ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں دردناک موت کے خلاف تشدد میں کمی آئی مگر احتجاج امریکہ کے حدود سے نکل کر دنیا کے کئی ممالک تک پھیل گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے چین پر اس تشدد کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا اور خود وائٹ ہاؤز کے بنکر میں کچھ دیر کے لئے روپوش ہوگئے تھے جس کا ساری دنیا میں مذاق اڑایا گیا کہ سوپر پاور کے سوپر پریسیڈنٹ کس قدر بہادر ہیں۔ مذاق اڑانے والے اس حقیقت کو بھول گئے کہ جتنے ظالم ہوتے ہیں وہ بزدل ہوتے ہیں۔ اپنی بزدلی کو چھپانے کے لئے وہ دوسروں کو ڈرانے دھمکانے لگتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب امریکہ انسانی حقوق کے تحفظ کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور خود سب سے زیادہ انسانیت کو تہہ تیغ کردیتا ہے‘ سیاہ فام کی ہلاکت نے اس کی عالمی قیادت پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ ویسے امریکہ کا اندرون ملک ریکارڈ بہت ہی خراب ہے۔ دو ملین سے زائد شہری امریکہ کی اسٹیٹ اور فیڈرل جیلوں میں قید ہیں۔ اکتوبر 2019ء کے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 45ملین افراد پر یا تو مقدمات چل رہے ہیں یا ان میں سے اکثریت پیرول پر ہیں۔
خواتین کے خلاف جرائم میں گذشتہ 40برسوں کے دوران 700فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تیس ریاستوں میں سزائے موت کا قانون برقرار ہے۔ سیاہ فام شہریوں کی آبادی 13فیصد ہے‘ مگر جیلوں میں یہ 40فیصد ہے۔ ڈرگس کے استعمال یا اسمگلنگ گورے اور کالے دونوں ہی کرتے ہیں مگر کاروائی زیادہ تر کالے امریکیوں کے خلاف ہوتی ہے۔ پولیس‘ دہلی اور یوپی پولیس سے کم نہیں۔ اکتوبر 2019ء تک 876 ہلاکتیں پولیس کے ہاتھوں ہوچکی تھیں جن میں سیاہ فام شہریوں کا تناسب 39فیصد ہے۔ نابالغ افراد کو بھی جیلوں میں رکھا جاتا ہے، کم و بیش 32ہزار نوجوان جن کی عمر 18برس سے کم ہے جیلوں میں ہے۔ ایسے لوگ جنہیں شہریت کے حقوق حاصل نہیں ہے‘ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ امریکن پولیس ایسے شہریوں کو ان کے بچوں سے علیحدہ کردیتی ہے۔ یہ تو اندرون ملک واقعات ہیں‘ بیرونی ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے خلاف امریکہ کا رویہ کیسا رہا؟ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں کہیں مسلم ممالک کی معیشت مستحکم ہے وہاں کسی نہ کسی بہانے سے یہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں قدرتی وسائل ہیں‘ تیل اور گیاس کے ذخائر ہیں‘ ان پر قبضوں کے لئے دو مسلم ممالک کو آپس میں لڑانے کی پالیسی رہی ہے اس سے ان کے ہتھیار بھی آسانی سے فروخت ہوجاتے ہیں۔ ہر دس سال بعد مالی بحران کا بہانہ کرکے یہ عرب ممالک سے کئی کئی بلین ڈالرس رقم اینٹھ لیتے ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، افغانستان اتنے ہی ملکوں کو امریکی فوجی درندوں نے تباہ و برباد کیا۔ وہاں اپنے اڈے قائم کردیئے اور اُن تباہ حال ملکوں کی تعمیر نو کے لئے امریکی کمپنیاں ہی ٹھیکے حاصل کرتی ہیں۔
امریکہ کی تاریخ میں ایسا کوئی صدر نہیں آیا جو مسلمانوں کا ہمدرد یا دوست رہا ہو! بارک حسین اوباما کے نام سے امریکی صدر کے عہدہ کا حلف لینے والے نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ٹرمپ کی کامیابی مسلم دشمنی کی بنیاد پر ممکن ہوسکی۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ ایسے ظالم حکمرانوں کو ان کی اپنی زندگی میں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ ٹرمپ ذلت و رسوائی کے جس دور سے گذر رہے ہیں‘ وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ چین کے ساتھ ان کی خلش یا ٹکراؤ کو سوپر پاور کا مقام حاصل کرنے کی جنگ سمجھا جارہا ہے۔ چین اپنی جگہ ایک سوپر پاور ضرور ہے‘ امریکہ میں اس کے پروڈکٹس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر عمل مشکل ہے۔ کیوں کہ اس سے دونوں ممالک کو نقصان پہنچے گا۔ چین بیک وقت امریکہ اور ہندوستان دونوں سے چھیڑ خوانی کررہا ہے۔ امریکہ داخلی مسائل، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد کے حالات، بلیک امریکن کی ہلاکت کے بعد پُرتشدد واقعات میں الجھ گیا ہے اور اسے حالات پر قابو پانے کے لئے وقت لگے گا۔ صدر ٹرمپ کی عوام میں اور خود ان کی اپنی حکومت میں اہمیت باقی نہیں رہی۔ وزیر دفاع نے دامن جھٹک لیا، پولیس سربراہ نے بکواس بند کرو کہہ دیا۔ اور خود WWE مقابلہ کرنے والے ریسلنگ رنگ میں دوسروں کو پچھاڑنے والے اپنی جان بچانے کے لئے کس طرح سے بنکر میں دُبک گئے تھے۔ اُسے یاد کرکے وہ خود لرزجاتے ہوں گے۔ چین نے امریکہ کی حالت پر تنقید کی مگر خود انسانی حقوق جس طرح سے وہ پامال کررہا ہے‘ وہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ ایغور مسلمانوں کی اذیت رسانی ڈیٹنشن سنٹر میں انہیں پہنچائی جانے والی تکالیف سے کوئی واقف ہو نہ ہو OIC ضرور واقف ہے۔ حالانکہ OIC کے تمام 57ممالک نے کھل کر مسلم دشمنی پالیسیوں کی مذمت نہیں کی پھر بھی ترکی اور البانیا نے جو OIC کے رکن ہیں‘ ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی اقوام متحدہ کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی وکالت کی ہے اور قطر نے بھی دبے لب و لہجہ میں اعتراض کیا ہے۔
چین نے نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ جمہوریت پسندوں پر بھی مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ نسلی اور مذہبی اقلیتیں اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ صحافت کی آواز خاموش کردی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں پر پابندی ہے۔ اس لئے اگر وہ امریکہ پر تنقید کرتا ہے تو دنیا اُس سے بھی سوال کرسکتی ہے۔ چین نے ہندوستان کے ساتھ سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس نے تبت کے کے مقامی عوام کے علاوہ وہاں کے لڑاکا جوانوں کو خود ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ہندوستانی حکومت کا رویہ چین کے خلاف سہما ہوا ہے۔ ایک پڑوسی ملک پاکستان کی جانب سے اگر کسی قسم کی سرحد کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو میڈیا کے ذریعہ انکاؤنٹرس اور ہلاکتوں کی خبریں بھی آتی ہیں۔ دہشت گردی کو بڑھاوے دینے کے الزام کے تحت اس کے ساتھ تقریباً ہر شعبے میں تعلقات ختم کئے جاچکے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستانی سپاہیوں کو یرغمال بناتا ہے‘ ان کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔ کئی کیلو میٹر اندر داخل ہوکر بنکرس بنالیتا ہے۔ اپنی فوجی تعداد میں اضافہ کرلیتا ہے۔ اور ہندوستان ردعمل کے طور پر بات چیت کے ذریعہ اختلافات اور مسائل کو حل کرنے کی بات کرتا ہے بلکہ بہت ہی نرم لب و لہجہ میں کہا جاتا ہے کہ چینی کمپنیوں کو ہندوستان میں داخلہ کی اجازت دی جائے۔ دو پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارا رویہ ایک دوسرے سے جداگانہ ہے۔ ہم نے پاکستانی فنکاروں کا بائیکاٹ کیا۔ اسپورٹس کے تعلقات ختم کئے۔ مگر ہم چینی پروڈکٹس کو بائیکاٹ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے اگرچہ کہ بعض شخصیات نے یو ٹیوب چیانلس کے ذریعہ چینی Apps کو اپنے موبائل فون سے نکال دینے کی مہم چلائی ہے‘ اَیپس تو نکل جائیں گے مگر جس فون سے انہیں نکالا جارہا ہے وہ موبائل فون میڈ اِن چین ہے اس کا کیا کیا جائے۔ ویسے بھی کسی ملک کے پروڈکٹس کے بائیکاٹ کی اپیلیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ مسلمانوں نے ڈنمارک کے پروڈکٹس کے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ ڈنمارک پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ا سی طرح چین نے جاپانی پروڈکٹس کیخلاف مہم چلائی جاپان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہندوستان چین پروڈکٹس کے بائیکاٹ کا صرف اعلان کرسکتا ہے اس پر عمل نہیں کرسکتا کیوں کہ ہم بہت سے معاملات میں خود کفیل ہونے کے باوجود چینی پراڈکٹس سے محتاج ہوگئے ہیں۔ ایر انڈیا کے بوئنگ طیاروں کے پارٹس بھی چین ہی فراہم کرتا ہے۔ حتیٰ کہ Make in India کا نعرہ لگانے کے باوجود ہم نے سردار پٹیل کا مجسمہ اپنے مزدوروں کی مدد سے ایستادہ تو کیا مگر اسے چین کی Jiangxi Tongqing Metal Handicraft نے 85ملین ڈالر کی لاگت سے بنایا۔
کنزیومر مارکٹ میں چین کی ادارہ جاری ہے۔ جانے کتنے پروڈکٹس ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں چین کی جانب سے فراہم کئے جاتے ہیں۔ جن پر ان ممالک کا لیبل لگ جاتا ہے۔ بہرحال ہند۔چین کے درمیان جو بھی ہورہا ہے وہ اس لحاظ سے زیادہ تشویشناک نہیں ہے کہ ہندوستان نے مصالحتی رویہ اختیار کیا ہے۔
ہم نے اوپر امریکہ اور چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے لگے ہاتھوں اپنے گریباں بھی جھانک کر دیکھیں‘ حالیہ عرصہ کے دوران جارج فلائیڈ جیسے کتنے اقلیتی نوجوان کبھی پولیس کے ہاتھوں کبھی سیکوری ٹی فورسس کے ہاتھوں تو کبھی کٹر ہندوتوا کی حامیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ امریکہ میں اس لئے احتجاج ہوا کہ وہاں اتحاد بھی ہے‘ اور احتجاجیوں کو کچھ کارپوریٹ سیکٹر تو کچھ سیاسی جماعتوں کی مدد بھی شامل ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو سوائے خدا کے کون ہے؟ خود ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں‘ کتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ کتنے بے قصور اب بھی جیلو ں میں بند ہیں‘ لاک ڈاؤن میں قائدین وائرس کے بہانے اپنے اپنے منہ چھپائے ٹرمپ کی طرح بنکرس میں روپوش رہے ہیں۔یہ کمزوری مسلم دشمن طاقتوں کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گولی مارو….. کا نعرہ لگانے والوں، گولی چلانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی اور پُرامن احتجاج کرنے والے دیش سے غداری کے الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے پہنچادیئے جاتے ہیں۔ اب تو ہم اس قدر بے حس اور مردہ ہوچکے ہیں کہ اطراف کے حالات اور واقعات کو ایک ڈاکومنٹری فلم کی طرح دیکھتے ہیں اور جی بھرجاتا ہے تو ریموٹ سے چیانل بدل لیتے ہیں!
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
08جون2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں