کم وبیش 200 ٹریلین ڈالر پر مشتمل کل عالمی دولت میں سے افریقہ، ہندوستان، لاطینی امریکہ اور چین کا حصہ بالترتیب 1 فیصد، 2 فیصد، 4 فیصد اور 8 فیصد ہے۔ یوں دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں سے 4.2 ارب لوگ جن خطوں میں رہتے ہیں ان کے حصہ میں کل عالمی دولت کا محض 15 فیصد آتا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ عرف آئی ایم ایف Inteational Monetary Fund کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لیگارڈ Christine Lagarde نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا کہ ہندوستان کے ارب پتیوں کی دولت گزشتہ 15 برس میں بڑھ کر 12 گنا ہو گئی ہے۔ کرسٹینا کے مطابق، ان مٹھی بھر امیروں کے پاس اتنا پیسہ ہے جس سے پورے ملک کی غربت کو ایک نہیں، دو بار مٹایا جا سکتا ہے۔ لیگارڈ کے اس بیان سے تصدیق ہوتی ہے کہ مارکیٹ پر مبنی معیشت اپنانے کا فائدہ مخصوص امیروں کو ہی نصیب ہوا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق اور چوڑی ہو گئی ہے اور ملک کی زیادہ تر جائیداد مہیا ارب پتیوں کی مٹھی میں سمٹتی جا رہی ہے۔
غربا اور امرا کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج :
قومی نمونہ سروے National Sample Survey تنظیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ خرچ اور استعمال کی بنیاد پر کئے گئے اس سروے سے پتہ چلا کہ سال 2000 اور 2012 کے درمیان دیہی علاقوں میں رئیسوں کے خرچ میں60 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ غریبوں کا خرچ صرف 30 فیصد بڑھا۔ اس دوران شہری علاقوں میں امیر اور غریب کے اخراجات میں بالترتیب ترسٹھ اور تینتیس فیصد اضافہ ہوا۔ جہاں سال 2000 میں ایک امیر آدمی کا خرچ غریب کے مقابلہ12 گنا تھا، وہیں اب یہ بڑھ کر 15 گنا ہو گیا ہے۔ تازہ مطالعہ سے ایک اور بھرم ٹوٹا ہے۔ آج شہروں کے مقابلہ گاؤں میں مہنگائی کی مار زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دال، سبزی، پھل، تیل، دودھ، چینی اور کپڑوں کی قیمت دیہی علاقوں میں کہیں زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں خط افلاس سے نیچے گذربسرکرنے پر مجبور لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ شہروں کے مقابلے گاؤں میں رہنے والوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔
ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کی لوٹ :
گلوبلائزیشن اور کھلی معیشت کی ڈگر پکڑنے کے بعد سے وطن عزیزکے ماہرین پر ترقی کا بھوت سوار ہے۔ ہر حال میں اور ہر قیمت پر ترقی کا پاگل پن کی قیمت ملک کی اکثیریتی آبادی کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کی جم کر لوٹ ہوئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے ترقی کا ایسا ماڈل اپنایا گیا ہے جس میں روزگار ۔ اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ یہ تو کہتے ہیں کہ آج کھیتی باڑی میں مصروف70 فیصد کسان فالتوبیکار ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کھیتی کر رہے ان کے کروڑوں کسانوں کو متبادل کام کہاں ملے گا۔ ملک کی تقریبا60 فیصد آبادی زراعت اور اس سے وابستہ دھندوں پر انحصارکرتی ہے۔ اگر70 فیصد لوگوں کو کاشکاری سے نکال دیا جائے تو تقریبا50 کروڑ لوگوں کو صنعت یا ملازمت کے شعبہ میں کھپانا پڑے گا۔ جبکہ مسلسل 2 سال سے ترقی کی شرح5 فیصد سے نیچے چل رہی ہو‘ تو بھی روزگار بڑھتا نہیں بلکہ کم ہوتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں کھیتی باڑی چھوڑکردیگر اقدامات کرنے کا مشورہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
دعووں اور پیمانوں کو چیلنج:
نوبل اعزاز یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سینAmartya Sen اور جیا ن ڈریز Jean Dr232ze کی کتاب’انڈیا اینڈ اٹس کنٹراڈکشن‘India and its Contradictionsسے ملک کی ترقی کے ترقی کے دعووں اور پیمانوں ملتا ہے۔ کھلی اور مارکیٹ پر مبنی معیشت کے بولڈ اصول ہے کہ اگر غریبوں کا بھلا کرنا ہے تو ملک کی معاشی ترقی کی شرح اونچی رکھو۔ اس اصول کے مطابق جب ترقی تیزی سے ہوگا تو خوشحالی آئے گی اور غریبوں کو بھی اس کا فائدہ ملے گا۔ لیکن بین الاقوامی دنیا میں آج صرف اقتصادی ترقی کے پیمانے کو اپنانے کا چلن مسترد کیا جا چکا ہے۔ کسی ملک کی خوشحالی ناپنے کیلئے اب انسانی ترقی انڈیکس اور بھوک انڈیکس جیسے معیار اپنائے جا رہے ہیں اور ان دونوں پیمانو پر ہمارے ملک کی حالت قابل رحم ہے۔ اگر ترقی کے فوائد کا منصفانہ تقسیم نہ کیا جائے اور کھلی مارکیٹ پر محتاط کنٹرول نہ رکھا جائے تو سماج میں بدامنی پھیلنے کا خوف رہتا ہے۔ آج ہمارا ملک اس خطرے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
گاؤں اور کھیتی کی حالت زار:
ملک میں آمدنی کے بڑھتے فرق کو سمجھنے کیلئے گاؤں اور کھیتی کی حالت زار کو جاننا ضروری ہے۔ گزشتہ سترہ برسوں میں تقریبا تین لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ حساب لگاے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر آدھے گھنٹے میں ایک کسان اپنی جان دے دیتا ہے۔ زیادہ تر خود کشی کا سبب قرض ہے جسے ادا کرنے میں کسان قابل نہیں ہیں۔ آج کھیتی گھاٹے کا سودا بن چکی ہے۔ اسی وجہ سے بیالیس فیصد کسان کھیتی چھوڑ کرنا چاہتے ہیں، لیکن متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمین جوتنے کو مجبور ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2007-2012 کے درمیان تقریبا سوا تین کروڑ کسان اپنی زمین اور گھر ۔ بار بیچ کر شہروں میں آئے۔ کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے اکثر کو تعمیر علاقے میں مزدوری یا اجرت کرنی پڑی۔ سال 2005-2009 کے دوران جب ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ نو فیصد کی شرح سے قلانچیں مار رہی تھی تو اس وقت بھی 1.4 کروڑ کسانوں نے کھیتی چھوڑی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ اقتصادی ترقی کا فائدہ کسانوں کو نہیں ملا اور نہ ہی وہاں رہنے والی آبادی کی آمدنی میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔ اگر اقتصادی ترقی کا فائدہ دیہات تک پہنچتا تو کسان اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں کی طرف راہ فراراختیار نہیں کرتے۔
مثالی ترقی نگاہ کا دھوکہ:
ماہرین اقتصادیات کے نزدیک دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی اقتصادی ترقی اور ترقی کی علامت ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2030 تک ہندوستان کی نصف آبادی شہروں میں رہنے لگے گی۔ لیکن شہرکاری کا عمل پیچیدہ ہے۔ یہ قابل قبول حقیقت ہے کہ بہتر روزگار کی تلاش میں ہی آدمی گاؤں سے شہر آتا ہے، پر کام نہ ملنے یا دھندہ نہ جمنے پر وہی آدمی گاؤں لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے جبکہ ملک کی مثالی ترقی نگاہ کا دھوکہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی نیت سے اس میں کم سے کم لوگوں کو لگاکر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی جستجو کی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارا ترقی کا ماڈل روزگار مبرا ہے۔ اس میں نئی ملازمتوں کی گنجائش بہت کم رہتی ہے۔ اسی وجہ سے 2012-14 کے درمیان ڈیڑھ کروڑ لوگ شہر چھوڑ گاؤں لوٹنے کو مجبور ہوئے۔ شہروں میں بھوکے مرنے کی بجائے انہوں نے اپنے گاؤں لوٹ کر منریگا میں مزدوری کر کے پیٹ بھرنے بہتر سمجھا۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی 58.2 فیصد آبادی کھیتی پر انحصار تھی، جبکہ جی ڈی میں زراعت کا حصہ محض 14.1 فیصد تھا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ آدھی سے زیادہ آبادی کی آمدنی بہت کم ہے، اتنی کم کہ دو وقت کی روٹی کا امکان کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں رہنے والے چند لوگوں نے ساری آمدنی اور جائیداد پر قبضہ جمع رکھا ہے۔یوں کہنے کو حکومت نے غریب عوام کے فائدے کیلئے کئی فلاحی منصوبے چلا رکھے ہیں۔
اربوں روپے کی بندر بانٹ:
خوراک، کھاد، توانائی، تعلیم اور صحت پر ہر سال اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، لیکن اس میں بھی بندر بانٹ ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں حکومت نے جن فلاحی اسکیموں کو ایک سو دس کھرب روپے کی سبسڈی دی۔تن تنہا محض ایندھن پر 2013 میں 1.30 لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی لیکن امیر بیس فیصد طبقے کو غریب 20 فیصد آبادی کے مقابلے 6 گنا زیادہ سبسڈی ملی۔ ایک مثال دے کر یہ بات بہتر سمجھی جا سکتی ہے۔ حکومت ایک لیٹر ڈیزل پر9 روپے کی سبسڈی دیتی ہے، لیکن اس سستے ڈیزل کی40 فیصد کھپت مہنگی ذاتی کاروں، صنعتوں، جینریٹرو وغیرہ میں ہوتی ہے۔ غریب کسان کے حصہ بہت کم ڈیزل آتا ہے۔ سبسڈی میں شدید بدعنوانی ہے، اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ایک روپے میں سے تقریبا 10 پیسے ہی ضرورت مند غریب عوام تک پہنچ پاتے ہیں۔
دوسری طرف بڑے صنعتوں اور کارپوریٹ گھرانوں کی طرف سے لئے جانے والے اربوں روپے کے قرضوں کی تلخ حقیقت ہے۔ 2013 تک عوامی بینکوں سے لیاگیا بارہ کھرب روپے کا قرض صنعتوں نے ادا نہیں کیا۔ یہ ایسا قرض ہے جس کے لوٹنے کا امکان نہ کے برابر ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے صنعت کی طرف سے ٹیکس دہندگان سے زبردستی وصولی گئی سبسڈی ہی کہا جائے گا۔ پیسہ مارنے والے صنعتوں کیخلاف حکومت اور بینک کوئی سخت کارروائی بھی نہیں کرتے ہیں۔ قرض نہ ادا کرنے والوں کی جماعت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا نام ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہے۔اعداد و شمار کے جنگل سے نکل کر پھر امرتیہ سین کی تجاویز سے رجوع کرتے ہیں۔ ان کے مطابق’مارکیٹ مینیا‘ کے لالچ اور مارکیٹ فوبیا‘ کے خوف سے نکلے بغیر ملک کی بھلائی ناممکن ہے۔ جھوٹے اقتصادی ترقی کے دعوے اوربے جان سیاسی بحث عوام کو گمراہ کرنے کے اوزار ہیں۔ بحث اصل مسائل پر ہونی چاہئے۔ کھانا، تعلیم اور صحت بنیادی مسائل ہیں اور انہیں فراہم کرانا ہر حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے۔ جو حکومت اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر پاتی اس اقتدار میں بنے رہنا مشکل ہوتا ہے۔
کیسے پٹے گی لمبی چوڑی کھائی؟
ریزرو بینک کے گورنر رگھرام راجن کے مطابق، کسانوں کو کھیتی سے بھگانے پر ہی ملک کی حقیقی ترقی کرے گا۔ ان کا یہ کہنا نامکمل سچ ہے۔ کسانوں کو کھیتی سے بھگانے کی بات تبھی کی جانی چاہئے، جب شہروں میں ان کیلئے اچھی ملازمتوں کا انتظام ہو۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ گاؤں سے نکلے اکشل مزدور کو مینو فیکچرنگ یا تعمیر علاقے میں ہی کھپایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ان دونوں شعبوص میں صورتحال اچھی نہیں ہے، اس لئے کروڑوں کسان خسارے کی کھیتی یا منریگا میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ کارپوریٹ کی دنیا کو سماجی ذمہ داری سے جوڑ کر ہی اقتصادی فاصلہ کی لمبی چوڑی کھائی کچھ حد تک پاٹی جا سکتی ہے۔ صنعتوں کو مال فروخت کیلئے بڑے مارکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر عام آدمی کے پاس خریدنے کیلئے پیسہ ہی نہیں ہوگا، تب صنعت اپنے بنائے سامان کا کیا کریں گے؟ عام آدمی کی ترقی سے ہی کارپوریٹ کی دنیا پھل پھول سکتی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محض مٹھی بھر ارب پتیوں کی بدولت کوئی ملک اور سماج ترقی نہیں کر سکتا!
کیا امریکہ اور اسرائیل دشمن ہیں؟
برصغیر میں اکثر سیاسی کارکنان، معصوم شہری یہاں تک کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہمارا دشمن نمبر 1 اور 2 ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکی اور اسرائیلی عوام غیر مساوی ترین ممالک میں سے ایک ہیں جہاں کل قومی دولت یعنی تقریباً 57 ٹریلین ڈالر میں امیر ترین 1 فیصد کا حصہ 35 فیصد، جبکہ امیر ترین 10 فیصد کا حصہ 80 فیصد، نیچے کے 80 فیصد امریکیوں کا قومی دولت میں حصہ صرف 7 فیصد ہے۔ 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پہ پلتے ہیں اور 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 25 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 2011 میں اسرائیل میں 7 لاکھ شہریوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کی۔ ہڑتال کی وجہ غذائی قلت، صحت کی سہولتوں کی کمی، مہنگائی اور بیروزگاری تھی۔
کیا ہے عالمی دولت کا منظر نامہ؟
دوسری طرف عالمی دولت میں صرف یوروپ اور شمالی امریکہ کا مجموعی حصہ 63 فیصد ہے جبکہ ان دو خطوں کی مجموعی آبادی تقریباً 1.3 ارب ہے۔ دنیا میں دولت کی تقسیم کا مجموعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو امیر ترین 1 فیصد افراد 43 فیصد، جبکہ امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 83 فیصد حصے پر قابض ہیں جبکہ 50 فیصد عالمی آبادی کے حصے میں 2 فیصد جبکہ 80 فیصد آبادی کے حصہ میں صرف 6 فیصد دولت آتی ہے۔ یہ صورتحال بارکس اور اینگلز کی اس پیش گوئی کے عین مطابق ہے جو انھوں نے 1948 میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کی تھی اور جس کے مطابق سرمایہ داری کے ارتقا اور عالمگیریت کیساتھ قومی ریاست متروک ہوکے رہ جائے گی۔ یہی بات بل کلنٹن نے کہی تھی کہ آیندہ آنے والی امریکی حکومتوں کیلئے3 بڑے خطرات ہوں گے۔ (1) منشیات، (2) دہشت گردی (3) وہ جو قومی ریاستوں کیخلاف ہیں۔
کوئی ملک لوٹ مار سے نہیں محفوظ :
دنیا بھر میں ریاستوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی اہم وجہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں پر ٹیکس لگانے کی نااہلیت ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کی آمدنی گرتی چلی جارہی ہے اور وہ قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ ٹیکس سے بچنے کیلئے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرفہرست ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس لوٹ مار سے محفوظ نہیں ہے۔ ایک الیکٹرک کمپنی 108 ارب ڈالر، ایک کمپنی 73 ارب ڈالر، مائیکرو سافٹ 60 ارب ڈالر، ایپل 54 ارب ڈالر، ایک کمپنی 53 ارب ڈالر اور ایک اور کمپنی 49 ارب ڈالر ہر سال مختلف ممالک سے نکال کر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کرتی ہیں۔
’ آف شور‘ بینکوں میں پوشیدہ دولت:
محض 60 بڑی کمپنیاں ٹیکسوں سے بچنے کیلئے ہر سال 1ہزار 3 سو ارب ڈالر پیداواری شعبہ سے نکال کر مختلف بینکوں میں جمع کرواتی ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق دنیا کے امیر افراد نے 32 ہزار ارب ڈالر مختلف’ آف شور‘ Offshore Banks بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ رقم تیسری دنیا کے مجموعی بیرونی قرضے (تقریباً 4000ارب روپے) سے 8 گنا زیادہ ہے، یونان کا معاشی بحران اس عمل کی واضح مثال ہے۔ 2009-11 کے صرف2 سال میں 22 ارب یورو یونان سے باہر منتقل ہوئے۔ یونان کے سابق وزیراعظم جارج پاپاندریو کے ایک بیان کے مطابق اگر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی پر قابو پا لیا جاتا تو ’یونان کو بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘۔ یونان کے امراکے ذمہ 60 ارب یورو محض قانونی ٹیکس کی مد میں واجب الادا ہیں جبکہ سالانہ ٹیکس چوری 20 ارب یورو سے زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کی کالی معیشت سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کیا کررہے ہیں تیسری دنیا کے سرمایہ دار؟
فروری 2012 میں ہندوستانی سی پی آئی کے چیف کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ہندوستانی امرا نے اپنے 500 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ 2 اکتوبر 2013 کو جاری ہونے والے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالریومیہ پاکستان سے باہر اسمگل کئے جارہے ہیں، یہ رقم 9 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے اور آئی ایم ایف کے حالیہ 3 سالہ بیل آؤٹ پیکیج سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ یوں تیسری دنیا کے سرمایہ داروں کا سماجی اور معاشی کردار بھی سامراجی اجارہ داریوں سے مختلف نہیں، گلوبل فنانشل اینگریٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2008 تک کے عرصے میں انگولا، ایتھوپیا اور یمن جیسے غریب ترین ممالک سے 197 ارب ڈالر امیر ممالک میں منتقل ہوئے۔ امیر ممالک ہر سال 130 ارب ڈالر امداد کی مد میں غریب ملکوں کو دیتے ہیں، اس کے برعکس ملٹی نیشنل اجارہ داریاں تیسری دنیا کے ممالک سے 900 ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک کے بینکوں میں منتقل کرتی ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک ہر سال 600 ارب ڈالر بیرونی قرضوں میں سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔
ہرسال درپیش نقصان:
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے نافذ کئے گئے تجارتی قوانین بشمول کم اجرتیں اور سستا خام مال وغیرہ کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو ہر سال 500 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ صرف پچھلی ایک دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں مغربی یوروپ کے رقبہ کے مساوی آراضی پر قبضے کئے ہیں۔ ان زمینوں کی مجموعی مالیت 2000 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔اس طرح مجموعی طور پر 2000 ارب ڈالر ہر سال غریب ممالک سے امیر ممالک منتقل ہوتے ہیں۔
افلاس زدہ لوگوں کی زیادتی:
مگر ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وطیرہ اور فطری قانون ہے کہ جوں جوں ایک جانب دولت کا انبار ہوگا تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔ اس لئے معروف انقلابی فلسفی اور دانشور اور مزدور رہنما ایماگولڈ مان Emma Goldman کہتی ہیں کہ ’انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے‘اس لئے سرمایہ کی اس لوٹ اور جبر کو ختم کرنے اور محنت کا غلبہ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ محنت کشوں کا ایسا انقلاب برپا ہو جہاں ریاستوں اور قومی دولت کا تصور ختم ہوکر عالمی نسل انسانی کا ایسا سماج قائم ہو جہاں سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہو‘ یہی انسانیت کی معراج ہے۔
کیاہوگا2025تک؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ تان کہاں جاکر ٹوٹے گی؟جبکہ برطانیہ میں کی گئی ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ سال 2025تک دنیا کی ایک تہائی آبادی مسلمان ہوگی اوردنیا بھر میں پڑھے لکھے،خودکفیل مسلمانو ں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔سروے کے مطابق مسلمانوں نے گزشتہ سال سیاحت پر102ارب یوروخرچ کئے۔مانا جارہا ہے کہ2020تک یہ تعدادبڑھ کر156ارب یوروتک پہنچ جائے گی جبکہ دنیا کی مسلم آبادی نہ صرف اہنے لئے سہولیات حاصل کرنے کے قابل ہے بلکہ سیروتفریح کے دوران عیش وآرام ان کی پیلی ترجیح بنتی جارہی ہے۔ ملیشیا سے اس قسم کے استفسارکئے گئے کہ لندن کے سب سے بہترین ہوٹل کون ساہوگا ؟ہلال کا مطلب ہے زندگی جینے کا ایسا طریقہ جو حلال یعنی اسلامی روایت کے مطابق ہو۔لندن اولمپکس اورملکہ کی ڈائمنڈجوبلی کے دوران ایسے ہوٹل کی جستجو ہوئی جس میں نماز پڑھنے کی سہولیت ہو،عورتوں کیلئے الگ سے بیٹھنے کا انتظام ہواور کھانا شراب کے بغیر بنایا جاتا ہو۔دنیا میں امیر مسلمانوں کی تعدادبڑھ رہی ہے جو ہر اچھی سے اچھی جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں ہر چیزحلال زندگی کے مطابق میسر ہو۔ظاہر ہے جو ریسٹورنٹ اورہوٹل ہلال طریقہ کاراور قوانین کو مانتے ہیں وہ خاصے مہنگے بھی ہوتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں مسلم آبادی محض 1.8ارب ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔دینا راسٹینڈرڈ بینک کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق مسلمانوں نے گزشتہ سال سیاحت پر102ارب یوروخرچ کئے جبکہ تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ2020تک یہ تعداد بڑھ کر156ارب یورو تک پہنچ جائے گی۔چھٹیاں گزارنے اور سیر وتفریح کیلئے مسلمانوں کے درمیاں اسلامی ملک ہی پہلی پسند رہے ہیں لیکن اب مسلمان آسٹریلیا اور امریکہ کا بھی رخ کر رہے ہیں۔حلال سہولیات کی بات کریں توملیشیا اس معاملہ میں سب سے آگے ہے۔کچھ سہولیات اورسازوسامان تو اتنے بے مثال ہیں کہ ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یوروپ اور لندن کے دروازے بھی مسلمانوں اور ان کی شان و شوکت کیلئے کھلیں تاکہ زیادہ سے زہادہ لوگ جگہوں پر جائیں!۔
جواب دیں