اس موقع پرعوام کوبیوقوف بنانے کے لیے اخبارات میں سنسنی خیزسرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہوتی ہیں جسے پڑھ کرلوگ تھوڑی دیرکے لیے ورطۂ حیرت میں پڑجاتے ہیں۔بعدمیں پتہ چلتاہے کہ آج یکم اپریل ’’اپریل فول‘‘ہے ۔ا س کے حرام ہونے میں کسی مسلمان کوذرہ برابرتذبذب کاشکارنہیں ہوناچاہیے اس لیے کہ اس میں جن امورکاارتکاب کیاجاتاہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔
اپریل فول منانے کاآغازکب ہوااورکیسے ہوا۔ا س سلسلے میں مختلف توضیحات وروایات ہیں۔البتہ اس حوالے سے کوئی پختہ تاریخی شہادت سامنے نہیں آئی ۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اپریل فول مغربی تہذیب اوریہودونصاریٰ کی دین ہے ۔ا س سلسلے میں جوروایات کتب تواریخ اوراخبارات میں موجودہیں ان میں سے چندحاضرخدمت ہیں:
(۱)انسائیکلوپیڈیاآف برٹانکااورانسائیکلولاروس کامصنف اپریل فول کی وجہ ایجادیہ لکھتاہے کہ ’’جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکرلیااوررومیوں کی عدالت میں پیش کیاتورومیوں اور یہودیو ں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مذاق ،تمسخر، استہزا اور ٹھٹھاکیاگیا۔ان کوپہلے یہودی سرداراورعلماکی عدالت میں پیش کیاگیا پھر پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ فیصلہ وہاں ہوگا،پھروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں پیش کیاگیاپھرہیروڈیلس سے پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا،ایسامحض معاذ اللہ تفریحاً کیاگیا‘‘۔
(۲)لوقاکی انجیل میں اس واقعے کویوں بیان کیاگیاہے ’’جب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیے ہوئے تھے تویہودان کی آنکھیں بند کرکے منھ پرطمانچہ مارکرٹھٹھاکرتے تھے ۔ ان سے یہ کہتے تھے کہ نبو ت یعنی الہام سے بتاکہ کس نے تجھے مارا۔ا س کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ کہتے تھے‘‘۔ (معاذ اللہ)
(۳)فریدی وجدی نے اپنی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ ’’میرے نزدیک بھی اپریل فول کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری ،ان کی شان میں توہین ،ان کے ساتھ مذاق اورتکلیف پہنچا نے کی یادگارہے‘‘۔
(۴)اردوکی مشہورلغت ’’نوراللغات‘‘۱/۲۴۱میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نورالحسن نیرلکھتے ہیں :’’اپریل فول انگلش کااسم ہے اس کامعنیٰ اپریل کااحمق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں دستور ہے کہ اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط،خالی لفافے میں یااوردل لگی کی چیزیں لفافے میں رکھ کربھیجتے ہیں۔ اخبارو ں میں خلاف قیاس خبریں چھاپی جاتی ہیں۔جولوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یااس قسم کی خبرکومعتبرسمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول قرارپاتے ہیں۔ اب ہندوستان میں بھی اس کارواج ہوگیاہے اورانہیں باتوں کواپریل فول کہتے ہیں‘‘۔نوراللغات کی اس توضیح سے یہ ثابت ہوگیاکہ اپریل فول انگریزوں کادستورہے اورانگریزوں کادستوراپنانامسلم قوم کے لیے حرام ہے ۔
اپریل فول کی حقیقت کے تعلق سے یہ زمانۂ قدیم کے تاریخی شواہدتھے۔ماضی قریب میں بھی اس طرح کے واقعات یہودیوں اورنصرانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ انجام دیے جواپریل فول سے تعلق رکھتے ہیں۔اگرکوئی مغربی تہذیب کادلدادہ دریدہ دہن ان توضیحات او ر واقعات کی بنیادپراپریل فول کوغلط تصورنہیں کرتاتوفی نفسہ ا س دن جو امورانجام دیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ تمسخر، استہزا، جھوٹ ،فریب اورایک دوسرے فردیاجماعت کی ہنسی بناناحرام ہے۔ایک دوسرے کی ہنسی مذاق بنانے والوں کوقرآن متنبہ کرتاہے ۔ ترجمہ:اے ایمان والو!مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا ہنسی مذاق نہ اڑائے ۔شایدوہ ان مذاق اڑانے والوں سے (اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے بارگاہ الٰہی میں)بہترہوں اورعورتیں دوسری عورتوں کامذاق نہ اڑایاکریں ،شایدوہ ان سے بہترہوں اورنہ ایک دوسرے پرعیب لگاؤ اورنہ کسی کوبرے القاب سے آوازدو۔(سورۂ حجرات: آیت ۱۱) اس دن جھوٹ بکثرت بولاجاتاہے۔جھوٹ بولناحرام ہے گناہ کبیرہ ہے
اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق ،تمسخر،استہزا،جھوٹ ،دھوکہ ، مکروفریب ،وعدہ خلافی ،بددیانتی اورامانت میں خیانت وغیرہ وغیرہ امورانجام دیے جاتے ہیں۔یہ سب مذکورہ فرمان الٰہی اورفرمان رسالت کی روشنی میں ناجائزوحرام ،خلاف مروت ،خلاف تہذیب اور ہندوستان کے سماج ومعاشرے کے خلاف ہیں لیکن افسوس صدافسوس مسلمانوں پرکہ جنہیں خیرامت کاسرٹی فیکٹ ملاہے جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہووہ قوم خداورسول کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکرتی ہے ۔آج قوم مسلم اپنے ازلی دشمن یہودو نصاری کے جملہ رسم ورواج ،طرزعمل اورہرقسم کے فیشن کونہایت ہی فراخ دلی سے قبول کررہی ہے۔مسلم نوجوان اسلامی تعلیمات سے اس قدربے بہرہ ہیں کہ وہ دنیاوی امورمیں جائزناجائزکاخط فاصل نہیں کھینچ سکتے۔اگرکسی مسلمان کے بائیں ہاتھ میں مکمل دنیاہوتو دائیں ہاتھ میں مکمل دین ہوجس سے دنیاوآخرت میں کامیابی و کامرا نی سے ہم کنارہوں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوۂ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے اوریہودونصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین(ماخوذ:ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی،اپریل ۲۰۱۲ء۔از:فہیم احمدثقلینی ازہری )
جواب دیں