سوچتا ہے … علوم و فنون مٹی سے، تخم اور شاخیں مٹی سے، پھول پتے مٹی سے، شجر وحجر مٹی سے، فولاد و معدنیات مٹی سے….اور پھر سب مٹی ہوجاتے ہیں….حسن و شباب مٹی …جاندار و بے جان مٹی .. انسان بھی مٹی – چلئے عقدہ حل ہوا…. علم کا سر اونچا ہوا ….خرد کو سر خروئی ہوئی…….اسناد بانٹ دی گئیں …تحقیقات رنگ لائیں … دریافتیں قبولیاب ہوئیں … مٹی کو مٹی کر دکھایا گیا…. بے شمار” کوڈ ز ” اور اشارات متعارف کرادئے گئے …. اور انہیں مختلف مادوں سے منسوب کر دیا گیا…لیکن سوال تو پھر بھی یونہی بچے کا منہ چڑا رہا ہے اور بچہ مٹی کا …. مٹی کہاں سے آئی …. پانی کہاں سے آیا… پھر تحقیق کے جھنڈے گاڑ دئے گئے … بچے کو بتا دیا گیا کہ مٹی پا نی سب محلول … سب لائق تحلیل…. اور سب کسی نہ کسی عمل کے تحت اپنی ظاہری ہیت سے تبدیل ہوکر دھواں بن سکتے ہیں، بلکہ بن جاتے ہیں… بنتے آئے ہیں….لیجیے، سب کچھ دھویں سے تھا اور سب کچھ دھواں دھواں ہوا…… لا متنا ہی دھواں …بچے کے احساسات دھواں… بچے کے جذبات دھواں، عقل و خرد دھواں … بچہ جو انسان ہے … اور انسان جو نظام فطرت کے سامنے ابھی بچہ ہے…
بچہ سوچتا ہے….. آفات ناگہانی کیوں اور .کیسے آتی ہیں؟ … کیوں نہ سوچے… انسان جو ٹہرا….. جب جب آتی ہیں تب تب سوچتا ہے….جب نہیں آتی تو نہیں سوچتا…..اسکے پاس اچھے خاصے علوم ہیں سوچنے کے لئے….. زلزلہ میں زمین کے اندر کی سطحوں کا پھیلنا یا سمٹنا ، سکڑنا یا ٹکرانا ، مختلف تدریجی عمل سے گزرنا….. اور اپنے اثرات مرتب کرنا…..بچہ مختلف پیمانے یا "اسکیل” بھی کھوج لیتا ہے … اور زلزلوں کے دایرۂ اثر کا تخمینہ بھی بہ آسانی لگا لیتا ہے….زلزلوں کا عارضی مرکز بھی ڈھونڈ لیتا ہے، جبکہ پتہ نہیں کیوں دائمی مرکز اسکی سوچ سے بہت دور رہتا ہے! …… پھر کچھ اور زوردیتا ہے تو زمین کے اندر پیدا ہونے والے اس انتشار کا محرک بھی تلاش کرلیتا ہے ، اور یہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے کہ مختلف مائع، گیس اور محلول کا انتشار زلزلوں کا باعث بنتا ہے…. عقل و خرد کے گھوڑے کچھ اور دوڑا دئے تو اسے قوت و طاقت یا "اینرجی” کہہ کر علم و فن کی دھائی دے دی جاتی ہے…..اور کچھ نہ بن سکا تو سائینسی طاقت سے اسے موسوم کر دیا جاتا ہے ..انسان جو ٹہرا ….اور اگر خرد نے ذرا آگے جانے کی کوشش کی …اور کس کی طاقت اور کس کی قوت جیسے سوالات کے جوابات دینے پر آمادگی جتائی تو بچہ کا سر گھوم جاتا ہے … اور ونہیں جا پہنچتا ہے جہاں سے شروع کیا تھا …پھر سب کچھ دھواں دھواں …… کچھ اسی طرح زلزلہ کی علت و معلول کی زلف پیچاں بھی سنور جاتی ہیں ….اور اس کا اختام اینرجی، طاقت و قوت پر ہوجاتا ہے ..سائینس کی طاقت !!..لیجیے زندگی اور موت کا عقدہ حل ہوگیا…اور صرف تباہی اور بربادی کا تخمینہ لگانا باقی بچا….کچھ اسی طرح دیگر آفات نا گہانی کے عقدے بھی بچے نے حل کر لئے ….طوفان میں ہواؤں کی سازش اور برق میں گھٹاؤں سے انتشار ، آتش فشاں میں آگ کی سوزش …..مختلف عناصر و عوامل کا پریشاں ہونا بھی ثابت کردیا …..اور پھر انکے اجزائے ترکیبی و ترتیبی کے منتشر ہونے کو انرجی کا نام دے دیا…..الغرض علت و معلول کی طویل بحث کا اختتام بھی انجانی طاقت و قوت پر کردیا گیا…سائینس اور علم الطبیعات کی کرشمہ سازی کی حد بس یہیں تک تھی…. قصہ یہ سب سچا ہے اور کچھ کچھ تمام ہوا… اور اسی طرح زلزلوں کی قوت ثابت ہوئی …..بچہ سمجھدار کیا ہوا … زلزلے بھی اب تواتر سے آنے لگے …زلزلوں کے گزرجانے کے بعد انسانی احساسات و جذبات اور روحانیت کا دور دورہ شروع ہوتا ہے .. اسکا مظاہرہ بھی ضروری ہے .. بھلے وقتیہ ہی سہی…. بچہ آخر انسان ہی تو ہے…..محبت و مروت ، انسانیت اور جذبات و احساسات کا، امداد و ہمدردی کا ، عالمی انسانی مساوات و بھائی چارگی اور امداد باہمی کا مظاہرہ…..علوم و فنون، افکار و بیانات کی طاقت کا مظاہرہ ….. سیاسی، ملکی و عسکری قوت کا مظاہرہ…. اور جب جب ان طاقت و قوت اور علوم فنون کے ساتھ ادب و شاعری کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے تو بات عقل و خرد سے آگے نکل جاتی ہے ….
کہتے ہیں ادب کی پہنچ خرد سے آگے ہے ، بشرطیکہ بچہ بے ادب واقع نہ ہوا ہو ..اور شور و غل نہ کرنے لگے کہ…ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں… ادب تو یہی کہتا ہے کہ تم وہاں تک نہ پہنچے ہم جہاں تک آگئے…..ادب کی کوئی حد نہیں….اور انسان ادب کے شانے پر سوار ہوکر خرد سے آگے نکل جاتا ہے….. لیکن اگرایمان کی منزل پر پہنچ نہیں پاتا تو پھر سب دھواں دھواں…..افکارات دھواں..احساسات دھواں، جذبات دھواں …پھر نظریں دھواں دھواں اور تمنائیں لڑکھڑاتی ہیں…..کیا کیا جائے بچہ آخر کو انسان ہی ہے …اور انسان ابھی بچہ ہے نظام قدرت کے سامنے .لیکن ..”جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا …..تو کرلیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا..ادب کی بات مانے تو آفات ناگہانی میں اور خاصکر زلزلوں میں اس کی سوئی ہوئی رگ رگ پھڑک اٹھتی ہے…… محبت و رحم دلی کی رگ ……مساوات و بھا ئی چارے کی رگ …. انسانی حقوق و فرایض کی رگ …..خیر و خیرات کی رگ….. انسانیت و روحانیت کی رگ….پھر کچھ اور کرشمہ سازیوں کے دور چلتے ہیں… اور خوب چلتے ہیں کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو….پھر محبت فاتح عالم ہوجاتی ہے….ساری کدورتیں بھلا دی جاتی ہیں… سارے سیاسی قضیے نمٹا لئے جاتے ہیں…..درد و الم میں سب یکجا ہوجاتے ہیں ….. اور خوب ہوتے ہیں… پھر انسان و قتیہ طور پر ہی سہی مثل حباب آبجو رہتا ہے …. یہ سب کچھ نیا نہیں ہے لیکن عارضی ضرور ہوتا ہے… .. پتہ نہیں مہذب انسان کی ان رگوں کو پھڑکنے کے لئے قدرت کو کتنی بار زمین اور آسمان کے دروازے کھٹکھٹانے پڑیں گے …..یہ سب رگیں وقتیہ طور پر ہی کیوں پھڑکتی ہیں.. سب تکلفات بجا سہی لیکن عارضی کیوں ہیں .. دائمی کیوں نہیں…اور پھر سب کچھ ویسا ہی ہوجاتا ہے..جیسے پہلے تھا …وہی بے بضاعتی، وہی نفس پرستی، وہی بے نیازی، وہی مادہ پرستی، وہی بد عنوانی، وہی سیاسی و ملکی اور ذاتی خود غرضیاں.وہی مفادات و سیاست ..ساری خوبیاں پھر دھواں دھواں ہوجاتی ہیں …..بچہ کیا کرے… انسان جو ٹہرا … اور وہ بھی اکیسویں صدی کا …..وہ علت و معلول کی کسوٹی سے سب کچھ اخذ کرسکتا ہے، اور کارخانہ حیات کے تمام جاندار اور بے جان پرزوں کو مٹی مٹی کردیتا ہے، اور پھر علوم و فنون کی منزلیں طے کر انہیں پانی پانی کردیتا ہے …اور بالآخر دھواں دھواں …. وہ کیوں اور کیسے کی کنہ تک تو بہ آسانی پہنچ جاتا ہے.لیکن بھول جاتا ہے کہ یہ لا متنا ہی مادہ کی شکل میں دھواں کہاں سے آیا؟ کس نے بنایا …..اسکا علم و فن اسے پھر مادہ کی بھول بھلیوں میں لے جاتا ہے … مادیت پرستی کی بھول بھلیوں میں…جسکے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا…. بلکه سوچ ہی نہیں پاتا …. مہذب و متمدن جو ٹہرا…. لیکن اندر کہیں اسکا تحیر باقی رہتا ہے… تحیر جو ضمیر سے جڑا ہے….اور ضمیر روح سے… روح کو سب کچھ پتہ ہے … وہ عقل و خرد سے بے نیاز ہے…بس بول نہیں پاتی…..بتا نہیں سکتی… یہ اختیار اسے نہیں ہے……ورنہ تو سارے عقدے حل ہو گئے ہوتے…عقل و خرد کے پاس روح کی علت و معلول نہیں ہے، اور وہ اسکے وجود سے نہ انکار کر سکتی ہے اور نہ ہی اقرار ….اور نہ ا نکار ثابت کرسکتی اور نہ ہی اقرار…روح صرف ایمان کو جانتی ہے….اورایمان علت و معلول کا محتاج نہیں ہوتا …. ایمان صبر و تحمل کا پیکر ہوتا ہے … دائمی مساوات، بھا ئی چارگی اورانسانیت کا، درد مندی کا، احسان و شکر کا..وحدانیت کا….ایمان لا فانی ہوتا ہے….ایمان جو درد کو سمجھتا ہے اور دعا بن جاتا ہے… ایمان جو علم و فن و ادب کی طرح دھواں نہیں ہوجاتا…. مکر و غرور سے پاک ہوتا ہے…… خود غرضی اور انا و پندار سے پاک … توہم پرستی اور ایسی تمام برائیوں سے پاک..ایمان جو مختلف انسانی رگوں کو پھڑپھڑاتا رہتاہے…..انسانی خوبیوں کو جگاتے رہتا ہے …. ایمان کو پتہ ہے دھویں کے بعد کیا ہے… حیات و ممات کے بعد کیا ہے..اور ان سے پہلے کیا تھا ….عدم کیا ہے…. طاقت و قوت دراصل کس کی ہے ….عدم نفی ہے تو ثبات کیا ہے…… ثبات کسے ہے…… باقی کون ہے کون تھا اور کون رہے گا…..لیکن پھر وہی تک بندی کہ بچہ آخر کو انسان ہے…. اور انسان آخر کار بچہ ہی ہے… قدرت کے سامنے ….اسکی طاقت و قوت کے سامنے ..وہ لا محدود طاقت و قوت جسے وہ سائینسی علوم و فنون کے ترازو پر آسانی سے تول تو لیتا ہے، لیکن اسے سائینٹفک انرجی سے تعبیر کر کے محدود کردیتا ہے…….
سب کچھ دھواں ہورہا ہے اور یونہی ہوتا رہے گا…جب تک ایمان کا اجتماعی ہمہ وقت قیام نہیں ہوتا….جب تک ایمان مجسم دعا نہیں بن جاتا اور دعا مجسم ایمان نہیں ہو جاتی … پھر آفات نا گہانی بھلے ہی مشیت الہی کے تحت وارد ہوتی رہے…اور کارخانۂ حیات میں انسان با اختیار ہو کر بھی یونہی بے اختیار رہے…… خود کار مشینی پرزوں کی طرح بھلے ہی مجبور و بے بس رہے….. لیکن اسے اینرجی یا طاقت و قوت کا اصل سرچشمہ کہاں ہے اور کس کا ہے یہ معلوم ہونا چا ہیے….جب تک اسے یہ نہیں معلوم ہوتا عقل و خرد کی انتہا دھواں دھواں ہوتی رہے گی…زلزلے اور دیگر آفات ناگہانی یونہی آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی ….یہ اسوقت بھی آیا کرتی تھیں جب بچے کو اینرجی کی حجہ بھی نہیں پتا تھی، تابکاری کا نام و نشان نہیں تھا…..تحقیق و مشاہدات نے، ترقی و تمدن نے اور بارود و اسلح کی صنعتوں نے نظام قدرت کو چھیڑا نہیں تھا ….. تعمیراتی منصوبوں نے زمین کی چھاتی میں سوراخ نہیں کیے تھے ..پہاڑوں کے وقار کو پارہ پارہ نہیں کیا گیا تھا ، دریاؤں کو بربادی پر آمادہ نہیں کیا گیا تھا اور جنگلوں کو بے لباس نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی انسان نے سائینسی طاقت و قوت اور شان و شوکت کے نشے میں قدرت کو للکاراتھا…. قدرت کے پاس اپنی نشانیوں کو نمایاں کرنے اور بچے کو سبق سکھانے کے لئے بے شمار ترجیحات تھیں اور ہمیشہ رہتی ہیں … تب بھی زلزلے آتے تھے…. لیکن اس وقت بھی آج ہی کی طرح جرم و گناہ اور بے ایمانی کا بول بالا ہوا کرتا تھا…اس وقت بھی ا نسان مغرور ہوا جاتا تھا اپنے جہل میں، جیسے آج مغرور ہوا جاتا ہے اپنے علم میں….. ساینسی علوم غالیہ اور ادب عالیہ چاہے اپنی اپنی توجیہات پیش کرتے رہیں جو بجا ہیں ، چاہے سیاست و حکومت اور عوام یونہی عارضی امداد باہمی کا مظاہرہ کرتے رہیں یہ بھی بجا سہی ……مگر بچہ یونہی پریشان رہے گا… نظام قدرت کے سامنے …اسکی لا محدود قوت کے سامنے.. انسان آخر بچہ ہی توہے …..پتا نہیں یہ کب بڑا ہوگا…با ایمان اور ہونہار ہوگا!!…
جواب دیں