں حرام کا مدرسے میں ڈال رکھا ہے اور اس سے پہلے والے سال بھی تو بچے کے بہانے قرض لے گیا تھا وہ تو ابھی تک نہیں دیے …اور پتہ نہیں حاجی کیا کیا بَکتا رہا ، اخیر میں کالر پکڑ کے اس نے ابّا کو ایک تھپّڑ مار دیا اور جیب سے دو ہزار کی نوٹ نکال کر یہ کہتے ہوئے منہ پر ماری کہ :لے بھکاری! آئندہ ہفتے کسی بھی حال میں مجھے سب پیسے واپس چاہیے " ابّو نیچے گری ہوئی نوٹ اٹھاکر سر جھکائے آگے بڑھ گئے ،صبح کا وقت تھا ،سنّاٹا تھا ،یہ منظر میرے سوا کسی نے نہیں دیکھا ،مجھ سے برداشت نہ ہوسکا ،میں نے لپک کر پوچھا: چچا جان! آپ تو محلّے کے شریف اور عزّت دار آدمی ہیں، آخر اس کمینے حرامی بُڈّھے سے اتنا دَبنے کی کیا ضرورت ہے !یہ سب ذلّتیں کیوں برداشت کررہے ہیں! کیا ہم دوست لوگ مل کر اس بڈّھے کو ٹھکانے لگادے؟! ابّاجی کی آنکھ میں آنسو آگئے ،کہنے لگے: نہیں جی! اگر میں دو ہزار لے کر نہیں گیا تو میرا بیٹا مدرسے میں نہیں جاپائے گا اور میں اس کو پڑھا کر جنّت کمانا چاہتا ہوں دائمی جنّت کے لیے عارضی ذلّت برداشت کررہا ہوں "ـ
یہ قصہ سن کر میرا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ،میری نظروں کے سامنے گھر سے نکلتے وقت پیسوں والا قصہ گھوم گیا ،میں اپنے آپ کی نظر میں ذلیل ہوگیا تھا ،چھوٹا بھائی مجھے دیکھ رہا تھا ؛مگر میں اس سے نظر ملانے کے قابل نہ تھا،مجھے زمین اپنے پیروں تلے کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی ،خالد تو یہ حادثہ سنا کر چلا گیا اور چھوٹا بھائی بیگ اٹھاکر چپ چاپ آگے کو چل دیا ،میں بوجھل قدموں کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہولیا ـ 
مسجد کے قریب ہی ناظرے کے بوڑھے استاد مل گئے ،انہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ سر پر ہاتھ پھیرا ،دعائیں دیں اور کہا کہ :"بیٹا! محنت سے پڑھنا ،بڑی مدت کے بعد اس بستی سے کوئی عالم بنے گا، تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، تم ہماری پونجی ہو ،اپنے آپ کو ضائع مت کردینا" میں انہیں کیا جواب دیتا کہ اب تک کی زندگی تو ضائع ہی کیے جارہا تھا ـ 
بستی سے نکلتے وقت اچانک کسی نے آواز دی ، رک جاؤ بیٹا! مڑ کر دیکھا تو بستی کے بوڑھے باباجی تھے ، بڑی مشکل سے چوراہے پہ بچھی چارپائی سے اٹھے ، لکڑی کے سہارے سہارے ٹیک لگاتے ہوئے آئے، قریب آکر محبت پاش نظروں سے دیکھا اور آبدیدہ ہوکرکہنے لگے:" تم مدرسہ جاتے ہو تو دل بڑا خوش ہوتا ہے ، بیٹا! ہم گنہگاروں کے لیے دعا کرنا ،اپنی زندگی میں تو کچھ نہ کرپائے اب تم جیسے بچوں کے سہارے جی رہے ہیں کہ جنت میں تم جاؤگے تو تمہارا دامن پکڑ کر پیچھے پیچھے ہولیں گے ،دیکھیو! اس دن اپنے گنہگار باباجی کو بھول مت جانا " بندہ سر جھکائے شرمندگی کے ساتھ ان کی گزارشات سنتا رہا اور اپنی حالت پر افسوس کرتا رہا ـ
اس کے بعد ہم آگے بڑھے، اسٹینشن پہنچے،ٹرین نکلنے کو تھی، میں جلدی سے لپک کر چڑھا ، بھائی نے باہر سے بیگ پھینکا اور ٹرین فرّاٹے بھرتی ہوئی تیزی سے دوڑنے لگی ، میں سامان وہیں دروازے پر چھوڑ کر کھڑا ہوگیا محبوب وطن کی گلیاں نگاہوں کے سامنے سے گذر رہی تھیں ، کبھی ابّو جی کا غمزدہ چہرہ سامنے آجاتا ، کبھی روتی ہوئی امّی یاد آجاتی ، کبھی چھوٹی بہن کا سراپا نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا، کبھی چھوٹا بھائی ہاتھ لہراتا نظر آتا، کبھی شفقت فرماتے ہوئے مکتب کے استاد جی دکھائی دیتے اور کبھی بابا جی کی لجاجت بھری درخواست جگر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ،پھر پتہ نہیں اچانک مجھے کیا ہوا کہ میں دروازے پہ کھڑے کھڑے پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا کہ شاید وباید ہی کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں گا ـ یہ احساسِ زیاں کے آنسو تھے جو اب تک کی ضائع شدہ زندگی پر بہہ رہے تھے، یہ اپنوں کے ارمانوں کا خون تھا جو آنسو کی شکل میں جاری تھا ـ
پیارے طالب علم بھائیو! بے شک مذکورہ بالا سطریں تخیلاتی ہیں ؛ لیکن اگر گھر سے نکلتے وقت عبرت کی آنکھیں کھلی رکھی جائیں ، اپنے گِرد و پیش پر نظر دوڑائی جائے تو یہ سارے مناظر کھلی آنکھوں دیکھے جاسکتے ہیں ، جب تم گھر سے نکلو تو ابّا کی زخمی مسکراہٹ کو غور سے دیکھا کرو، تمہیں ان میں کچھ اَن کہی کہانیاں نظر آئیں گی،کبھی غور کیا کہ امّی کے ہونٹ مسکراتے ہوئے کپکپا کیوں جاتے ہیں ! کبھی سوچا کہ بہن دروازے تک کیوں نہیں آتی ؛ اس لیے کہ کہیں اس کے آنسو دیکھ کر تمہارے حوصلے چھوٹ نہ جائے ،گھر کا ہر فرد لاکھ غموں کے باوجود خوشی خوشی تمہیں رخصت کرتا ہے ؛ صرف اس لیے کہ تمہاری ہمت نہ ٹوٹ جائے ؛ ورنہ کون بھائی بہن ہیں جو اپنے بھیّا کی جدائی پر نہ روئے !کون باپ ہے جو اپنے جگر کے ٹکڑے کی فرقت پر ہنس رہا ہو! اور دوستو! کونسی ماں ہے جو لب پر تبسّم سجائے اپنے پیارے بیٹے کی جدائی دیکھتی رہے بخدا! بخدا! بخدا! ان سب پر ہماری جدائی شاق ہے ،ابّو جی کو محلّے کے ذلیل آدمی سے گالیاں کھانے کا شوق نہیں چراتا ،وہ ہمارے لیے گالیاں سنتے ہیں، وہ صرف اور صرف ہمارے لیے پسینے میں ڈوب کر محنت کرتے ہیں ،مکتب کے استاد جی دوہزار کی تنخواہ پر برسوں سے ٹِکے ہوئے ہیں؛ صرف اس تمنّا میں کہ بستی کا کوئی بچہ میری نظروں کے سامنے عالم بن کر آجائے اور اس امانت کو سنبھال لیں ، باباجی سے پوری بستی ڈرتی ہے ؛ مگر وہ تمہارے سامنے صرف اس لیے جھکے ہوئے ہیں کہ ان کی جنّت کا سوال ہے !
دوستو! آؤ! گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ کسی کی جنّت کا سامان کرسکیں! کیا ہمارے پاس ایک سجدہ بھی ایسا ہے جس میں خدا کے سوا کسی کا خیال نہ آیا ہو! جو ماں ہمارے لیے بیسیوں مرتبہ اٹھ کر روتی ہے کیا ہم نے پورے سال میں کبھی ایک مرتبہ بھی اس پیاری امّاں کے لیے ہاتھ اٹھائے! ہم کیسے سنگ دل بیٹے ہیں! ماں کے نام پر تو ساری دنیا کا دل پگھل جاتا ہے مگر ہم اپنی خواہشوں میں ایسے مدہوش ہیں کہ ماں تک کی قربانیوں کا ہمیں احساس نہیں! کیا ایک موبائل کی اتنی وقعت ہے کہ اس کے پیچھے اتنے سارے لوگوں کی قربانیاں ضائع کردی جائیں! کیا ہماری بیہودہ گپ شپ اتنی قیمتی ہے کہ ہم کسی کے ارمانوں کا خون کردیں! کیا مدرسے کے عارضی دوستوں کی اتنی قدر ہے کہ ان کے لیے پڑھائی چھوڑ کر اپنوں کی تمناؤں کا جہاں اجاڑ کر رکھ دیں! 
کب تک بے مقصد زندگی جئیں گے ! کب تک مدرسے میں پڑے پڑے اپنی اور دوسروں کی زندگی ضائع کریں گے! 
یاد رکھو دوستو! آج اگر ہم کسی کے ارمان کا خون کرتے ہیں تو کل کو ہمارے عزیز بھی ہمارے ارمانوں کا خون کریں گے، آج اگر ہم کسی کی قربانیاں رائیگاں کیے بیٹھے ہیں تو کل کو ہماری قربانیاں بھی رائیگاں جائیں گی!
پیارے بھائیو! اُس ابّو کا واسطہ جو ہمارے لیے ذلّتیں جھیل گیا؛ اُس امّاں کا واسطہ جس کا کوئی پَل ہماری یاد کے بغیر نہیں گذرتا ؛مکتب کے اُس شفیق استاد کا واسطہ جن کی دعائیں ہمارے نام کے بغیر پوری نہیں ہوتیں اپنی زندگی پر غور کرو خدارا!وقتی لذّت کے لیے دائمی ذلّت کا سودا نہ کرو ـ 
دوستو! آؤ! آج میں اور آپ مل کر ارادہ کرتے ہیں کہ: اب کے مدرسے کی زندگی کچھ الگ زندگی ہوگی، اب کے شب و روز مقاصد کے ساتھ گذریں گے ،اب محفلوں میں اور لغویات میں وقت ضائع نہ ہوگا، اب کے اساتذہ کے احترام میں ذرّہ برابر کمی نہ ہوگی، اب کے ایسی محنت ہوگی کہ دوسروں کو ترس آجائے گا ،اِس مدرسے میں ہم اپنے اللہ کی محبت لینے کے لیے آئیں گے ،اب کے رات کو اٹھ کر روٹھے ہوئے پیارے اللہ سے معافی مانگیں گے، اب کے نافرمانی والی زندگی کے بجائے اطاعت والی زندگی گزاریں گے انشاء اللہ !کہو انشاء اللہ!!

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
28؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل

«
»

کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے