حفیظ نعمانی
کچھ باتیں وہ ہوتی ہیں جو زبان سے کہی یا قلم سے لکھی جاتی ہیں۔ اور کچھ وہ ہوتی ہیں جو زندگی گذارنے کے انداز اور مصروفیت سے معلوم ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارا کانگریس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجودہ مرکزی اور صوبائی لیڈروں میں جن سے تعارف ہے وہ صرف رسمی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں ہزاروں مضمون لکھے ہیں جن میں شاید آدھے وہ ہوں گے جن میں کانگریس کی مخالفت کی ہے یا ان کے فیصلوں پر تنقید کی ہے۔ لیکن آج اس کی حمایت کرنا پڑرہی ہے تو اس وجہ سے کہ بی جے پی نے ان کی جگہ لے کر جو ملک اور عوام کے ساتھ کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کسی نے جنت سے نکال کر جہنم میں ڈال دیا ہو۔ حالانکہ کانگریس کو جنت کہنا انتہائی مبالغہ ہے لیکن موازنہ کا تقاضہ یہی ہے۔
سیاست اور حکومت میں جھوٹ بولنا عام بات ہے کانگریس نے بھی بار بار جھوٹ بولا ہے۔ اور ہم نے تو یہ دیکھ کر کہ اپنے زمانہ میں کانگریس کو جو کرنا ہوتا تھا اس سے پہلے انکار ہوتا تھا اور کوئی وزیر زوردار طریقہ سے کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اور پھر کچھ دنوں کے بعد وہ ہوجاتا تھا تو ہم نے بار بار لکھا ہے کہ کانگریس کی حکومت میں ایک محکمہ جھوٹ کا بھی ہے جو جس وزیر کے پاس ہوتا ہے اسے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔
اور ہم نے انتہائی تکلیف کے ساتھ یہ کہا ہے کہ وزیراعظم مودی نے کانگریس کی روایت توڑ دی اور خود جھوٹ بولنا پسند کیا اور اللہ ہمیں معاف کرے اور وزیراعظم بھی کہ مودی جی نے تو جھوٹ کو ایسا دانتوں سے پکڑا کہ ساڑھے چار سال سے صرف جھوٹ بول رہے ہیں اور اب جانے نہ جانے کا وقت آگیا تو اس میں یہ اضافہ ہوگیا کہ کانگریس کی ہر بات کو جھوٹ کہنے لگے اور انتہائی معصومیت سے کہا ہے کہ ’ہمیں جھوٹ سے لڑنا نہیں آتا لیکن اب ہمیں جھوٹ کا جواب دینے کا فن سیکھنا پڑے گا۔‘ مودی جی نے حزب مخالف (کانگریس) کے بارے میں کہا کہ ان کوتو نہ حکومت کرنا آتی ہے نہ حکومت پر تنقید آتی ہے وہ جھوٹے الزامات لگاتے ہیں اور جھوٹ پر لڑتے ہیں اور خود ہی جھوٹ گڑھتے ہیں۔
اور ہمارا خیال یہ ہے کہ کانگریس کو حکومت کرنا آتی ہو یا نہ آتی ہو لیکن مودی جی کے جھوٹ کے پاسنگ کے برابر بھی جھوٹ بولنا نہیں آتا۔ آج جب ان کی پالیسیوں کی ناکامی سے سارا ملک چیخ رہا ہے تب بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ترقیاتی اسکیموں سے پانچ کروڑ انتہائی غریب خاندانوں کی معاشی حالت میں بہتری آئی ہے۔ اور حکومت بہت ہی کم قیمت پر لوگوں کو دوائیں فراہم کرارہی ہے ہم کو انتہائی غریبوں کا حال تو اس لئے معلوم ہے کہ ہمارے پریس، ہوٹل اور دوسرے کاروبار میں غریب ہی نوکر ہیں وہ رو رہے ہیں کہ پہلے جس تنخواہ میں آرام سے گھر چلتا تھا اب صرف کھانے میں ہی ساری تنخواہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور 28 برس سے ہمیں ہر دن اور رات کو جو دوائیں کھانا پڑتی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ہر مہینہ قیمت بڑھتی ہے۔ مودی جی نے 48 مہینوں میں مٹھی بھر سیٹھوں کو چھوڑکر ملک کے 100 کروڑ لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے اور 25 کروڑ مسلمانوں اور عیسائیوں کو تو قبر کے کنارے لاکر بٹھا دیا ہے۔
بی جے پی کے دو روزہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے ’اٹل بھارت اور اٹل بی جے پی‘ کا نیا نعرہ دیا ہے انہیں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تو ضرورت اس کی ہے کہ اب اٹل مودی اور اٹل امت بھی اس نعرہ میں شامل کرلیا جائے۔ اسی اجلاس میں مودی جی نے اعلان کیا کہ 2019 ء میں جیت کر 50 سال تک پھر اسے کوئی نہ ہرا سکے گا۔ اور یہ اپنے ترقیاتی کاموں اور سواسو کروڑ لوگوں کے اعتماد کی وجہ سے ہوگا۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو صرف اس وجہ سے ہوگا کہ کوئی تابعدار چیف الیکشن کمشنر بنایا جائے گا۔ وہ مشینوں میں ایسی کاریگری کرائے گا کہ کچھ بھی کرلو ووٹ بی جے پی کو ہی ملے گا۔
یہ اجلاس حکومت کا نہیں پارٹی کا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ پیش پیش امت شاہ کو ہونا چاہئے تھا جو صدر ہیں لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں کاربن کاپی کا کام کیا اور کہا کہ 2019 ء کے عام انتخابات جیتنے کے بعد کم از کم پچاس برس تک اقتدار سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ انتخاب سے پہلے 9 کروڑ پارٹی کے کارکن 22 کروڑ خاندانوں سے رابطہ قائم کریں گے اور انہیں پارٹی کے پروگراموں اور پالیسیوں سے واقف کرائیں گے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے 2014 ء کے الیکشن میں نریندر مودی نام کے لیڈر نے اپنے گلے میں پڑی ہوئی جھولی کے بارے میں بتایا تھا کہ اس میں ایک منتر تو سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے اور ایک دستاویز اس کی ہے کہ باہر کے ملکوں میں 80 لاکھ کروڑ روپئے کالا دھن کانگریس والوں نے چھپایا ہے وہ میں 100 دن کے اندر منگوالوں گا اور سب بانٹ دوں گا۔ ان کے علاوہ ہر بے روزگار کو نوکری یا روزگار دوں گا اور گجرات ماڈل کی طرح ہر گھر بجلی ہر کھیت پانی کی اسکیمیں ہیں۔ ہندوستان کا روپیہ جتنا کانگریس نے گرادیا ہے اسے اٹھاکر 30 یا 40 میں ایک ڈالر کی اسکیم ہے اس سے کروڑوں کو روزگار ملے گا۔ مہنگائی جو اس وقت اہم مسئلہ تھی تیل اور پکوان گیس کی قیمت جو مصیبت بنی ہوئی تھی وہ ختم ہوجائے گی اور اچھے دن آجائیں گے۔ اور اس جھولی میں کسانوں ان کی فصلوں، بیٹیوں اور ضعیفوں کے لئے سب کچھ تھا۔ آج وہ جھولی خالی نہیں پھٹ گئی ہے۔ ایسے میں جبکہ مہنگائی نہ ایسی دیکھی تھی نہ اتنی سنی تھی اور روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں شاید 100 فیصدی کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں 9 کروڑ ورکروں کو ان کے پاس بھیجیں گے جو ٹوٹا جوتا گندے انڈے اور لاٹھیاں لئے بیٹھے ہیں کہ اچھے دن والے آئیں تو دوڑا دوڑاکر ماریں۔
وزیراعظم نے امت شاہ کی صدارت ایک سال کیلئے بڑھوا دی ہے شاید انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ اگر 2019 ء میں دل جلوں نے 100 سیٹوں پر ہی روک دیا تو امت شاہ کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ اگر میں صدر ہوتا تو 350 سیٹیں بی جے پی کو دلا دیتا۔ اب جو کچھ بھی ہوگا اس میں جو حال عیسیٰ کا وہی موسیٰ کا ہوگا۔ رہی یہ بات کہ اپوزیشن کے پاس نہ لیڈر ہے نہ پالیسی اور نہ حکمت عملی تو یہ مسئلہ جن کا ہے وہ اس کا فیصلہ کریں گے۔ رہا لیڈر تو ناتجربہ کاری کا ہی یہ اثر ہے کہ 280 سیٹیں جیتنے کے بعد اور دوسری پارٹیوں کی بھرپور حمایت کے باوجود حکومت ملک کو کچھ نہ دے سکی بلکہ اسے اتنے گہرے کنوئیں میں گرا دیا کہ اب نہ جانے کتنے دن اسے اسی جگہ لانے میں لگیں گے جہاں وہ 2014 ء میں تھی۔ مودی جی کو 2014 ء میں اس لئے بٹیر ہاتھ آگئی تھی کہ ہر پارٹی کو معلوم تھا کہ کانگریس حکومت کو بی جے پی اکیلی ختم کردے گی اس لئے ہر پارٹی اپنے وجود کے لئے لڑرہی تھی تاکہ لوک سبھا میں اس کی نمائندگی ہوجائے اور اسی میں وہ ٹکراکر پاش پاش ہوگئیں۔ اب ہر پارٹی کو معلوم ہے کہ بی جے پی کو محاذ بناکر ہرایا جائے گا اور کانگریس اس کا ایک حصہ ہوگی اس لئے اس بار نتیجہ وہ ہوگا جو مودی جی سمجھ رہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے امت شاہ کو روک لیا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
12؍ستمبر2018(فکروخبر/ذرائع)
جواب دیں