تو کیا(یہ عرب ممالک) امریکہ کے اتحادی بن کر(یہ اسلحہ) ایران کے خلاف استعمال کریں گے؟ اور اگر (خدا نخواستہ یہ عرب) اسلحہ ایران کے خلاف استعمال ہوا تو کیا ایران تیل پیداکرنے والے خلیجی ممالک کے (تیل) کنوؤں کو چھوڑ دے گا؟ ہر گز نہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بیس ارب ڈالر کا یہ اسلحہ غفلت کے کنویں میں پھینک دیا جائے گا؟ ‘‘ مصری اخبار کے اس سوال کا جواب گزشتہ چھ برسوں کے دوران کسی عرب ملک نے نہیں دیا ۔خلیج کے مشہور عربی روزنامے’الشرق الاوسط‘ نے بش کے دورۂ عرب پر تبصرہ کرتے ہوئے مارچ 2007 میں لکھا تھا کہ بش کے دورۂ مشرق و سطیٰ کے خاتمہ سے پہلے ہی کویت کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد الصباح کا ایران کا سرکاری دورہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی صدر خلیجی حکومتوں کو رام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ شیخ الصباح نے ایران کا دورہ کرکے امریکہ پر واضح کر دیا کہ ہم وہی اقدام کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہوگا………اور سب جانتے ہیں کہ عرب ممالک کو ایران کے خلاف بھڑکانے کی تمام تر برہنہ امریکی کوششوں کے باوجود سعودی حکومت نے سال 2008 میں ایران کے صدر احمدی نژادکو حج بیت اللہ کی دعوت دی تھی اور کئی سوار اکین پر مشتمل اعلیٰ سطحی ایرانی وفد نے سعودی حکومت کی اس مہمان نوازی کا فیض اٹھایاتھا۔ جو لوگ ہمارے اوپر صہیونیت فوبیا کی تہمت رکھتے ہیں انہوں نے گاندھی جی کے پوتے ارون گاندھی کے ساتھ امریکہ میں ہونے والے سلوک کو ضروردیکھا ہوگا اور یہ بھی کہ اسرائیل نے کس طرح عین بش کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام شروع کرکے، اخبار’’ الشرق الاوسط‘‘ ہی کے لفظوں میں یہ اعلان کر دیا تھاکہ’’…….امریکی صدر اور امریکی حکومت صہیونیت کے سامنے بے بس بھی ہیں اور اُن کے نرغے میں بھی……‘‘ارون گاندھی نے اسرئیل کو آئینہ دکھایا اور یہ اعلان کیا تھا کہ ظلم بالآخر ظالم کے خاتمے ہی پر منتج ہوتا ہے تو ان پر’’یہود دشمن‘‘(Anti Semetic)ہونے کا الزام لگا کر انہیں اپنے ہی قائم کردہ ادارے سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیاتھا۔حالانکہ گاندھی جی کے پوتے نے بالکل سچ کہا تھا۔خودگاندھی جی ارض فلسطین پر قیام اسرائیل کی دادا گیری کے خلاف تھے۔ جب کانگریسی وزیراعظم نرسمہاراؤ نے 29جنوری 1992ء کو اسرائیل کے ساتھ علانیہ باضابطہ سرکاری سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا تو J.H.Jansenنے روزنامہ ہندو میں کانگریس قیادت کو گاندھی جی کا اسرائیل مخالف موقف یاددلاتے ہوئے شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ اب اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستانی فاشسٹوں کے ذریعے بابری مسجد کے انہدام کی دہشت گردی، غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے سرکاری دوستی کے بعد ہی ممکن ہو سکی تھی!ویسے ہم کانگریس اور صہیونیت کے تعلق سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں ہمیں معلوم ہے کہ اگست 1948ء میں جب ہندوستان نے اسرائیل کے قیام کو تسلیم کیا تو پنڈت جواہر لال نہرو وزیراعظم تھے۔ اسی وقت ممبئی میں اسرائیل کا قونصل خانہ کھولے جانے کی اجازت بھی نہرو کا بینہ ہی نے دی تھی۔ ایک معاصر کالم نگار ڈاکٹر انورادیب کے بقول یہ اسرائیلی قونصل خانہ روز اول ہی سے جنوبی ایشیا میں اسرائیل کی جاسوسی اور دفاعی سرگرمیوں کامرکز تھا‘‘۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’1950میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کی نمائندہ وجے لکشمی پنڈت نے ( جو پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن تھیں) اسرائیل کو براہ راست سفارت کاری کی دعوت دی تھی جس کے نتیجے میں 1952ء میں اسرائیل کے خارجہ سکریٹری نے دہلی میں آکر پنڈت نہرو سے ملاقات کی تھی۔ اس پورے معاملے کا انکشاف خود اسرائیلی وزیر خارجہ نے 1966ء میں کیا تھا۔ ڈاکٹر ادیب نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ایچ وی کا متھ نے 17اپریل 1964ء کو پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ’’ہندوستان کی عربوں سے متعلق پالیسی محض سیاسی مفاد پر مبنی ہے جس کا مقصد عربوں کو دھوکے میں رکھنا ہے‘‘ مشہور انگریزی جریدے امپیکٹ انٹر نیشنل( جس کی اشاعت اب منقطع ہو چکی ہے) کے اکتوبر1984ء کے شمارے کے حوالے سے ڈاکٹر انور ادیب نے لکھا ہے کہ ’’1956ء میں جب اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا اس وقت اسرائیل کے وزیر خارجہ موسے شیرٹ نئی دہلی میں وزیراعظم جواہر لال نہرو سے ملاقات میں مصروف تھے۔ اندراگاندھی نے(وزیر اعظم بننے سے پہلے پنڈت نہرو کے انتقال سے ایک سال قبل) اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد1977ء میں وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کی دعوت پریک چشم اسرائیلی و زیرخارجہ موشے دایان ہندوستان کے سرکاری دورے پرآیا تھا اور اسی سال اٹل بہاری واجپئی بھی اسرائیل گئے تھے۔ لیکن ان تمام دوروں کو خفیہ رکھا گیا۔ 1982ء میں جنتا پارٹی کے سکریٹری سبرانیم سوامی نے(جو اگست2013 میں دوبارہ بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں تاکہ نریندر مودی کو پردھان منتری بنانے کی مہم چلا سکیں) وزیراعظم اسرائیل بیگن کی دعوت پر اسرائیل کا دورہ کیاتھا۔ ان کے علاوہ جے پرکاش نارائن آچاریہ کرپلانی، رام منوہرلوہیا جارج فرنانڈیز اور شرد پواربھی اسرائیل کا دورہ کر نے والوں میں شامل ہیں اور جنوری 1992ء میں باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کے بعدتو شاید ہی کسی سیاسی پارٹی بشمول سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کا کوئی اہم لیڈر ایسا بچا ہو جو اسرائیل کا دورہ نہ کر چکا ہو۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ سے زیادہ ہندوستان کے معاملات میں دخیل ہے۔ اور ہندوستان ہی پر موقوف نہیں امریکہ اور برطانیہ کے پردے میں پوری دنیا پر اسرائیلی یعنی صہیونی مقتدرہ کی مرضی چل رہی ہے۔ ورنہ بقول شاہنواز فاروقی’’اسرائیل کا رقبہ تو اتنا چھوٹا ہے کہ عام طیارہ پانچ منٹ میں اسرائیل کی جغرافیائی حدود سے باہر نکل جاتا ہے‘‘ مگر اس کے غلبے او رتسلط کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو پوری ارض فلسطین میں(اور اب بطور خاص غزہ میں) فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، مصر میں اپنے فرعونی حلیفوں کے ذریعہ اخوانیوں کا قتل کروا رہا ہے اور دوسری طرف پوری دنیا کو اپنے تہذیبی اور اقتصادی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ ورلڈ بینک آئی ایم ایف ڈبلیوٹی او اور سیکورٹی کونسل کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے مملکت اسرائیل کے قیام سے قبل کہا تھا کہ اسرائیل کا وجود ایشیاء کے دروازے پر مغرب کی چھاؤنی کے مترادف ہوگا اور اس سے اسلام اور ہندوستان دونوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔ آج شاہنواز فاروقی ہی کے الفاظ میں’’مغرب کے وہ حلقے بھی جو اسرائیل پر نکتہ چینی کر لیتے ہیں بالآخر یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اسرائیل کا وجود مغرب کی تزویراتی(STRETEGIC)ضرورت ہے۔ حتیٰ کے امریکہ کے سابق صدرکارٹر تک نے اپنی کتاب میں باوجود یکہ اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے یہی لکھا ہے دنیاآج فی الوقع صہیونی مقتدرہ کے آہنی تزویراتی نظریاتی اور تہذیبی شکنجے میں ہے ہم اس کا اعلان خدا نخواستہ کسی خوف کی وجہ سے نہیں صرف اس لیے کرتے رہتے ہیں کہ دشمن کو جانے اور پہچانے بغیراس کے ہتھکنڈوں سے تحفظ ممکن نہیں ۔ ورنہ صہیونی مقتدرہ خواہ کتنی بھی مزید تزویری ترقی کیوں نہ کر لے اس کا انجام تباہی ذلت اور مسکنت ہے اور بہت ممکن ہے کہ اب یہی اکیسویں صدی ظلم سے دنیا کی نجات دیکھ لے۔ مصر کے موجودہ حالات، فرعون وقت کے ہاتھوں3 دن کے اندر5 ہزار سے زائد فرزندانِ توحید کا قتل عام اور شاہ عبد اللہ کی فرعون مصر کی کھلی حمایت بتاتی ہے کہ آخر ی زمانے کے آخری مراحل بہت جلد طے ہونے والے ہیں۔ دنیا سے ہر طرح کے ظلم کاخاتمہ اور مکمل انصاف کا قیام تو بہر حال لازمی اور یقینی ہے۔ مسئلہ فی الوقت صرف یہ ہے کہ ہم کدھر ہیں؟فرعونوں کے ساتھ یا دشمنانِ فرعون کے ساتھ؟ ہاں، بتاےئے ہم کدھر ہیں؟
جواب دیں