اقلیتوں کے دستوری حقوق اور ان کے نفاذ کی حقیقت؟

عارف عزیز(بھوپال)

ہندوستان میں آئین ودستور کی روسے اقلیتوں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ اتنی مثالی بلکہ ولولہ انگیز ہیں جتنی کہ دنیا کے کسی دوسرے دستور میں نہیں ملیں گی ہمارے آئین نے اقلیتوں کو مذہب، کلچر اور ضمیر کی پوری آزادی دے رکھی ہے اور یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ روزگار اور پیشہ وغیرہ کے معاملے میں ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان تفریق نہیں برتی جائے گی، اس کے علاوہ اقلیتوں کے لئے رات دن سرکاری طور پر جو اعلانات ہوتے ہیں یا ان کی فلاح وبہبود کے لئے جو منصوبے بنائے جاتے ہیں ان سے بھی اگر کچھ ظاہر ہوتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ہندوستان  جنت نشان میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کیلئے تو دودھ، گھی اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر ملک کی اکثریت ان سے محروم کردی گئی ہے۔
    حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے رنگا رنگ اور بہت سے گروہوں، فرقوں، نسلوں اور زبانوں کے دیش میں آزادی کے بعد جب دستور مرتب کرنے کا وقت آیا تو اقلیتوں کے مسائل کی ضرورت واہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دستور سازوں نے اقلیتوں کے واسطے مناسب تحفظات کا انتظام کردیا تھا مگر ۳۷ سال کے تجربہ سے اندازہ ہوتا ہے محض قانون اور عدالت کے وسیلہ سے حاصل ہونے والے حقوق کافی نہیں ہوتے کیونکہ اس مدت میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا پچھڑ کر دوسرے پس ماندہ طبقات تک پہونچ جانا اب کوئی راز نہیں رہا ہے جبکہ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے ۵۱ نکاتی پروگرام سے لے کر اقلیتی کمیشنوں تک کئی محاذوں پر کام ہوتا رہا ہے یا کم از کم یہ تاثر دینے کی کوشش  کی گئی ہے کہ ان کے ذریعہ اقلیتوں کے شام وسحر بدلنے والے ہیں۔
    وشوہندوپریشد، آر ایس ایس، شیوسینا یا ان کی حلیف دوسری جماعتوں کی طرف سے جاری اس پروپیگنڈہ کو کہ”ملک کی تمام تعمیر وترقی کے فوائد صرف اقلیتوں کیلئے محفوظ ہوکر رہ گئے تھے“ اسی لئے طاقت مل رہی ہے کہ عام لوگ دستور اساسی کی پالیسی اور حقیقی صورت حال کو ایک چیز سمجھ کر اس کے بارے میں فوراً یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو اطمینان وآسودگی کی وہ تمام باتیں میسر ہیں جو اکثریت کو بھی حاصل نہیں پھر بھی اقلیتیں حرف شکایت زبان پر لاتی ہیں تو یہ ان کی ہٹ دھرمی یا احسان فراموشی ہے، اس پروپیگنڈہ یا غلط فہمی کے بہت سے غیر فرقہ پرست عناصر اور خود اقلیتوں کے ایسے افراد بھی شکار ہیں جنہیں اپنی ترجیحی پوزیشن کے باعث فرقہ وارانہ تعصب کی چوٹ نہیں سہنا پڑتی اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں بلکہ جن کی خود غرضی نے ان کو جھوٹ بولنے اور خوشامد کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ 
    ایسے لوگوں کے سامنے جو آنکھیں او ر ضمیر رکھتے ہوں چھوت چھات کی مثال کافی ہونا چاہئے کہ ملک کے دستور میں چھوت چھات کی قطعی ممانعت کے باوجود کیا کوئی شخص اس بات سے انکار کرسکتا ہے ہندوستان میں اب اچھوتوں کے نام سے کوئی طبقہ نہیں رہ گیا اور کسی کے خلاف روزہ مرہ کے رہن سہن میں نسل ومذہب  کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔
    درحقیقت ہمارے ملک کا دستور بھی اپنے نفاذ کیلئے دوسرے افراد اور اداروں کامحتاج ہے اگر یہ افراد اور ادارے صحیح شعور اور دیانت داری کے ساتھ اس پر عمل درآمدنہیں کرتے تو دستور کی اچھی سے اچھی دفعہ عوام کے لئے مفید نہیں ہوسکتی مگر اس سچائی کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو سمجھنا چاہیں جن کی آنکھیں بند ہیں ان کے لئے یہ تمام دلائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔(یو این این)
wwww.arifaziz.com
E-mail:[email protected]
Mob.09425673760

 

«
»

عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹاجائے؟

ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے