ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات
از: محمد سمعان خلیفہ ندوی
مدارس اور اہل مدارس پر تنقید کرنے والے اور دفاع کرنے والے فریق؛ میرے خیال میں دونوں انتہائی سروں پر ہیں اور جب تک دونوں کو قریب نہیں لایا جائے گا مسئلہ حل ہونے والا نہیں!
میری…… صاحب سے بلکہ آپ میں سے اکثر احباب سے بالمشافہ اب تک ملاقات نہیں ہے چار پانچ سالوں سے اسی سوشل میڈیا کے توسط سے ان سے واقف ہوں اور اب تک ان کی جتنی تحریروں کو میں نے پڑھا ہے (اور بارہا ان سے الجھا بھی ہوں) اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ مدارس کی افادیت کے بالکل مخالف نہیں ہیں اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں کیوں کہ مدارس تو معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کی تحریروں کے پس منظر میں یہاں اس گروپ میں ان کو مدرسہ مخالف کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان کے قلم میں تیزی ہے اور تیور جارحانہ ہوتے ہیں جس سے اہل مدارس میں اشتعال پیدا ہوتا ہے، اور ہم لوگ بھڑک جاتے ہیں، اور دوسری طرف……… صاحب بھی اپنے تیور کو جارحیت کی سان پر اور تیز کردیتے ہیں اور ان کے قلم کی زد بعض اوقات شاید لاشعوری ہی میں امت اور علمائے امت کے بیش قیمت سرمائے اور متاع گراں مایہ پر بھی پڑ جاتی ہے جو آج کے ان ناگفتہ بہ حالات میں جب کہ علماء اور مدارس پر سے اعتماد ہٹانے کے لیے دشمن کمربستہ ہے، نہایت نا مسعود ہے، مگر مجھے امید ہے کہ وہ علماء کے حلقے ہی میں اپنی یہ باتیں رکھتے ہوں گے پھر بھی امکان ہے کہ سوشل میڈیا کے اس طوفان بلاخیز میں اس سے مدرسہ مخالف لابی کمک پالیتی ہو، بہرحال میری ان سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے قلم کی جارحیت میں کمی لائیں ورنہ جارحیت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اپنوں میں مزید توحش اور تنفر پیدا ہوگا اور جس امید سے آپ ان کو مخاطب کرتے ہیں اور جن مقاصد کے پیش نظر کرتے ہیں وہ سب معدوم ہوتے نظر آئیں گے، امت کو تنقید اور احتساب کی یقیناً ضرورت ہے مگر مثبت اور معقول انداز میں سامنے والے کی خوبیوں کے اعتراف اور قدردانی کے ساتھ بات کہی جائے تو مؤثر بھی ہوتی ہے دل پذیر بھی اور سننے والے کی عزت نفس کو بھی کوئی ٹھیس نہیں لگتی اور وہ سخت سے سخت بات کو بھی لب و لہجے کی شیرینی کی وجہ سے گوارا کر کیتا ہے اور یہ بھی ایک مشاہداتی حقیقت ہے کہ امت نے جارح مزاج ناقدین کی باتوں پر دھیان کم دیا جس سے خاطرخواہ نتائج نہ نکل سکے، اور ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگئی، اسی طرح یہ ناقدین ممکنہ حد تک عمل کے ذریعے بھی اپنے منصوبوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کریں اور کندھے سے کندھا ملا کر ایک پوری جماعت کو تشکیل دیں اور ایک مشن برپا کردیں ورنہ اس طرح سوشل میڈیا کی جنگ سے شاید کچھ حاصل نہ ہوپائے اور دلوں میں تکدر اور ذہنوں میں تشویش ہی رہ جائے۔
مجھے خبر ہے میں جانتا ہوں یہ دور ہے آگ کا سمندر
مگر غم عشق کا سفینہ اسی کی موجوں پہ ہے چلانا
ادھر دوسرے فریق یعنی اہل مدارس کو کیا کرنا چاہیے میرے خیال میں ان کو کسی طرح بھی اشتعال میں آکر اپنے دشمنوں کی صف میں ان ناقدین کو کھڑا نہ کرنا چاہیے بلکہ جب بھی تنقید کی جائے تو
تنقید سے انساں کی تقدیر سنورتی ہے
تعریف کے متوالے تنقید گوارا کر
کے اصول کے مطابق اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے اور اگر اس تنقید کا وہ اپنے کو مستحق نہ پائیں تو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے مگر خوب سے خوب تر کا سفر اور اس کی جستجو بھی جاری رہے۔ یقیناً مدارس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کا انکار کوئی معاند اور ملتوں اور قوموں کی تاریخ سے ناواقف شخص ہی کرسکتا ہے مگر مدارس کی بھی کچھ خامیاں ہیں اور ممکن ہے کہ یہ ان کی اپنی مجبوریوں کا نتیجہ ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح مدارس کے شایان شان کردار تھا وہ دھیرے دھیرے مفقود ہوتا جارہا ہے اور زندگی کے رواں دواں قافلے سے وہ پچھڑتے جارہے ہیں یہ ارباب مدارس کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے اور آج بھی وقت ہے ایک دوسرے کے سر پر اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا پھوڑنے کے بجائے دونوں فریقوں کو وقت رہتے حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے، جب کہ ایک صدی قبل کتنے باشعور ارباب بصیرت رہنماؤں نے متوجہ کیا اور ان کی بتائی ہوئی باتیں آج حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں اور کسی کسی کو سمجھ میں بھی آرہی ہیں (اور اب بھی وقت ہے اگر سمجھ میں آجائیں تو مگر) کاش اسی وقت ان کا ادراک کرلیا جاتا تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے، آج بھی اگر مدارس اپنے اصولوں اور مقاصد سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنا دائرۂ عمل بڑھا لیں اور ۲ فیصد اور ۵ فیصد کی بات کہنے کے بجائے پچانوے اور اٹھانوے فیصد افراد امت تک پہنچ کر نئی نئی اسکیمیں اور منصوبے اختیار کرکے ان کے دلوں کو دستک دینے کی کوشش کریں اور جاذب نظر انداز میں نئے زمانے کے نئے طریقہائے کار کو عمل میں لاکر نئی نسل کے دلوں کو اپیل کریں (اور الحمد للّٰہ بعض مدارس یہ فریضہ بھی بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان مدارس کو دیکھ کر ظلمت کدوں میں امید کی کچھ شمعیں بھی روشن ہوتی ہیں) اور اس کو اپنا دعوتی فریضہ سمجھیں تو اس طرح وقت کی ایک بڑی ضرورت کی تکمیل کا سامان بھی ہوجائے اور عند اللہ بھی ہم سب اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوسکیں۔
ہر چند کہ مدارس کے پاس اسباب کی کمی ہے مگر آج بھی ہمارا شعور بیدار ہوجائے اور ضرورت کا احساس ہوجائے اور کمر ہمت باندھ کر کچھ جیالے میدان عمل میں اتر آئیں اور للّٰہ اس کے لیے اپنی متاع جاں کو تج دیں تو وہ دن دور نہیں کہ مدارس دوبارہ اپنے مقام کو بازیاب کرلیں گے اور آب حیات سے زندگی کی کشت زار کو سیراب کرنے کا جو کردار ان سے متوقع ہے وہ ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ بس شرط فضول بحثوں کو چھوڑ کر میدان عمل میں کودنے کا ہے۔
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
یہ کچھ منتشر خیالات گروپ کے اکھاڑے کو دیکھ کر کئی دنوں سے ذہن میں گردش کر رہے تھے جو آج آپ کے سامنے پیش کردیے، اگر تلخ کلامی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں اور آپ سے اپنے لیے دعاوں کا طالب ہوں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
27 مئی 2020 ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں