نو منتخب صدر انجمن کا ایک مختصر تعارف

بقلم: ارشد حسن کاڑلی دمام

صدر انجمن قاضیا محمد مزمل صاحب کی شخصیت ویسے تو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے مگر ان کے صدر انجمن جیسے باوقار عہدے پر فائز ہونے پر ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔

وجیہ و بارعب چہرہ، پیشانی پر سجدہ کا واضح نشاں، مزمل قاضیا صاحب کی ولادت  22 جولائی 1954 کو قدیم شہر بھٹکل کے مشہور علاقہ جامعہ محلہ میں ہوئ۔ ان کی والدہ مرحومہ انجمن کے اولین استاد محمد میراں محتشم کی دختر تھیں۔ یہی وہ نسبت تھی جس نے ان کی والدہ کو نامساعد حالات میں اپنے اس  لائق فرزند کو اعلی تعلیم کی تکمیل کے لئے ابھارنے پر مجبور کیا۔ ان کی والدہ ان کی دینی تعلیم کے لئے بھی کوشاں تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب قوم کے بعض بیدار مغز افراد ایک عظیم دینی درسگاہ کے قیام کا عزم کر رہے تھے۔ مہتمم جامعہ مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ بھٹکل میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ ان کے والدین نے انہیں مولانا ندوی کے پاس قران مجید کی تعلیم کے لئے داخلہ کروایا۔  سنہ 1963 ء کے آس پاس ہوسپیٹ سے ایک عربی النسل قاری محمد بن عبداللّٰہ مدنی المعروف قاری عرب جن کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا بھٹکل منتقل ہوگئے اور جامعہ میں پڑھانے کے ساتھ شاذلی مسجد میں امامت لگے۔ مولانا عبد الحمید ندوی نے مزمل صاحب کو قاری عرب کے سپرد کر دیا۔ اس دور میں یہ کمسن لڑکا فجر کی اذان سے پہلے شاذلی مسجد قاری صاحب سے استفادہ کرنے حاضر ہوتا تھا۔ بقول مولوی عبد المتین منیری اس دور میں انجمن کے جلسوں میں مزمل صاحب کو تلاوت کلام پاک کے لئے اکثر و بیشتر کہا جاتا تھا۔ اسی طرح جامعہ اسلامیہ میں ان کے بھائی اور قاری عرب کے ایک اور ہونہار طالب العلم مولوی عبد العظیم قاضیا ندوی کو یہ اعزاز حاصل ہوتا۔

 1969ء میں مزمل صاحب کے میٹرک مکمل کرنے تک انجمن مختلف پگڈنڈیوں سے گزر کر شاہراہِ تعلیم و ترقی پر چڑھائی کر رہا تھا۔
انجمن آرٹس کالج کے قیام کو ابھی ایک سال ہوا تھا۔ اگلے سال اس میں سائنس سیکشن کا اضافہ کیا گیا۔ چنانچہ مزمل صاحب نے انجمن کالج کے سائنس سیکشن میں داخلہ لے کر   1973ء میں بی۔ ایس۔ سی۔ کی ڈگری حاصل کی۔
بی۔ ایس۔ سی۔ کے بعد ان کے اندر چھپی قائدانہ صلاحیت ابھر کر آئی۔ اس کے چلتے مزمل صاحب نے بنگلور کے مشہور تعلیمی ادارے ایس۔ جے۔ ار۔ لاء کالج میں داخلہ لیا۔ اور سنہ  1977 میں اپنی ایل۔ ایل۔ بی۔ کی تعلیم مکمل کر کے وہیں پر ایک سینیئر وکیل کی رہنمائ میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔
یہ وہ دور تھا جب قوم کے نوجوانوں کو خلیجی ممالک کی چکاچوند اپنی طرف راغب کر رہی تھی، مگر یہ باہمت نوجوان مادر وطن میں رہتے ہوئے قوم کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اکتوبر 1978ء میں جامعہ محلہ میں واقع اپنے مکان سے ہی اپنی وکالت کی پریکٹس شروع کی۔
یہاں بھٹکل میں قوم اپنے اداروں کی کارکردگی کو فعال بنانے کے لئے نئ نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی متلاشی تھی۔ اس دور میں قوم کے ذمہ داراں کی نگاہیں اس نوجوان وکیل کی طرف اٹھنا فطری بات تھی چنانچہ مزمل صاحب بھٹکل کے مختلف اداروں میں انتظامیہ میں شامل ہوگئے۔
1979ء میں آپ نے بھٹکل کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اپریل 1983ء میں جب آپ کی عمر مشکل سے 29 سال تھی تو آپ کے سر پر شھر بھٹکل کے سب سے قدیم سماجی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کے جنرل سکریٹری کے عہدے کا بار گراں رکھا گیا۔ اس نوجوان نے دیسمبر 1990ء تک اس عہدے کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ آپ نے محمد علی روڈ پر واقع تنظیم کی جگہ پر اس کے قدیم کرایہ دار سے مذاکرات کر کے ایک تجارتی مرکز کی تعمیر کروائی۔ اس کے نتیجے میں ہمارے کئی نوجوانوں کو تجارت کے ذریعے معاش کے مواقع میسر آئے۔ شھر بھٹکل کے مختلف اداروں اور بیرون بھٹکل واقع مختلف جماعتوں کے درمیان آپسی تال میل کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ان سب اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے تاریخی شہر کالیکٹ میں زھرہ گارڈن کمپاونڈ میں پہلی بین الجماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ مزمل صاحب نے کانفرنس کے کنوینئر الحاج محی الدین منیری مرحوم کی معاونت سے اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا۔
 تنظیم کی صدارت کے لئے آپ کو 2007ء میں موقع عطاء ہوا۔ دو سال تک صدارت کی ذمہ داری نبھانے کے بعد دوبارہ 2012ء میں آپ نے صدارت کی کرسی سنبھالی اور تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے صد سالہ جشن کی تقریبات کا کامیاب انعقاد کیا۔ مسلسل 2019ء تک صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
یہ کوئ پہلا موقع نہیں ہے کہ مزمل صاحب انجمن کے کلیدی عہدے پر فائز ہوئے ہوں۔ اس سے پہلے 1993ء میں وہ انجمن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اپنی خدمات دے چکے ہیں۔22 فروری 1993 کو مزمل صاحب نے انجمن حامئ مسلمین کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا تھا۔ حال ہی میں منعقدہ الیکشن میں قوم نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ حسن اتفاق سے الیکشن کے بعد اسی تاریخ یعنی 22 فروری 2020ء کو  اس قوم نے انہیں انجمن کی صدارت کی مسند پر بٹھایا۔ انہوں نے اپنے دور میں انجمن کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان میں قابل ذکر ویمن کالج اور بی۔بی۔آے۔ کالج کا قیام ہے۔
مزمل صاحب ایک وکیل ہونے کے ناتے ہمیشہ اپنے پیشے سے منسلک رہے۔ شھر بھٹکل کے وکلاء کی ایسوسی ایشن کے دو سالہ میعاد کے لئے دو دفعہ  1985ء اور 1994ء صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔ یہ مزمل صاحب کے مقبول وکیل ہونے کا ثمرہ تھا۔ وکالت کرتے کرتے مزمل صاحب کو جج بننے کی سوجھی تو حکومت نے اس وقت کے ضابطہ کی کاروائیوں کے بعد 15مئ 1996ء کو اس وقت کے گورنر خورشید عالم خان کے دور میں ضلع و سیشن جج کے طور پر ان کا تقرر کیا گیا۔ تقریباً چار سال بعد فسطائی طاقتوں کے دباؤ میں انہیں اس عہدے سے سبکدوش کیا گیا۔ دراصل جب1993ء میں شھر بھٹکل فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں جل رہا تھا اس وقت لوگوں کی قانونی امداد کے ذریعے بے قصور قیدیوں رہائ کروانے کی وجہ سے کمیونل عناصر نے مزمل صاحب کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں جج کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔   
مزمل صاحب جامعہ محلہ میں سکونت پذیر رہنے کی وجہ سے جامعہ مسجد سے تعلق رہنا ظاہری بات تھی۔ 1978ء میں جماعت المسلمین کی مجلس انتظامیہ میں شامل ہوئے اور محاسب کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1987ء میں مزمل صاحب کو جامع مسجد کا ٹرسٹی مقرر کیا گیا۔
جب مزمل صاحب جج بن کر بنگلور پہنچے تو بنگلور ہی کو اپنا مسکن بنالیا۔ اس دوران بنگلور جماعت کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیے۔
مزمل صاحب کو سیاسی حلقے میں کافی پہنچ ہونے اور کانگریس پارٹی کے رہبران سے قربت کی وجہ سے 2014ء میں کرناٹکا اسٹیٹ اسپائسس ڈیولپمنٹ بورڈ کا چیرمین مقرر کیا گیا۔ 2016ء تک آپ اس باوقار عہدے پر فائز رہے۔
جس جامعہ کے ابتدائی دور میں مولانا ندوی اور قاری عرب سے آپ نے استفادہ کیا تھا وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ چنانچہ اس چھوٹے سے مکتب سے جنوبی ہند کی مشہور دینی درسگاہ اور شہر بھٹکل کے مرکزی ادارے  کا اعزاز رکھنے والے ادارے جامعہ اسلامیہ نے 2015ء میں مزمل صاحب کو  اپنی مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا۔ یہ واقعی مزمل صاحب کے جامعہ سے اس نسبت کا اعتراف ہے۔
مزمل صاحب سے انجمن کی ترقی کے لیے کئی ایک امیدیں وابستہ ہیں۔ اس میں وہ کتنا کامیاب ہوتے ہیں ہی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

26فروری2020

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے