اپنے روزوں کی شیطان سے حفاظت کیجیے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

شیطان ہر انسان کے ساتھ لگا ہے۔اس نے اللہ تعالیٰ کو چیلینج دے رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں کو راہ راست سے بھٹکاؤں گا۔حضرت آدم ؑ کے ساتھ شیطان کو بھی زمین پر اتارا گیا تھا۔اس دن سے آج تک ابلیس و آدم ؑکی کشمکش جاری ہے۔ابلیس کئی طرح سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ انسان کو گناہ کی دعوت دیتا ہے،اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتا ہے،نیکی کرنے نہیں دیتا،اور اگرکوئی باہمت انسان اس کے دام فریب سے بچ کر کوئی نیکی کرلیتا ہے تو اس کی نیکی کو برباد کرنے کے لیے پوری طاقت لگادیتا ہے۔ان حربوں میں ریا کاری،نیکی پر تکبر کرنا،اور احسان جتانا شامل ہیں۔اس لیے اپنی نیکیوں کی حفاظت کیجیے۔یہ سرمایہ بہت قیمتی ہے۔یہ وہ سکہ ہے جو حشر میں چلے گا۔قرآن مجید میں ارشاد باری ہے۔
”اے ایمان والو! تم احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے (محض) لوگوں کے دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یومِ قیامت پر، سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر کچھ مٹی آگئی ہو پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے، سو  اس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالی کافر لوگوں کو (جنت کا) راستہ نہ بتلائیں گے۔(سورہ بقرہ 264)“
ہر کام کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ہم عبادت کریں اور اس عبادت کے آداب کا لحاظ نہ رکھیں تو عبادت کا بھر پور ثواب نہیں ملے گا،وہ نتائج نہیں نکلیں جو مطلوب ہیں،موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد نماز پڑھنے کے باوجود بے حیائی کے کاموں سے باز نہیں آتی جب کہ نماز بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے،اسی طرح روزہ رکھنے کے باوجود ایک بڑی تعداد تقویٰ کی صفت سے محروم ہی رہتی ہے۔جب کہ روزے کا مقصد ہی تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔اس کا سبب یہی ہے کہ ہم ان عبادات کے آداب کا خیال نہیں رکھتے۔اہل علم نے روزہ کے پانچ آداب بیان کیے ہیں:
۱- نگاہ کی حفاظت:انسانی اعضاء میں نگاہ کو دل کا راستہ کہا گیا ہے اور بدنگاہی قابل سزا جرم ہے۔حالت روزہ میں نگاہ کسی غلط جگہ پر نہ پڑے یہاں تک کہ بیوی پر بھی شہوت کی نگاہ نہ پڑے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ”نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا، میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا“۔ (طبرانی)
۲- زبان کی حفاظت:کسی بھی نیکی کو کرنے یا اس نیکی کو برباد کرنے میں زبان کا اہم رول ہوتا ہے۔زبان کا صحیح استعمال باعث حصول ثواب اور اس کا غلط استعمال باعث وعید ہے۔اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو! مطلب یہ ہے کہ بولنے سے پہلے اس کے نتیجہ پر کئی بار غور وفکر کرو، کیوں کہ ہمارے الفاظ ہماری تربیت کا صحیح پتا دیتے ہیں۔زبان کی خوبیاں بھی بہت سی ہیں،اور برائیاں بھی،چاہے تو انسان اس کا صحیح استعمال کرکے اپنی آخرت آباد کرلے اور چاہے تو برباد بھی کرلے۔احادیث میں زبان کی حفاظت کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔روزے دار کے لیے زبان کی حفاظت مزید ضروری ہے۔کیوں کہ روزہ رکھ کر انسان کی زبان کے پھسلنے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔
 حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ کو دو چیزوں کی ضمانت دے دے، ایک جو اس کے جبڑوں کے درمیان ہے اور ایک چیز جو اس کے پیروں کے درمیان ہے، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں“۔(بخاری)
حضرت سفیان بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالتؐ میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو آپؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، ”اسے۔“ (ترمذی)
زبان کی حفاظت میں جھوٹ، چغل خوری، لغو،بکواس، غیبت وبدگوئی، بدکلامی، جھگڑا وغیرہ سب چیزیں داخل ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے،اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے کوئی فحش، جہالت کی بات نہ نکالے۔ اگر کوئی دوسرا جھگڑنے لگے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے اور اگر وہ بے وقوف نا سمجھ ہو تو اپنے دل کو سمجھا دے کہ تیرا روزہ ہے تجھے ایسی لغویات کا جواب دینا مناسب نہیں، بالخصوص غیبت اور جھوٹ سے تو بہت زیادہ بچناضروری ہے۔ 
نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا، روزہ میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت بن گئی، ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں، صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا تو حضور ؐ نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور دونوں کو اس میں قے کرنا کا حکم فرمایا، دونوں نے قے کی تو اس میں گوشت کے ٹکڑے اور تازہ کھایا ہوا خون نکلا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی تو حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ دونوں عورتیں لوگوں کی غیبت کرتی رہیں۔
۳-کان کی حفاظت: ہر وہ بات جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائزہ ہے اس کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صرف و صرف جا ئز باتیں سنیں۔ مَثَلاً کانوں سے تلاوت و نعت سنئے، تقاریر و خطابات سنیے، اَذان و اِقامت سنئے اور سن کر جواب دیجئے، بے ہودہ گانے اور موسیقی نہ سُنئے، کسی کی غیبت،چغلی اور کسی کے عیب نہ سنئے اور جب دو آدمی چھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ سنئے۔نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنے حالانکہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوں یا اس بات کو چھپانا چاہتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جا ئے گا۔ (بخاری)
۴- باقی اعضاء بدن کی حفاظت: جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اس کا پورا جسم روزے سے ہوتا ہے مثلاً اس کا ہاتھ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کو شریعت میں گناہ کہا گیا ہو،وہ ظلم کے لیے نہیں اٹھتا، اس کے پاؤں کسی ایسی جانب نہیں بڑھتے جہاں جانا خلاف سنت و شریعت ہو۔اس کے پیٹ میں حرام تو دور مشتبہ مال بھی نہیں جاتا۔اس لیے کہ جو شخص روزہ رکھ کر حرام مال سے افطار کرتا ہے اُس کا حال اُس شخص کا سا ہے کہ کسی مرض کے لیے دوا کرتا ہے مگر اس میں تھوڑا سا زہر بھی ملا لیتاہے کہ اس مرض کے لیے تو وہ دوامفید ہوجائے گی مگر یہ زہر ساتھ ہی ہلاک بھی کردے گا۔
۵-کم کھانا:افطار کے وقت حلال مال سے بھی اتنا زیادہ نہ کھانا کہ پیٹ اتنا بھر جائے کہ سانس لینے میں تکلیف ہو، اس لیے کہ روزہ کی غرض اس سے فوت ہوجاتی ہے۔ مگر ہم لوگوں کا حال ہے کہ افطار کے وقت تلافئ مافات میں اور سحر کے وقت حفظ ما تقدم میں اتنی زیادہ مقدار کھالیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے اور بغیر روزہ کی حالت کے اتنی مقدار کھانے کی نوبت بھی نہیں آتی۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
 عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: إذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلَا یَرْفُثْ یَوْمَءِذٍ وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ شَاتَمَہُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَہُ فَلْیَقُلْ: إنِّی امْرُؤٌ صَاءِمٌ،(مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ.)
 حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کوئی بری بات زبان سے نہ نکالے اور نہ شور و ہنگامہ کرے اورنہ جھگڑا کرے،اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی پر آمادہ ہوتو اس کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا:
”مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ، فَلَیْسَِ للہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَہ وَ شَرَابَہ..(بخاری)
”جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔“
یعنی روزہ کی حالت میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارے کسی عضو سے بھی کوئی گناہ صادر نہ ہو،گویا جب ہم روزے سے ہیں تو ہماری آنکھ کا بھی روزہ ہو،ہمارے کان کا بھی روزہ ہو،ہمارے ہاتھ پاؤں کا بھی روزہ،ان اعضاء کا روزہ یہی ہے کہ ان سے کوئی گناہ صادر نہ ہوں۔
آج کل موبائل کا زمانہ ہے،ہمارے بعض افراد وقت گزارنے کے لیے موبائل پر فلمیں دیکھنے لگتے ہیں،وہ کہتے ہیں فلم دیکھنے سے روزہ کٹ جاتا ہے،اور محسوس کم ہوتا ہے جب کہ ان کا یہ عمل ان کے روزے کو فاقے میں بدل دیتا ہے۔فلم دیکھنے سے ان کی آنکھ،کان،دل اور دماغ سب گناہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔اس لیے ان تمام باتوں سے پرہیز کیجیے جو روزے کے اجر وثواب کو کم کرتی ہوں۔

 

«
»

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ: بحیثیت انسان

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل‎‎

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے