از: مفتی توصیف منصور پٹیل
ایدہ:مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
عرفہ(نویں ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا سنت ہے، اس روزہ کے ذریعہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، چنانچہ امام مسلمؒ نے حضرت ابو قتادہؓ سے ایک روایت نقل کی ہیکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
صیام یوم عرفۃ أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃالتی بعدہ(صحیح مسلم:۱۱۶۲، نیز دیکھئے: جامع الترمذی:۷۴۹،سنن ابن ماجہ:۱۷۳۰)
’’میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘
چنانچہ علامہ عمرانیؒ لکھتے ہیں:
’’یستحب لغیر الحاج صوم یوم عرفۃ‘‘(البیان:۳؍۵۴۷، نیز دیکھئے: روضۃالطالبین: ۲؍۵۵۲، الفقہ المنھجی:۱؍۳۵۵)
’’عرفہ کے دن کا روزہ یہ حاجی کے علاوہ کے لئے مستحب ہے‘‘
حدیث میں گناہ کی معافی سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، اگر کسی کے صغیرہ گناہ نہ ہوں تو کبیرہ گناہ میں تخفیف کی امید ہے، ورنہ اس کے درجات بلند ہوں گے، یا یہ کہ اس زمانہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، یااس سے مراد آئندہ کے لئے گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے یا اس کو اس زمانہ میں نیک کام کرنے کی توفیق دی جاتی ہے۔
چنانچہ شیخ عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ لکھتے ہیں:
’’المراد بالذنوب الصغائر وإن لم تکن الصغائریرجی تخفیف الکبائر، فان لم تکن رفعت الدرجات۔۔۔ وأما الکبائر فلایکفرھا إلا التوبۃ أو رحمۃ اللہ معناہ أن یحفظہ اللہ تعالیٰ من الذنوب فیھا وقیل یعطیہ من الرحمۃ والثواب قدراً‘‘
( تحفۃ الأحوذی:۳؍۳۷۷، نیز دیکھئے: معارف السنن:۵؍ ۴۳۰، شرح مسلم:۸؍۲۳۴ )
’’گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں،اگر اس کے ذمہ صغیرہ گناہ نہیں ہیں تو کبیرہ گناہوں میں تخفیف ہوتی ہے، اگر اس کے ذمہ گناہ نہیں ہیں تو اس کے درجات کو بلند کیا جاتا ہے اور کبیرہ گناہ توبہ کرنے سے معاف ہوتے ہیں یا اللہ اپنی رحمت سے معاف کردیں اور اگلے سال گناہوں کے لئے کفارہ ہے اس کا معنی یا تو اس کے اس سال گناہوں سے اللہ تعالیٰ حفاظت کرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس کو رحمت اورثواب کا ایک حصہ دیا جاتا ہے‘‘
حاجی کے لئے عرفہ کے روزے کا حکم
حاجی کے حق میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ اس لئے کہ روزہ رکھنے سے ضعف پیدا ہوگااور اس موقع پر کثرت دعا کا جو مقصد ہے وہ مقصدفوت ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے بھی روزہ نہیں رکھا، جو حاجی دن کے وقت عرفہ پہنچنے کاارادہ کرے اس کے لئے روزہ نہ رکھنا سنت ہے؛تاکہ اس کو خیر کے کاموں پر قوت ملے اگر چہ روزہ رکھنے سے ان اعمال میں کمزوری نہ آئے تب بھی وہ روزہ نہ رکھے، اگر روزہ رکھیتو یہ خلاف اولیٰ ہے، اگر کوئی حاجی مکہ مکرمہ میں یا کہیں اور مقیم ہو اور عید کی رات میں عرفات پہنچنے کا ارادہ ہو تو اس حاجی کے لئے روزہ رکھنا مکروہ نہ ہوگا؛ چنانچہ امام مسلمؒ نے حضرت ام فضلؒ بنت حارث سے ایک حدیث نقل کی ہے وہ فرماتی ہیں:
’’أن ناساً تماروا عندھا یوم عرفۃ فی صوم النبیﷺ فقال بعضھم: ھو صائم،وقال بعضھم:لیس بصائم فارسلت الیہ بقدح لبن وھو واقف علی بعیرہ فشربہ‘‘ (صحیح البخاری:۱۹۸۸،صحیح مسلم:۱۱۲۳، نیز دیکھئے: جامع الترمذی:۷۵۰، سنن ابی داؤد:۲۴۴۱)
’’لوگ حضرت أم فضل ؓکے پاس عرفہ کے دن رسول اللہﷺ کے روزہ کے بارے میں بحث کرنے لگے،بعض حضرات نے کہا کہ آپﷺ روزہ سے ہیںاور بعض حضرات کہنے لگیکہ آپ ﷺروزہ سے نہیں ہیں تو ام فضلؓ کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺکی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ ﷺنے اس کو نوش فرمایا دراںحال یہ کہ آپ ﷺ عرفات کے میدان میں اپنے اونٹ پر تھے‘‘
چنانچہ اس حدیث کے ذیل میں امام نوویؒؒ لکھتے ہیں:
’’مذھب الشافعی و مالک و أبی حنیفۃ و جمھور العلماء إستحباب فطر یوم عرفۃ بعرفۃ للحاج‘‘(شرح مسلم:۴؍۲۵۷، نیز دیکھئے: تحفۃالأحوذی:۳؍۳۷۶، فتح الباری:۵؍۷۸۰)
’’حاجی کے لئے عرفات میں عرفہ کے دن افطار کرنا مستحب ہے، یہ امام شافعیؒ،امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور جمہور فقہاء کا مسلک ہے‘‘
امام ترمذیؒ نے حضرت ابن عمرؓ کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ جب ان سے عرفہ کے دن روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:
’’حججت مع النبیﷺ فلم یصمہ ومع أبی بکر فلم یصمہ، ومع عمرؓ فلم یصمہ ومع عثمانؓ فلم یصمہ وأنا لا اصومہ ولا آمر بہ ولا انھی عنہ‘‘ ( جامع الترمذی: ۷۵۱)
’’میں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ ﷺنے اس دن روزہ نہیں رکھا، اسی طرح میں نے حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ بھی حج کیا تو انھوں نے بھی روزہ نہیں رکھا اور میں بھی اس دن کا روزہ نہیں رکھتا ہوں اور نہ ہی روزہ رکھنے کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی روزہ رکھنے سے منع کرتا ہوں‘‘
اسی وجہ سے فقہاء نے حاجی کے علاوہ کے لئے اس روزہ کو مستحب قرار دیا ہے اور حاجی کے لئے اس روزہ کو مکروہ لکھا ہے؛چنانچہ علامہ خطیب شربینیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’أما الحاج فلا یسن لہ صوم عرفۃ، بل یسن لہ فطرہ وإن کان قویا للاتباع۔۔۔ ولیقوی علی الدعائفصومہ لہ خلاف الأولی۔۔۔۔ أنہ یسن صومہ لحاج لم یصل عرفۃإلالیلاًلفقد العلۃ۔۔۔‘‘(مغنی المحتاج:۱؍۵۹۶، نیز دیکھئے: بحر المذھب:۴؍۳۳۹، المجموع:۶؍۴۰۲، التھذیب:۳؍۴۶۴، الحواشی المدنیۃ:۲؍۱۹۸، حاشیۃ الجمل:۳؍۴۶۴، الحاوی الکبیر:۳؍۴۷۲، نہایۃ المحتاج: ۳؍۲۰۶)
’’حاجی کے لئے عرفہ کے دن روزہ سنت نہیں ہے،بلکہ حاجی کے لئے افطار کرنا (عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا) اتباع نبوی کی وجہ سے مسنون ہے، اگر چہ وہ حاجی دیگر اعمال کے ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو، تاکہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میںاسے دعا کرنے پر تقویت حاصل ہوجائیاور حاجی کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا خلاف اولیٰ ہے،البتہ جو حاجی عرفات میں رات کے وقت حاضر ہو اس کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے، اس لئے کہ دن میں روزہ رکھنے کی کراہت کی علت رات کے وقت مفقود ہے‘‘
عرفہ کے روزہ میں کس تاریخ کا اعتبار ہوگا؟
حضرت کریبؓ فرماتے ہیں:
’’إن أم الفضل بنت الحارث بعثتہ إلی معاویۃ بالشام قال: فقدمت الشام فقضیت حاجتھا واستھل علی رمضان وأنا بالشام فرأیت الھلال لیلۃ الجمعۃ ثم قدمت المدینۃ فی آخر الشھر فسألنی عبد اللہ بن عباسؓ ثم ذکر الھلال فقال متی رأیتم الھلال؟ فقلت: رأیناہ لیلۃ الجمعۃ فقال آنت رأیتہ؟ فقلت: نعم ورآہ الناس وصاموا وصام معاویۃ، فقال: لکن رأیناہ لیلۃ السبت فلا نصوم حتی نکمل ثلاثین أو نراہ، فقلت: أولاتکتفی برؤیۃ معاویۃ وصیامہ فقال: لا، ھٰکذا امرنا رسول اللہﷺ (صحیح مسلم:۲۵۲۸)
’’ام فضل ؓنے مجھے ملک شام میں حضرت معاویہ ؓکے پاس بھیجا، حضرت کریبؓ فرماتے ہیں کہ میں ملک شام آیا، پس میں نے اپنی ضرورت پوری کی تو میں نے جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند ملک شام میں دیکھا، پھر میں مدینہ آیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟میں نے کہا جمعہ کی رات۔ دریافت فرمایا: کیا تم نے دیکھا؟ میں نے کہا جی ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا، نیزوہاں کے لوگوںنے اور حضرت معاویہ نے روزہ رکھا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہم نے سنیچر کی رات دیکھا ہے، لہٰذا ہم تیس کی گنتی پوری ہونے تک روزہ رکھیں گیالاّ یہ کہ ہم چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: حضرت معاویہ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا آپ کے لئے کافی نہیں ہے؟ فرمایا نہیں،ہم کو آپﷺ نے یہی حکم دیا ہے‘‘
چنانچہ اس حدیث پر امام نوویؒؒ نے باب قائم کیاہے ’’باب بیان أن لکل بلد رؤیتھم وأنھم إذا رأواالھلال ببلد لا یثبت حکمہ لما بعد عنھم‘‘جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہر والوں کے لئے ان کی رؤیت کا اعتبار ہوگااورجب کسی شہر میں لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم ان سے دور والے شہر کے لوگوں کے لئیثابت نہیں ہوگا،چنانچہ امام نو وی ؒ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’لأن الطوالع والغوارب قد تختلف لاختلاف البلدان وإنما خوطب کل قوم بمطلعھم ومغربھم ألا تری الفجر قد یتقدم طلوعہ فی بلد ویتأخر فی بلد آخر؟ وکذلک الشمس قد یتعجل غروبھا فی بلد ویتأخر فی آخر ثم کل بلد یعتبر طلوع فجرہ وغروب شمسہ فی حق أھلہ فکذلک الھلال‘‘ (المجموع: ۶؍۲۷۵، نیز دیکھئے: نہایۃ المحتاج:۳؍۱۵۶، مغنی المحتاج:۱؍۵۶۵)
’’شہروں کے مختلف ہونے کی وجہ سے مطالع اور مغارب بھی مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم اپنے اپنے مطلع ومغرب کے مخاطب ہوتے ہیں، کیا نہیں دیکھتیکہ فجر کے وقت کا طلوع ایک جگہ مقدم ہوتا ہیاور دوسری جگہ مؤخر ہوتا ہے،اسی طرح سورج ایک شہر میں جلدی غروب ہوتا ہیتو دوسرے میں تاخیر سے غروب ہوتا ہے، ہر شہرکے طلوع فجر اور غروب شمس کا اس شہروالوں کے حق میں اعتبار کیاجائے گا، اسی طرح چاند کا مسئلہ ہے‘‘(کہ ہر شہر والوں کا اپنے اپنے ملک وشہر کا اعتبار ہوگا)_
مذکورہ دلائل سیپتہ چلا کہ اما م شافعی ؒکے نزدیک مشہور قول کے مطابق قرب وبعد کا مدار اختلاف مطالع پر ہے کہ جن دومقامات کے طلوع شمس یا طلوع فجر یا طلوع کو اکب اور ان کے غروب کے اوقات مختلف ہوں تواختلاف مطالع مانا جائے گا، اگران چیزوں میں اتحاد ہو تو اتحاد مطالع کہلائے گا، لہذاایسے دو مقامات میں سے(جہاں سورج کے غروب وطلوع میں فرق ہو) ایک جگہ چاند کی رؤیت کے باوجود دوسری جگہ چاند نظر نہ آیاہو تو ایک جگہ چاندنظر آنے سے دوسری جگہ چاند کاثبوت نہیں ہوگا،اسی طرح چاند کی رؤیت میں ہندوستان اور سعودیہ کے اعتبار سیفرق ہوگا، کیوں کہ ان دونوں ملکوں کے طلوع وغروب میں فرق ہے کہ جب ہندوستان میں ظہر کی نماز کا وقت ہوتا ہے تو اس وقت سعودیہ میں ظہر کا وقت نہیں ہوتا،اس لئے کہ جب ہندوستان میں ایک بجتا ہے تو سعودیہ میں تقریباً ساڑھے دس بجتے ہیں، اسی طرح سحری وافطاری کے اوقات میں فرق ہوتا ہے، اس لئے ہندوستان کے مسلمان اپنے ہی ملک کے اوقات کا اعتبار کریں گے،اور چاند کے معاملہ میں بھی مقامی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر عمل کریں گے، اس اعتبار سے ہندوستان میں جس دن نو ذی الحجہ کی تاریخ ہوگی عرفہ کا روزہ اسی دن رکھا جائے گا۔
25 جولائی 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل)
جواب دیں