انجمن کے تھے وہ، ان کی تھی انجمن (جوکاکوعبد الرحیم مرحوم ایک مخلص اور تعلیمی رہنما )

        تحریر ۔ سید ہاشم نظام ندوی

آغازِ سخن :۔

        ستمبر ۱۹۱۹ سن عیسویمطابق  ۱۳۳۷ ہجری کا سال تھا،عرفہ کا دن تھا،، جناب ایف اے حسن جاگٹی کی سرکردگی میں جناب ای ایچ صدیق اور ایم ایم صدیق صاحب کی تعلیمی فکروں سے ایک مدرسہوجود عمل میں آیا، بطورِاستاذ بوڑئے میراں بھاؤ صاحب اور دینیات کے لیے دامدا عبد القادر ابو مولوی صاحب منتخب ہوئے، وقت گزرتا گیا اور تعلیم وتربیت کے اسلوب اور طریقے بھی بدلتے زمانے کے ساتھ بدلتے گئے۔ مدرسہ، پرائمری اسکول میں تبدیل ہوکر انجمن حامی مسلمین کے نام سے مشہور ہوا، تعلیم کی اہمیت اور علاقے میں بڑھتی ہوئی ضرورت نے اچھے اچھے باصلاحیت اساتذہ کو جمع کیا اور قوم ووطن کی بڑی بڑی سماجی، دینی، علمی شخصیتیں بھی ساتھ ہوگئیں، جن میں سرِ فہرست جوکاکو شمس الدین صاحب مرحوم بھی تھے،جو شہرت بھی رکھتے تھے اور مقبولیت بھی اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ ایم ایم صدیق کے داماد بھی تھے، فکری اور ذہنی تربیت میں بھی یکسانیت تھی، لہذا آپ نے انجمن کی خوب خدمت کی اور اخیر دم تک خدمت کرتے رہے۔

حادثۂ وفات :۔

        یکم مارچ سن ۲۰۲۱ کے آغاز کے ساتھ  جس ایک افسوس ناک خبر نے پورے شہر اور قوم کو مغموم بنا دیا،وہ خبرجناب جوکاکو عبد الرحیم صاحب  کے دار فانی سے کوچ کر کے مرحومین کی فہرست میں شامل ہونے کی تھی،موصوفِ مرحوم جوکاکو شمس الدین صاحب کے بڑے فرزندتھے، سابق جنرل سکریٹری اور سابق صدر انجمن حامی مسلمین بھٹکل تھے اورجن کے اندر خود اتنی صلاحیت اور قابلیت تھی کہ وہ تنہا اپنے بل پر انجمن کی قیادت کرتے اور قافلۂ تعلیم کے میرِ سالار بنتے اور کیوں نہیں جب کہ انھیں محنت ولگن اور فکر وتڑپ اپنے والدِ ماجد سے ورثہ میں ملی تھی اورجنہوں نے اپنےوالد صاحب کو قیادت کرتے دیکھا تھا اور ان سے قیادت کا انداز بھی سیکھا تھا، مزید نانا ابّا کی تعلیمی اور فکری ذہانت بھی حاصل ہوئی تھی۔

والدِ ماجد کا انتقال  اور احساسِ ذمے داری:۔

آپ کے  والدجناب جوکاکو شمس الدین مرحوم کا انتقال عین جوانی  ہی میں ہوا تھا، آپ نے ابھی عمرِ عزیر کی ایکاون بہاریں دیکھی تھی، مگر اس کم  عمر ی میں دو۲ بار منسٹر کے عہدے پرفائز ہو کر قوم ووطن کی نیک نامی کا سبب بننا بڑی غیر معمولی بات تھی، جوکاکو مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوهکے ساتھ کل دس بچے چھوڑے، جن میں چار بیٹے تو چھ بیٹیاں تھیں،والد کی اس جوانی میں انتقال کے بعد گھر کی کفالت اور  ذمے داری ان کے بڑے فرزند مرحوم جناب عبد الرحیم صاحب پر عائد ہوئی، جسے آپ نے  احساسِ ذمے داری کے ساتھ انجام دیا، اعلی تعلیم کو منقطع کرتے ہوئے روزگار اختیار کيا، جس میں چھ سال کا عرصہ حیدر آباد میں گزرا، اسی دوران ڈیرھ سال کے لیے جاپان جا کر تعلیمی ترقی کے ساتھ کچھ تجربات بھی حاصل کئے، آپ نے اس طرح سے اپنی زندگی کو ترتیب دی کہ  والدہ کو نہ شوہر کے انتقال سے مادی پریشانیوں کا احساس ہونے دیا، نہ بھائی بہنوں کو ان کے پدری سایے کے اٹھ جانے سے یتیمی کو محسوس ہونے دیا، بلکہ پوری احساسِ ذمے داری کے ساتھ بھائی بہنوں کی تعلیم وتربیت اورکفالت کے فرائض انجام دئے، انھیں اچھی سے اچھی تعلیم دلائی،عصری علوم سے آراستہ کرنے کے ساتھ دینی بنیادی تعلیم اور اخلاقی  تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ۔

ذاتی روابط:۔

        مرحوم سے ہمارے ذاتی روابط ومراسم بہت دیرینہ تھے، آپ سے ہمارے تعلقات کی کئی ایک بنیادیں تھیں، پہلی وجہ رشتے داری اور قرابت، آپ کی زوجہ محترمہ قمر النساء قاضیا میری پھوپی زاد بہن تھیں،  اس لیے بچپن سے ہم آپ کو "بہنوئی" ہی کہتے آئے اور آپ کے گھر آنا جانا بھی رہا ۔ اسی طرح  ہم دونوں کے گھربھٹکل کے  ایک ہی محلے میں واقع تھے، ہم دونوں کی نمازیں اکثر وبیشتر "اخوان مسجد" ہی میں ادا ہوتی تھیں۔اسی طرح آپ جب بھٹکل تشریف لاتے توسابق ناظمِ جامعہ اسلامیہ الحاج محیی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ آپ ایک نہ ایک بار جامعہ آباد ضرور لے آتے، آپ اس وقت بھی جامعہ میں ہم سے بطورِ قرابت بھی  ملاقات کرتے، اپنی محبتوں وچاہتوں سے نوازتے۔  اس کے بعد سن 1994 عیسوی کو جب  دبئ آنا ہوا، تو پہلے دن ہی سے ایک ہی محلے میں رہے، کرامہ کی جامع مسجد میں ہم دونوں کی اکثر ملاقاتیں رہتیں، تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا۔تیسرے آپ سے تعلقات میں پختگی آنے کی وجہ جماعتی زندگی میں دونوں کا ساتھ رہا، ہمیں مرحوم کے ساتھ سالوں رہنے کا موقعہ ملا،  مشاورتی نشستوں میں ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا۔ بالخصوص وہ ایک کمیٹی جس میں بڑے اہتمام کے ساتھ ہم دونوں شریک رہے وہ تصفیہ کمیٹی تھی، جس کے  کئی ایک بار آپ کنوینر رہے۔

        شاید ہمارے مابین کے یہی روابط تھے کہ تقریبا تین ماہ قبل جب آپ دبئ تشریف لائے تھے ، تو کئی بار فون سے روابط رہے اور اسی دوران اللہ ب العزت نے یہ بات ذہن میں ڈالی کہ کیوں نہ فکر وخبر کی جانب سے ایک تفصیلی انٹریو لیا جائے ، جس کے لیے راقم الحروف نے مناسب سمجھا کہ آپ سے وقت لے کر  اس کام کو  آگے بڑھا یا جائے۔  ہماری درخواست کو آپ نے قبول فرمایا، اپنے گھر آنے کی دعوت دی، لہذا ہم اپنے رفیق مولانا محمد سلیم سدی باپا کے ہمراہ ان کے بڑے بیٹے جناب شمس الدین ضیاء صاحب کی رہائش گاہ چلے گئے، صبح کا ناشتہ بھی آپ کے ساتھ ہوا، ناشتے کے بعد تفصیلی انٹریو لیا گیا، جس میں آپ نے اپنی نقاہت اور کمزوری کے باوجود پوری اندرونی  قوت کے ساتھ بات کی،اپنے  دلی جذبات  اور نیک خواہشات قوم و ملت کے سامنے رکھے، اپنے والدِ ماجد سے لے اپنی زندگی تک کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالیے اس کے بعد ایک طرف آپ نے نونہالانِ قوم کو تعلیمی میدان میں اپنے اوقات کو کار آمد بنانے کا درد مندانہ مشورہ دیا تو دوسری طرف نوجوانانِ قوم کو معاشرتی زندگی کو اخلاص کے ساتھ خدمتِ خلق میں گزارنے کا صلاح دیا۔ ان  کا ایک ایک جملہ اور ہر ایک بات زندگی کے وسیع وعریض تجربات پر مبنی تھی۔ جوانٹریو  ہمارے یوٹیوب چینل پر موجود ہے اور وہ  دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ابتدائی اور تعلیمی زندگی :۔

آپ  کی پیدائش مورخہ ۸ مارچ سن  ۱۹۴۰عیسوی شہرِ بھٹکل میں ہوئی، یہیں سے ابتدائی تعلیمی زندگی کا آغاز بھی ہوا،تربیت والدِ ماجد  اور نانا  ابا کے ہاتھوں ہوئی۔  ابتدائی تعلیمی سلسلہ  مڈیکیری میں جاری رہا ، جس کی تکمیل  بنگلور میں ہوئی۔والدِ ماجد کے عین جوانی میں انتقال ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا، روز گار کے لیے کچھ وقفہ بنگلور میں گزرا تو تقریبا چھ سال کا عرصہ شہرِ حیدر آباد میں گزرا۔ اسی دوران آپ کو  جاپان میں بھی دیڑھ سال کا عرصہ حصولِ تعلیم میں گزارنے کا سنہرا موقع ملا۔ تعلیم  کی تکمیل کی اور قوم کے اولینمیکانیکل انجنیر بنے ۔

ذاتی صفات وخصوصیات:۔

مرحوم بڑے پاکیزہ صفات کے حامل تھے،کردار بلند وعالی تھا، خود داری اور بے نفسی کا نمونہ تھے،علماء کا احترام کرتے، ان کے ساتھ بڑے ادب واحترام سے پیش آتے، اس میں ان کی عمر کا لحاظ کئے بغیر چھوٹوں کو بھی اچھے القاب سے یاد فرماتے۔ آپ ایک تعمیری ذہن رکھتے تھے، ہر اچھے کام کو سراہتے، ہر برے کردار سے بیزاری کا اظہار فرماتے۔ سب سے ان کا یکساں تعلق تھا، سب کے ساتھ مساوی روابط تھے، سب کو چاہتے، سب سے اپنائیت کا اظہار فرماتے،مسکرا کر ملتے، ملنے پر خیریت دریافت کرتے، حالات سے واقف ہونے کی کوشش کرتے۔آپ  اپنے عقائدِ دین پر مضبوطی سے کار بند اور احکاماتِ اسلامی کے پابند تھے۔ ہمیشہ رزقِ حلال پر زور دیتے تھے، سود اور ناجائز طریقے سے حاصل شدہ رقموں سے بیزاری کی حد تک نفرت تھی، اس سلسلے میں ہماری بعض موضوعات پر تفصلی گفتگو بھی رہی ہے۔خرچ کرنے کی جگہ خرچ کرتے، بے جا اخراجات سے دور رہتے،اسراف وفضول خرچی سے نفرت کرتے، ایک ایک پیسے کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتے، پیسوں کی نمائش کو نا پسند فرماتےتھے۔ عام طور پر  امیرانہ زندگیاں اسراف وتبذیر اور فضول خرچی  سے معمور ہوتی ہیں، اللہ رب العزت کی اتنی  نوازشوں کے باوجود آپ اس امیرانہ زندگی سے بہت دور نظر آتے تھے، اللہ تعالی نے بعد میں آپ کو دنیاوی اعتبار سے بہت نوازا تھا، مگر اس کے باوجود انتہائی سادگی کے ساتھ رہے، خرچ اپنے حدود میں رہ کر کرتے تھے۔

الغرض مرحوم میں بہت سے اوصاف تھے، جسے ان کے جانے کے بعد ہر جاننے والا اپنی اپنی معلومات اور تجربات کے پیشِ نظر بتاتا ہے، مگر سو وصفوں کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ دھن کے بڑے پکے تھے، اپنے مقصد کے حصول میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے، جس وصف کے بغیر دنیا میں کوئی مہم سر ہو پاتی ہے اور نہ ہی کسی کام میں مکمل کامیابی ممکن ہے۔ اسی لیےآپ کی اجتماعی اورقومی ومعاشرتی زندگی بتاتی ہے کہ جب بھی آپ کے ذمے کوئی عہدہ کیا گیا تو آپ نے اسے امانت سمجھا، اس کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کی، جی جان سے اس میں حصہ لیا، سب کے ساتھ مل جل کر کام کیا، اصحابِ علم ودانش سے مشورے لیے، اصحابِ رائے سے رائے لی،اصحابِ قلم سے قلمی تعاون حاصل لیااور عملی میدان میں اتر کر کام کرنے والوں سے ان کی خدمات حاصل کی۔

متحدہ عرب امارات  اور دبئ جماعت :۔

آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ متحدہ عرب امارات میں گزارا،بلکہ اگر دیکھا جائے تو عمر کا سب سے زیادہ حصہ اسی سر زمین پر بسر ہوا، یہاں آنے کے بعد دبئ  ایک حکومتی ادارے سے ملازمت سے جڑ گئے، جب کہ اس ملازمت کے بعد آپ کو خاص خاص کمپنیوں کی کئی ایک ملازمتیں سامنے نظر آ رہی تھیں، بلکہ آپ کے چھوٹے بھائی جناب فضل الرحمن صاحب جوکاکو انھیں اس کے مقابلے میں دو چار گنہ زیادہ تنخواہ کی ملازمت کے مواقع دکھا رہے تھے، مگر آپ نے یہ کہہ کر اس کی طرف توجہ نہیں دی اور اسے قبول کرنا پسند نہیں فرمایا کہ حکومتی کام میں اوقات کم رہتے ہیں، شام کو جلدی چھٹی ہو جاتی ہے اور اس باقی وقت کو ہم جماعتی زندگی اور معاشرتی خدمات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ 

آپ دبئی میں رہ کر اپنے مادرِ وطن بھٹکل کی مستقل  فکر میں رہے، "پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ"  کی طرح اپنے اوقات گزارے، یہاں پر مقیم بھٹکلی احباب کے ساتھ مل جل کر جماعتی نظم وضبط کے ساتھ جڑے رہے، جنرل سکریٹری سے لے کر صدارت تک کے عہدے کو زینت بخشی، بھٹکل مسلم خلیج کونسل کے سکریٹری جنرل بھی بنے۔ قومی وفلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قوم کے باصلاحیت  بعض نوجوانوں کو  جماعت کی انتظامیہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے، ان نوجوانوں میں قومی زندگی میں کام کرنے کا شعور بیدار کیا، بلکہ ساتھ رکھ کر کام کرنا سکھایا، اجتماعی زندگی میں رہنے کے آداب سکھائے۔

آپ کے دورکا شمار  بھی دبئی جماعت کے سنہرے ادوار میں ہوتا ہے، جس میں کئی ایک نئی اسکیمیں وجود میں آئیں، بالخصوص سیف اسکیم، رابطہ ڈائرکٹری وغیرہ کے کام اپنے دور کے حساب سے بہترین کام شمار کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح "بھٹکل مسلم خلیج کونسل"کی  دو میعاد میں  سکریٹری جنرل کے عہدہ پر فائز رہے،    اس کے ذریعے بھی آپ نے اپنی خدمات کے اچھے  نقوش چھوڑے، گراں قدرکارہائے نمایاں انجام دئے۔ لہذا آپ کی جماعتی زندگی میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو سن ۲۰۱۸ عیسوی کے"شخصیت ایوارڈ" سے نوازا گیا۔

جماعت المسلمین بھٹکل:۔

جماعت المسلمین بھٹکل سے بھی آپ کے روابط بہت قدیم اور مربوط تھے، بلکہ اس کا تعلق آبائی بھی تھا۔ آپ جہاں بھی رہے جماعت سے وابستہ رہے، اس کے لیے فکریں کرتے رہے، کئی بار دبئ جماعت کی طرف نمائندگی کرتے ہوئے جماعت کے اراکینِ انتظامیہ  میں شامل رہے۔

زندگی کے آخری سالوں میں جب بھٹکل میں مقیم ہوئے تو انتظامیہ کی مشاروتی نشستوں میں بھی بڑی پابندی کے ساتھ شرکت کرتے رہے، حتی کہ سالانہ اجلاس میں تو شاید بلا ناغہ آپ نے شرکت کی تھی، جس کا آپ  دبئ آنے کے بعد کئی بار تذکرہ کر چکے ہیں ۔ لہذا جماعت سے اسی تعلق اور پابندی کے نتیجے میں جماعت المسلمین بھٹکل کے نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ جب کہ تصفیہ کمیٹی کے بھی کنوینر بن کر خدمت انجام دی۔

انجمن حامیِ مسلمین بھٹکل:۔

انجمن سے مرحوم کی باقاعدہ   وابستگی سن 1993 میں ہوئی۔ اس کے بعد سے وہ آپ کی کوششوں کا حصہ بن گیا، اس کے لیے وقتا فوقتا فکریں کرتے رہے، بالخصوص خیر سگالی کاموں میں ساتھ دیا۔ یہی وجہ تھی دبئ کی ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی بھٹکل مسلم جماعت دبئ کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ انجمن میں اپنی خدمات انجام دینے پر آمادہ ہوگئے، جس میں آپ  کے پیشِ نظر ان طالبانِ علو م  وفنون کاروشن مستقبل تھا جوبھٹکل و اطراف بھٹکل اور دیگر اداروں سے انجمن کا رخ کررہے تھے ، جبکہ وہ اگر چاہتے تو گھر والوں کے اصرار پر یہیں مقیم رہتے، یا اپنے چھوٹے فرزند کے پاس امریکہ میں مقیم ہوجا تے،یا بنگلور شہر جہاں سے ان کا بچپن اور لڑکپن وابستہ تھا سکونت اختیار کرتے۔ایسے کئی ایک تقاضوں کے باوجود سب کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کو مادرِ وطن شہرِ بھٹکل اوردبستانِ علم  انجمن کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہا، بلکہ اپنے وجود کے ساتھ کر کے پندرہ سال کے طویل عرصے پر محیط خدمات انجام دے کر اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کر دیا۔ یقینا اس مہم کو سر کرنے میں جذبۂ خدمتِ خلق نے حوصلہ فراہم کیا،  خلوصِ نیت نے سہارا دیا، توفیقِ الہی شاملِ حال رہی توجو چاہاتھا وہ کر کےبھی بتادیا اور سب کے لیے فکری دنیا سے بلند ہو کرعملی میدان میں اتر کے کام کرنے کی  مثال پیش کی ۔

جب دبئی جماعت کے اشارے پر عمائدینِ شہر کے مشورے سے بھٹکل کا سفر کیا تو اہلِ بھٹکل نے بھی آپ کا خیر مقدم کیا، انتخابات ہوئے تو سوفیصدی کامیابی حصے میں آئی اور حسنِ انتخاب سے آپ جنرل سکریٹری کے عظیم اور کلیدی  عہدے پر فائز ہو گئے۔ جب چار سالہ پہلی میعاد ختم ہو گئی، تو آپ کی سابقہ خدمات و کار کرگی اور حسنِ انتظام وانصرام کی بنیاد پر اربابِ انجمن  نے دوبارہ اسی اہم عہدے کے لیے آپ ہی کو منتخب کیا، جب یہ میعاد بھی ختم ہو گئی اور ضابطے کے لحاظ سے جنرل سکریٹری پر تیسری میعاد کے لیے آنا ناممکن ہوا، تو انتظانیہ نے صدارات جیسے عظیم ترین منصب  کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا، صدر بننے کے بعد آپ نے اپنے آپ کو عملی میدان سے الگ نہیں کیا، بلکہ پابندی کے ساتھ  انجمن جا کر اسی طرح سے ذمے داری بنھائی جس طرح جنرل سکریٹری کے دور میں نبھاتے آ رہے تھے، جس سے کبھی دیکھنے والوں کو اس کا گمان ہو جاتا کہ آپ صدر ہیں یا جنرل سکریٹری؟؟؟۔آفس آنے جانے میں نظام الاوقات کی  پاپندی ایسی کرتے  جیسے ایک تنخواہ دار  ملازم کرتا ہے، بلکہ وہاں پر موجود اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان کی پاپندی ہم سے بھی زیادہ رہتی تھی، آپ وقت کے شروع ہونے کے دس منٹ پہلے ہی حاضر ہو جاتے اور وقت کے ختم ہونے کی کافی دیر بعد چلے جاتے تھے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عمر ِ عزیز کا وہ حصہ جسے انسان اپنے بچوں اور گھر والوں کے درمیان گذارنا چاہتا ہے ، آپ نے وہ حصہ انجمن کے لیے وقف کردیا، انہوں نے صرف اپنا وقت ہی نہیں دیا بلکہاپنے مال سے بھی خدمت کی اور اس میں اپنے بھائیوں کو بھی شریک کیا اور انجمن کی نئی عمارت "ایڈمن بلاک" ( Administration block) کا مکمل کام تعمیر تک کے مراحل اپنی سرپرستی اور زیرِ نگرانی مکمل کئے۔  جو توفیق  یقینا اللہ کی طرف سے تھی اورجس میں آپ کی  نیک بختی کے ساتھ انجمن کی بھی خوش نصیبی بھی، کہ اس ادارہ کو ایسے افراد ملےجنہوں نے دامے ، درمے، سخنے، قدمے دبستانِ علم کی امداد و اعانت کی۔

آپ ہی کے عہدِ زرین  میں انجمن کا سالہا سال روکا ہوا مسئلہ حل ہوا،  قائدِ قوم اور سابق صدرِ انجمن  جناب سید خلیل الرحمن کے تعاون سے   انجمن آباد کو رجسٹرڈ کیا گیا۔   جس سے آپ کی یہ بے مثال کارکردگی بھی سنہرے الفاظ میں لکھی جائے گی۔

یہ بھی ایک حسنِ اتفاق تھا کہ انجمن میں آپ کے عہدِ صدارت میں انجمن کے قیام سو سال کی تکمیل ہوئی، اس کی تکمیل  پر سن ۲۰۱۹ میں "انجمن صد سالہ" تقریبات منائی گئیں،  جسے پورے سال کے لیے مخصوص کر دیا گیا ۔ ماہِ جنوری ۲۰۱۹  سے اس کا باقاعدہ آغاز ہو ا، سال کے دوران مختلف مناسبتوں اور موضوعات کے تحت خصوصی مہمانوں کو مدعو کر کے رکھا جاتا رہا ۔ مختلف تعلیمی اداروں کے بیچ بچوں میں مقابلے رکھے گئے۔ اسی کے ساتھ  انجمن کے بانیان، مخلصین اور قربانی دینے والوں کی خدمات کامختلف طریقوں سے اعتراف کیا گیا۔   اس طرح جشنِ صد سالہ تقریبات سال کے اختتام تک منائی گئیں۔ جب کہ اس کی  ایک آخری  کڑی اور بڑے پروگرام کو ماہِ دسمبر سے ملتوی کر کے  سن ۲۰۲۰ کے آغاز میں رکھنا طے پایا،  جو کرونا  کے عالمی وبائی مرض کے سامنے آنے کی وجہ سے نہیں رکھا جا سکا۔ اس  جشنِ صد سالہ کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں جہاں اراکینِ انتظامیہ اور ابنائے قدیم کا حصہ رہا ہے، وہیں اس کو خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھانے میں آپ کی سرپرستی کا بھی حصہ رہا ہے، بلکہ آپ اس کے کاموں میں بنفسِ نفیس شریک بھی  رہے ہیں۔

جناب عبد الرحیم صاحب مرحوم کی شخصیت میں اپنے اسلاف کا رنگ چھایا رہا، جسم کے انگ انگ میں انجمن کی خدمات کا رنگ رہا، خون کے ذرے ذرے میں عشق کی حد تک محبت رہی۔اللہ تعالی کی قدرت کے لیے عجب نہیں جو تنہایہی ایک سبب مغفرت بن کا سبب بن  جائےکہ آپ کی زندگی کے تقریبا آخری دو عشرے انجمن ہی کی نذر ہوئے تھے اور نئی نسل میں تعلیمی بیداری لانے میں گزرے تھے

 ان شاء اللہ بھٹکل کا مؤرخ جب قلم اٹھائے گا تو اس کی تعمیر وترقی میں ایک نام جوکاکو شمس الدین کے شانہ بہ شانہ ان کے ہونہار فرزند عبد الرحیم کا بھی ہوگا، جنہوں نے اپنے والد کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے میں اپنے عمرِ عزیز کا ایک حصہ لگایا۔

قابلِ صد ستائش تھی ان کی لگن

انجمن کے تھے وہ ان کی تھی انجمن

وفا شعار بیوی:۔

مرحوم عبد الرحیم صاحب کا نکاح شہر کے معزز گھرانے یعنی قاضیا خانوادے میں ہوا ، وہ  جناب محیی الدین باشاقاضیا کی دختر نیک اختر اور ایس ایم سید عبد الصمد صاحب مرحوم کی لاڈلی پوتی محترمہ قمر النساء  صاحبہتھی، جو بڑےناز نخروں میں پلی تھی، ساتھ میں تعلیم وتربیت یافتہ تھی، حسنِ سیرت کی حامل بھی تھی۔ ایک  عورت کا جوہر  شادی کے بعد سسرال والوں کی خدمت کرنےمیں نمایاں ہوتا ہے، جس میں وہ پوری اتری اور گھر کی ذمے داریاں نبھانے میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنی ساس کا بھی مکمل ساتھ دیتی رہی۔ پورے خاندان میں اس نیک بخت کی میٹھی زبان اورخوش مزاجی نے اپنا سکہ جما لیا تھا، داد ودہش  اس کےداخلِ فطرت تھی،وہ نماز وروزے اور اذکار وعبادات کی پابند تھیں، مہمانوں کا اعزاز واکرام، احباب کو گھر بلانا، خصوصی دعوتیں کرنا، کھلانا پلانا بھی اس کا خاص وصف تھا۔ جب بھی دبئ سے بھٹکل جانا ہوتا بڑے اہتمام سے رشتے داروں کی ملاقات کے لیے جاتی،ایک ایک کا خیال رکھتی، بلا شبہ وہ رشتوں کو بنھانے اور پیار ومحبت بانٹنے میں اپنی مثال آپ تھیں۔

 مياں بیوی کے بیچ جو رشتۂ محبوبیت رہا وہ بھی تادمِ آخر مثالی رہا، جنہوں نے الفت ومحبت کو صرف جوانی تک نہیں بلکہ زندگی بھر نبھایا۔ اس وفا شعار بیوی نے اپنےشوہر کی پسند ونا پسند کا خیال رکھا، ان کی ترجیح پر اپنی ترجیحات کو قربان کر ديا تھا۔ لہذاشوہر جب  ملازمت سے مستعفی ہو گئے، جو عمر عام طور پرانسان کےآرام کرنے اور  اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کی ہوتی ہے، اسے شوہر کے ایک اشارے پر مادرِ وطن بھٹکل جاکر انجمن کی خدمت کے لیے سفر کرنے کے لیے تیار ہو گئی، بلکہ سچی قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر جانا طے کیا اور اپنے بچوں کے ساتھ خلیج یا امریکہ میں زندگی کے آخری ایام گزارنے کے بجائے بھٹکل میں گزاردئے۔ تنِ تنہا بستی روڈ پر واقع قاضی منزل کے عالیشان حویلی میں رہنا غیر معمولی بات تھی، جس میں نہ  بچوں کی موجودگی تھی اور نہ رشتے داروں  میں سے کسی کا ساتھ تھا، ہم یہ بات عینی مشاہدہ کے بعد تحریر کر رہے ہیں کہ قربانی کا لفظ کہنا بہت آسان ہے، مگر اس پر عمل کر کے دکھانا اور برت کر بتنا بہت مشکل اور شاق گزرتا ہے۔

نعمت بہرحال فانی ہی تھی،طویل رفاقت کے بعد یہ وفا شعار خاتون  شہرِ بنگلور  کے ہسپتال میں ماہِ اکتوبر سن ۲۰۱۴ عیسوی اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئی۔اللہ کی ذاتِ عالی سے امید ہے کہ اپنے شوہر کو  خانگی امور میں یکسوئی اور تعاون فراہم کرنےسے تعلیمی اور معاشرتی  زندگی میں جو کاہائے نمایاں انجام پائے ہیں، ان میں مرحومہ کا بھی حصہ ہوگا اوران شاء اللہ جنت میں دوبارہ ساتھ نصیب ہوگا۔ اللہ تعالی دونوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

اپنی رفیقۂ حیات کی ناگہانی موت کے بعد وہ ٹوٹ سے گئے تھے، مگر صبر و شکر اور ہمت کے سہارے جہاں تک بن پایا آپ نے اپنے آپ کو سنبھالا، اپنے کام و کاز میں بالکل فرق آنے نہیں دیا، انجمن کی خدمت اورمعاشرتی ذمے داریوں کو اسی طرح انجام دیتے رہے۔

جوکاکو مرحوم  کاآخری پیغام خواتینِ ملت کے نام:۔

        وفات سے کچھ ایام پہلے آپ کی بیٹی محترمہ عاصمہ جوکاکو  صاحبہ نے اپنے والدِ ماجد سے درخواست کی کہ آپ ہمیں زندگی گزرانے کے انمول اور قیمتی اصول وضابطے بتائیں، ہمیں کچھ ایسی نصیحتیں کریں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں۔ اس باپ نے بیماری کے آخری ایام میں بھی اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر اپنی بیٹی ہی نہیں بلکہ  پوری قوم  وملت کی بیٹیوں کے نام ایک پیغام دینا چاہا، جس میں آپ کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ تھا، جو آپ کا حاصلِ مطالعہ تھا۔  یہ اصل  پیغام انگریزی زبان میں ہے جس کی اصل کے ساتھ اس کی اردو میں  ترجمانی  ہم یہاں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اللہ تعالی اس پیغام کو ہمیں سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

"خواتین کو معاشرے کے لئے کارآمد ثابت ہونے کے لئے رہنما خطوط۔

اردو میں ایک مشہور محاورہ ہے کہ "ماں کے قدموں تلےجنت ہے۔" اور انگریزی میں ایک نظم جس میں کہا گیا ہے کہ ، "ہاتھ جو جھولا ہلاتا ہے  یہ وہ ہوتا  ہے جو دنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔"

یہ کہاوتیں والدہ کے کردار کو ڈھالنے میں جو کردار ادا کرسکتی ہیں اس پر زور دیتا ہے اور ایک بچے کی خیریت کو متاثر کرتا ہے۔ دنیا کی آبادی کا تقریبا ایکاون  (51 %)فیصد حصہ خواتین ہیں۔ وہ ایسی افرادی قوت ہیں جو انفرادی یا مشترکہ طور پر دنیا کو رہنے کے لئے بہتر مقام بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

عموما پوری دنیا میں  اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کو بڑے زبردست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا  ہے،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ  ہم نے دین اور دنیا  کی دونوںتعلیم کی اہمیت کو نظرانداز کر دیاہے۔ جس کے نتیجے میں آج مسلمان معاشی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر پسماندہ  ہو چکے  ہیں۔ خواتین نہ صرف اپنے بچوں بلکہ برادری کے دیگر افراد کو بھی تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ  اگر وہ تعلیم یافتہ مائیں بن جاتی ہیں  تو پورے خاندان کو تعلیم دے سکتی  ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  ہمیں قرآنِ مجید صرف سیکھنا ہی  نہیں بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے اسی کے ساتھ ہی زندہ رہنا چاہئے۔

اعلی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں اتنا مشغول نہیں ہونا چاہئے کہ  وہ خواتین کی آزادی کی آڑ میں ایک ماں کی حیثیت سے اپنے عظیم کردار سے سمجھوتہ کریں۔ اگرچہ معاشی کچھوجوہات کی بناء پر عورت  ملازمت کر سکتی ہے ، لیکن ملازمت میں انھیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کام کے اوقات ایسے ہوں کہ اس کے ساتھ  اپنے گھر والوں کو بھی اچھا  اور صحیح وقت دے سکتی  ہوں۔ انہیں ایسے  کام نہیں اختیار کرنے چاہئے جو ان کی معاشرتی اقدار اور طریقوں کے منافی ہوں۔

        ہمیں اپنی نئی نسل کو جنک فوڈ (junk food) کے عادی ہونے سے روکنے کی کوشش کر کے اس کی  حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ جسے غیر ذمہ دار میڈیا کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ نیز  ہمیں فیکٹری کے ذریعے تیار کردہ چیزوں  کی جگہ پر قدرتی اور نامیاتی کھانے اور اجزاء کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، جس میں نقصان دہ کیمیائی عناصر اور اجزاء کے ساتھ غذاؤں کو محفوظ کیا جاتا ہے"۔

        Guidelines for women to be useful to community

There is a famous proverb in Urdu saying

«
»

تہمت وبہتان-بڑی سماجی برائی

بنگال کی سیاست اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے