اپنے گھر سے حبیب کے گھر ، عشق ، احساسات ، جذبات ، کیفیات

محمد ارفع ندوی

انسان جب کوئی ارادہ کرتا ہے ، تو اسے روبہ عمل لانے کی حد درجہ کوشش کرتا ہے، بس اس کے لیے مضبوط ارادےاور سچی تڑپ کے ساتھ ساتھ ہر مصائب سے لڑنے کی طاقت ہو۔ عربی چہارم میں استادِ محترم جب حج و عمرہ کے ابواب پڑھانے لگتے، خصوصاً احرام، طواف اور سعی ، اس وقت ایک مجنونانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ عربی چہارم سے لے کر ندوۃ العلماء میں فضیلت تک میں نے تقریباً تین سے چار بار عمرہ کے لیے کوششیں کیں؛ لیکن ہربار کسی نہ کسی وجہ سے میری خواہش حسرت ہی رہ جاتی ۔ ایک مرتبہ تو اسباب بھی مکمل تھے اور والد صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ اس مرتبہ کی چھٹیوں میں نکلنا ہے لیکن خدا کو منظور نہیں تھا۔

اسی سال میرے ایک قریبی دوست نے کہا کہ اس سال میرا عمرے کا ارادہ ہے، بس اتنا کہنا تھا کہ میرے دل میں دبی خواہش کہ چنگاری شعلہ کی شکل اختیار کرگئی، مجھ پر ایک جنوں سا سوار ہونے لگا کہ ان شاءاللہ اس مرتبہ جانا ہی ہے۔ اب نہ اسباب تھے نہ وسائل۔

جب خواہش حد سے بڑھنے لگی اور جانے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا، تو میں اپنے اعمال پر نظر دوڑانے لگا، کہ ایسا کونسا عمل ہے کہ جس کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں، ایک ایک کرکےاپنے سارے گناہ نظر کے سامنے آنے لگتے ہیں، اپنے وجود پر ہی شرمندگی سی ہونے لگتی ہے۔

شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں، سر جھکا کر نم آنکھوں سے خدا کو یاد کرتا ہوں، اور خود سے بار بار یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا میں مدینہ منورہ جانے کے لائق بھی ہوں؟ پھر والد صاحب کی طرف سے اجازت بھی ملتی ہے، اب گتھی سُلجھنے کہ بجائے اُلجھتی ہی جارہی تھی، نہ وہاں رہنے کا انتظام، نہ جدہ ائیرپورٹ سے مکہ مکرمہ جانے کا کوئی نظم۔ بعض قریبی رشتہ داروں نے تو اکیلے جانے سے صاف منع ہی کردیا تھا، اب انھیں کیا پتہ کہ جب کوئی عاشق اپنے معشوق کی ملاقات کے لیے جائے تو تنہا جانا ہی پسند کرتا ہے اور اکیلے ہی ملاقات کا شوقین ہوتا ہے۔ عاشق جب اپنے معشوق سے ملاقات کا شوقین ہوتا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھتا کہ کہ راستے میں کیا کیا مصیبتیں اور رکاوٹیں آئیںگی بلکہ اس کے لیے تو ان راہوں کے مصائب فرحت کا سبب بنتے ہیں، اور رُکاوٹیں محبوب کے عشق میں اور دیوانہ بنا دیتی ہے۔ دل اگر کسی جانب مائل ہوجائے اسے محبت کہتے ہیں، اور یہی محبت اگر شدت اختیار کرلے تو اسے عشق کہتے ہیں، اور یہ عشق ہی ہے جو کبھی طوفان کا سامنا کرتا ہے اورکبھی فرعون جیسے بادشاہ کا مقابلہ، کبھی بےخوف و خطر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے، اور عقل اِسے تکتی ہی رہ جاتی ہے۔

 

بےخطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

 

بہرحال یہ عشق کا سفر شروع ہوا۔  جب میں ممبئی سے جنگلوں اور پہاڑوں کی خاک چھانتا ہوا، سمندر اور دریاؤں کو چیرتا ہوا جدہ پہونچا۔ شوق اور بےتابی اور بڑھنے لگی۔ اور بھی عاشق تھے جو اپنے معشوق کے لیے بےتاب تھے ۔ ہرکوئی سفید چادر سے اپنا بدن ڈھانپے ہوئے تھا، نہ سرپر کوئی ٹوپی، نہ بدن پر کوئی کرتا،  فقیرانہ صورت … نہ خوشبو نہ زینت، ایک مجنونانہ ہیئت، جو کرب و بےچینی کے کمال کو ظاہر کررہی تھی۔ اور ہر کوئی لبیک اللھم لبیک کی صدا لگا رہا تھا۔ اسی بےچینی اور اضطراب کے نالہ و فریاد کے ساتھ آخر میں محبوب کے شہر تک پہونچ جاتا ہوں۔

ڈھونڈتے ڈھونڈتے جاپہونچے ہم اس کے گھر تک

دل گم گشتہ میرے حق میں تو رہبر نکلا

 

جذبۂ دل نے آج کوئے یار تک پہونچادیا

جیتے جی میں گلشن جنت میں داخل ہوگیا

 ایک کھویا ہوا دل جس کے دل میں واقعی زخم محبت ہو، جب وہ محبوب کے گھر پہونچ جاتا ہے تو اس پر کیا گذرتی ہے اور وہ کیا سوچتا ہے۔ یہ چیزیں الفاظ سے تعبیر نہیں ہوسکتی!

تاب نظارۂ معشوق کہاں عاشق کو

غش نے موسی کو سرِ طور سنبھلنے نہ دیا

اس کے بعدجو حرکتیں وہ کرتا ہے، وہ ایک عاشق ہی کرسکتا ہے۔کبھی محبوب کے گھر کا چکر کانٹنا، اور کبھی اس کے در و دیواراور چوکھٹ کو چومنا، پھر اس سے اپنی آنکھوں کو مَلنا، پھر اس سے سرکو رگڑنا، کبھی کعبہ اور اس میں لگے کالے پتھر کو چومنے کے لیے اپنی جان کو لگانا۔ یا پھر صفا و مروہ کے درمیان پاگلوں اور دیوانوں کی طرح دیوانہ وار دوڑنا۔ اس وقت نہ سورج کی گرمی کا احساس ہوتا ہے نہ پتھریلی زمین کی سختی ستاتی ہے۔ پھر اس زم زم کو بار بارپینا اور اسے محبوب کی نسبت سے اپنے چہرے پر لگانا، شریرپر ڈالنا، بدن پر مَلنا، پھر بھر بھر کر اپنے ساتھ رکھنا، اور پھر اپنے بال کو محبوب کے لئے کاٹنا، اور مونڈنا۔ کیا یہ عشق نہیں ہے؟ پھر کعبہ شریف کے پردے سےلپٹنا بھی اسی عاشقی کا خاص منظر ہے، محبوب کے دامن سے چمٹنا بھی عشق کے مظاہر میں سے ایک خاص مظہر ہے۔ پھرکعبہ کی دیوار پر اپنے چہرے کو لگانا اس دیوار کو چومنا، کیا یہ عشق نہیں ہے؟

’’ امر علی الدیار دیار لیلی   أقبل ذا الجدار وذا الجدار

یہ کچھ مناظر ہیں جو عاشق اپنے معشوق کے لیے کرتا ہے، جو عشق سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے دل میں اگر ذرا سی بھی چوٹ ہوگی، کوئی زخم لگا ہوگا، دیوانگی سے کوئی وابستہ ہوگا وہ ان اشارات  کے وہاں پہونچ کر دیکھے گا کہ اس سفر کا ہر ہر جُز اس مظہر کو اپنے اندر پوری طرح لئے ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لیے پورے کے پورے دفاتر اور کتب خانہ بھی کم! اور جذبات کو بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔

اب مرحلہ آتا ہے عشقِ رسولﷺ کا؛ جب مدینہ کا نام آتا ہے، تو ایک عاشق رسول کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، جذبات مچلنے لگتے ہیں، سوز و گداز قلب و روح کو گرمانے لگتے ہیں، محبت کی چنگاری اندر ہی اندر سلگنے لگتی ہے۔ پھریہ شعلہ کی شکل میںآتش بن کر قلب کو عشق رسول میں خاکستر کردیتی ہے۔ پھر دل و جان سرکار کائنات رحمۃ للعالمینﷺ کی جانب کھینچنے لگتا ہے، پھر دیدار مصطفیﷺ و زیارت روضہ اطہر کی تمنا موجیں مارنے لگتی ہے۔ پھر عاشق زبانِ حال سے پکار اُٹھتاہے

جان ہے عشق مصطفیؐ روز فزوں کرےخدا

جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں؟

اس لافانی محبت اور عقیدت نے دل کی گہرائیوں سے اس عظیم و محسن مہربان کے دیار پاک کو دیکھنے کے لیے دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ سر کے بَل چلتا ہوا پہونچوں جب میں مدینہ کے لیے روانہ ہوا، اور ٹیکسی اسٹیشن پہونچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ٹیکسی والا آواز دے رہا ہے ’’مدینہ !!  مدینہ!!!‘‘  جس طرح ایک بس کا کنڈکٹر آواز دیتا ہے۔ ایک شہر سے دوسرےشہر جانے کے لیے آپ  تصور کیجئے!  کہ جب کوئی شخص مدینہ مدینہ کی آواز لگا رہا ہو اور محبوب کے گھر کی طرف بُلا رہا ہو تو ذرا دل تھام کر سوچئے! کہ اس دل دماغ کا کیا حال ہوا ہوگا ؛ جو سالوں سے اپنے محبوب کی ملاقات کے لیے بےچین تھا؟  اب پھر پکارنے والے کا انداز بھی دیکھیئے! کہ جب وہ آواز لگاتا ہے تو پہلے مدینہ مدینہ مدینہ کہتا ہے، پھر مدینہ کی یؔ  کو کھینچتا ہوا بلند آواز سے مدینہ کو کچھ یوں کہتا ہے کہ دل کھینچ کر رہ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کلیجہ منہ تک آگیا ہو، اور دل اس آواز کی سماعت سے اتنا لطف اندوز ہوتا ہے کہ میں کیا بتاوں! اب میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں جن کی میں منظر کشی کرسکوں۔ اور یہ مدینہ کی آواز روح کی تار کو چھیڑ دیتی ہےاور جسم پر عجب سماں طاری ہوجاتا ہے۔ کہ جب مدینہ کی پہلی حاضری ہو، اور برسوں پرانا خواب پورا ہورہا ہو، دل کی دھڑکن تیز ہو، معشوق کے درو دیوار اب نظر آنے ہی والے ہوں ، گنبد خضراء پر اچانک نظر پڑنے ہی والی ہو، کچھ بلند عمارتوں کے پیچھے محبوب کا در ہو، بس کی کھڑکیوں سے باہر کی چیزیں دھندلی دھندلی نظر آرہی ہو۔ اب یقین ہو کہ دوچار منٹ میں منزل آرہی ہو۔ اور جب ڈرائیور کہہ دے کہ وہ دیکھو !  سامنے ہی حبیب کے گھر کی دیواریں ہیں، اور باہرکا منظر صاف نہ ہو، بار بار اپنی گردن باہرڈال کر دیکھ  رہا ہو، پھر بھی آنکھیں نہ دیکھ سکیں، پھر درود کا ورد زبان پر طاری ہو، محبوب کا نام بار بار لیا جارہا ہو، بلند آواز سے محمدؐ اور مصطفیٰ … مصطفیٰ… کی صدا لگ رہی ہو۔ جسم پر کپکپی طاری ہو، دماغ میں ملاقات کا بھوت سوارہو، اب بتلائیے کہ اس وقت انسان کا کیا حال ہوا ہوگا؟  آج وہ مثال پوری طرح واضح ہوگئی کہ مرغ بسمل اور ماہیٔ بےآب کسے کہتے ہیں۔

پھر اچانک اپنے جان و مال سے ، ماں باپ سے زیادہ عزیز مسلمانوں کی دلوں کی دھڑکن رحمۃ للعالمینﷺ کے دیوار پر نظر پڑی۔ آنکھیں پلکیں جھپکنا ہی بھول گئی۔ پھر دل آنکھوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:  

ڈھونڈتی تھی گنبد خضراء کو تو

دیکھ وہ یہ اے نگاہِ بےقرار

اب آنکھوں نے اپنی بوندیں ٹپکادی، دل شکر سے لبریز ہوگیا، رب العالمین نے یہاں تک پہونچادیا ، اس میں اپنا کیا زور تھا۔ بس یہ ایک ذات باری کی عطا تھی، جب میں داخل ہوا تراویح ختم ہورہی تھی لوگ باہر نکل رہے تھے۔ اب نہ رہنے کا انتظام تھا نہ کھانے پینے کا۔ پھر حبیب نے اپنا کرشمہ دکھلا ہی دیا، اور پورے انتظامات خود بخود ہونے لگے۔

اب مدینہ میں ۔۔۔۔۔ جسے دیکھنے کے لیے ہر عاشق کی آنکھیں تڑپتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ تصویر آنکھوں میں ہمیشہ بسی رہے۔  جی ہاں! وہ گنبد خضراء ہے، یہ وہ جگہ ہے جو شعور کی آنکھ کھلنے سے پہلے نہاں خانۂ دل میں نقش ہوجانے والی ایک جاں فزاں تصور نبوت ورسالت  کا سر چشمہ، رحمت و شفاعت کا اک نشاں ، غنچۂ دل کے بے قراریوں  کے لیے وجہِ سکون، ایک ایسا محل ہوائیں جس کے گرد طواف کرتی ہے، مشک و عنبر بھی جس کی مٹی کے سامنے ماند پڑتے ہیں، ایک ایسا نگینہ جس کا جمال آنکھوں کی بصارت اور دل کے سکون کے لیےسرمۂ حیات ہے۔

إذا ہبت الأریاح من نحو طیبہ

أہاج فوادی طیبھا وصبوبھا

وہ گنبد جس کے محیط مین شاہ دوسَرا، سید الأمۃ، سید الخلائق، خیر العالمین ﷺ آرام فرمائیں۔ جب تھکے ماندے زمانے بھر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے غبار آلود بدن، شکستہ دل تھکا ہارامسافر جب مدینہ میں داخل ہوتےہی گنبد خضراء کی ایک جھلک دیکھتاہے تو ان کی ساری تھکن کافور ہوجاتی ہے۔

‏صَلُوا على الحبيب صلي على محمد ﷺ

«
»

عید قرباں کے احکام و مسائل پر ایک دلچسپ مکالمہ

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے