انگولا، برما اور ایران

یہ ویسا ہی معاہدہ ہے جیسا یاسرعرفات اور انور سادات نے اسرائیل اور امریکہ سے کیا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کا کیا حشر ہوا، آج جگ ظاہر ہے۔ موجودہ غزہ اُن معاہدوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جو دو بھیڑیوں نے میمنوں کے ساتھ کیا تھا۔ کچھ لوگ اسے اکیسویں صدی کی ’ صلح حدیبیہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہمارا جواب ہے کہ ’’ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟‘‘۔ ہم زندہ رہے تو چھ مہینے سال بھر بعد دیکھ لیں گے۔ ورنہ جو رہیں گے وہ دیکھیں گے۔ 
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی جو کاٹ کھانے والی ملوکیت کی جدید شکل وصورت کے نمائندے ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں انسانیت کا شکار کرتے ہیں فی زمانہ کفر اور طاغوت کے نمائندے ہیں۔ ان کا حال تو وہی ہے جو قرآن نے بتایا ہے کہ ’’ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں اس دین سے پھیرلے جائیں‘‘(البقرہ217) ’’ اور وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم بھی کسی طرح(ان کے جیسے) کافر ہو جاؤ‘‘۔(المُمتَحِنہ۔3) اور قرآن نے اسلام کے دشمنوں کو دوست بنانے سے تو سختی سے منع کیا ہے اس لیے الیہود اور ان کے حلیف اور معاون کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ ’’ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے(المائدہ۔82) 
مذکورہ معاہدے پر گفتگو سے قبل پہلے کچھ مبادیات کا تذکرہ ہو جائے۔ اسرائیل جو مسلم ملکوں کے مقابلے میں ایک بہت چھوٹا سا ملک ہے گزشتہ 50 سال سے ایٹمی ہتھاریوں کا مالک ہے۔ اس کا دیمونا(Dimona) ایٹمی ری ایکٹر فی الواقع ایٹمی اسلحہ ساز کارخانہ ہے۔ اسرائیل کے پاس کم از کم دو سو(200) ایٹم اور ہائیڈروجن بموں کا ذخیرہ ہے اور ایسے دورمار میزائل ہیں جو کئی ہزار کیلو میٹر دور تک مار کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے آج تک اس کا علانیہ اعتراف نہیں کیا ہے امریکہ برطانیہ ، فرانس، روس، چین اور جرمنی سمیت پوری ترقی یافتہ دنیا اس کھلے ہوئے راز OPEN SECRET سے واقف ہے لیکن آٹھ دس برسوں سے ایران کا معاشی مقاطعہ کرنے والے ملکوں کی مجال نہیں ہے کہ کوئی اسرائیل سے باز پرس کر سکے۔ مذکورہ سات ملکوں کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان بھی آج ایٹمی طاقت ہیں یعنی ایٹم اور ہائیڈروجن بم بنانے اور اسے مطلوبہ نشانے تک پہنچانے والے دور مارمیزائلوں کے مالک ہیں۔ ان حالات میں اگر ایران بھی ایٹمی طاقت بن جائے تو اس سے دنیا کا کیا بگڑنے والا ہے؟ سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کو اگر پاکستان ،اسرائیل اور ہندوستان کے ایٹم بموں سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر اسرائیل اور پاکستان و ہندوستان کا ایٹمی طاقت ہونا خطے میں طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑتا تو آخر صرف ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے طاقت کا توازن کیسے بگڑ جائے گا؟
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران کہتا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنارہا ہے اور یہ کہ وہ کہ ایٹمی طاقت کا استعمال محض پُر امن اور شہریCIVIL مقاصد کے لیے کررہا ہے۔ اور یہ کہ ایران ہندوستان نہیں ہے کہ جہاں جنگ محبت اور تجارت میں سب جائز ہے اور جو میکیا ولی اور چانکیہ دونوں کے اصول سیاست پر گامزن ہے۔ دوسرے یہ کہ ایران میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین و قطر کی طرح ’ملوکیت‘ نہیں ہے۔ وہ ملوکیت جس کا اسلام قرآن اور شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایران میں ایک دینی حکومت ہے۔(مسلمانوں کے دوسرے فرقے اسے دینی نہیں مانتے یہ اوربات ہے لیکن خود ایران کا کہنا یہی ہے کہ وہ ولایت فقیہ کے دینی نظام حکومت پر کار بند ہے اور اس کے دستور کی بنیاد قرآن سنت ہیں)۔ ایران کے دینی قائد و رہبر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا فتویٰ ہے کہ ایٹم بم بنانا حرام ہے۔ کیونکہ ایٹم بم ایک اندھا ہتھیار ہے جو دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرتا اور اسلام اندھے ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اسلام بمباری جیسے اندھے طریقۂ جنگ کا حامی ہے۔
ایران کے دعوے کی تصدیق کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا ایران سے یہ کہتی کہ وہ اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کو عالمی معائینے کے لیے کھول دے تاکہ ’ بین الاقوامی ایٹمی معائنہ کار‘ ایرانی نیو کلےئر ری ایکٹروں کا معائنہ کرکے دنیا کو یہ بتا سکیں کہ وہ فی الواقع ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔اور یہی مطالبہ دنیا اسرائیل سے بھی کرتی اور اسے اپنے ایٹمی پروگرام کو ڈکلیر کرنے اور عالمی تحدید اسلحہ قوانین کے تحت لانے پر مجبور کرتی۔لیکن جو دنیا اسرائیل سے اس کے ایٹمی پروگراموں کے بارے میں جواب طلبی کی ہمت نہیں رکھتی یا ضرورت نہیں سمجھتی اُسے ایران یا شمالی کوریا وغیرہ کسی بھی ملک کو آنکھیں دکھانے کا کوئی حق نہیں۔نہ ان پر پابندی لگانے کا کوئی اخلاق اور قانونی جواز۔
لہٰذا جب تک کہ اس کے بر خلاف ثابت نہ ہو جائے ہمیں بھی حکومت ایران کے بیان سے زیادہ رہبر معظم خامنہ ای کے بیان پر یقین ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہا ہے۔ صرف اتنا ہے کہ وہ یورینیم کو اس حد تک افزودہ کرنے کی تکنیک حاصل کرچکا ہے جو ہتھیار سازی میں بھی کام میں لائی جا سکتی ہے۔
اب جو معاہدہ ہواہے وہ سراسر زیادتی ہے اور ایران کو معاشی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں ناک رگڑنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ تو اگر ایران کو یہی کرنا تھا تو روز اول ہی کر لیا ہوتا اپنے شہریوں کو اس مصیبت میں مبتلا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اور اگر ایران اپنے موقف میں صحیح ہے اور حق پر ہے اور کوئی انسانیت دشمن کام نہیں کررہا ہے تو پھر اُسے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی نہ ہے۔ کافر اور ان کا سرپرست ابلیس اہل ایمان کو کتنا ہی پریشان کیوں نہ کرلیں وہ اللہ کی طاقت سے آگے جانا تو درکنار اللہ کی برابری بھی نہیں کر سکتے جو مومنین کا ولی سرپرست وکیل اور مددگار ہے اور اس سے اچھا نہ کوئی مولا ہے نہ سرپرست نہ وکیل نہ مددگار۔ 
یہ عارضی معاہدہ جسے تاریخی کہا جارہا ہے صرف’چھ ماہ‘ کی مدت کے لیے ہے۔ یعنی چھ ماہ بعد پھر نئے سرے سے اُس وقت تک کے حالات پر غور کرکے ممکن ہوا تو نیا جامع معاہدہ کیا جائے گا یا نئی حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔ اِن چھ مہینوں میں یعنی 31مئی 2014تک ایران کو بہر قیمت 5فی صد سے زیادہ کی یورینیم افزودگی بند کرنا ہوگی۔ اس کے پاس جو 3.5فی صد کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ ہے اُسے جامِد رکھنا ہوگا یعنی ایران کو اِس ذخیرے میں اضافے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کے اِن چھ مہینوں کے اندر ایران کو اپنے افزودہ یورینیم کے اُس ذخیرے کو جو اسلحہ سازی کے لائق ہے ضایع اور تَلَف کرنا ہوگا۔ یعنی ایران کو نہ یورینیم کو 20فی صد تک اَفزودہ کرنے کی اجازت ہوگی نہ اسلحہ گریڈ یورینیم کو اپنے پاس ذخیرہ کرنے کا اختیار رہے گا۔ واضح رہے کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے جو یورینیم درکار ہوتا ہے وہ 20فی صد تک ENRICHافزودہ ہونا چاہیے اور ایران نے یورینیم افزودگی کی یہ صلاحیت ازخود حاصل کی ہے۔ اسلحہ گریڈ یورینیم افزودگی کی تکنیک اسے امریکہ روس چین برطانیہ فرانس یا اسرائیل سے نہیں ملی ہے۔ اس تکنیک کا حصول خود ایرانی نیوکلیر سائنسدانوں کا کارنامہ ہے۔ جنہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹ چن چن کے قتل کررہے ہیں۔ اور بے گناہ محمد احمد کاظمی کو گرفتار کرکے اذیتیں دینے والی طاقت کی بھی مجال نہیں ہے کہ وہ اسرائیل سے کوئی جواب طلب کرسکے۔اس نام نہاد تاریخی معاہدے میں جسے اسرائیل تاریخی غلطی کہہ رہا ہے یہ بھی شامل ہے کہ ایران 31مئی 2014تک اپنے ’’اَرَاک ایٹمی رِی اَیکٹر‘‘ کو پوری طرح بند کردے کیونکہ اُسی ری ایکٹر میں 20فی صد یورینیم افزودگی کی سہولت ہے۔ اس کے علاوہ ایران کو اگلے چھ ماہ کے دوران اپنے سبھی ایٹمی ری ایکٹروں کو عالمی معائنہ کاروں کے معائنے کے لیے کھولنا ہوگا۔ اس شرمناک معاہدے کی رو سے ایران کو روزانہ کی بنیاد پر یعنی روز کے روز اپنے ہر ایٹمی ری ایکٹر کی کارکردگی،یورینیم افزودگی اور ذخیرہ شدہ اور استعمال شدہ یورینیم کی مقدار کا حساب رکھنا ہوگا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(IAEA)کے معائنہ کار جو روس ،امریکہ ،برطانیہ،فرانس،چین اور جرمنی کی اتفاق راے سے مقرر کیے جائیں گے روز کے روز ایران کے دیے ہوئے حساب اور ذخیرے کی جانچ کریں گے۔ اور ان شرمناک پابندیوں کے بدلے میں دنیا کی یہ چھ فرعونی و نمرودی طاقتیں ایران کے صرف چھ سے آٹھ بلین کے اثاثے بحال کریں گی اور ازروے احسان معاشی پابندیوں میں قدرے نرمی لائیں گی۔جبکہ فرعونی طاقتوں نے تیل سمیت ایران کی ہر طرح کی درآمد و برآمد کو پوری طرح مفلوج کر رکھا ہے اور یورپ امریکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں اُس کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہیں۔ جس نیوکلیر تکنالوجی کے حصول کی ایران کو یہ سزا دی جارہی ہے وہ اسرائیل کے پاس بدرجہ اَتم کہیں زیادہ تعدادمیں اور گزشتہ50برسوں سے موجود ہے لیکن امریکہ اور سعودی عرب کہتے ہیں کہ ایران کی وجہ سے مشرقِ وُسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے لیکن اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے سعودی عرب،کویت متحد عرب امارات اور قطر وغیرہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ جبکہ یہ وہی چاروں عرب ممالک ہیں جو مصر میں اخوان المسلمون کی اسلامی حکومت گراکر فرعونوں کی آمریت قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ سعودی عرب اپنے ملک کے اندر اور افغانستان ومصر میں جس القاعدہ اور اخوان المسلمون کے خلاف ہے اُسی القاعدہ اور اخوان کی شام میں مدد کررہا ہے! ہم اِسی دوہرے معیار کے خلاف ہیں۔ ٹھیک یہی بات ہندستان پر بھی صادق آتی ہے۔ جب ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ایٹم بم اور ہایڈروجن بم بنا کر ان کا تجربہ بھی کر چکے ہیں اور مختصر، درمیانی اور طویل فاصلے تک مارکرنے اور ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائل طیارے اور آبدوز بھی رکھتے ہیں تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم کسی دوسرے مک کو ایٹمی طاقت بننے سے روکیں؟ ہندستان بھی مغربی ملکوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایران کو اسلحہ گریڈ کا یورینیم افزودہ نہیں کرنا چاہیے یا دوسرے لفظوں میں ایران کو ایٹمی طاقت نہیں بننا چاہیے اس سے خطے میں نام نہاد عدمِ توازن پیدا ہوگا۔ جب ہندستان ،پاکستان اور اسرائیل کے ایٹمی طاقت ہونے سے امریکہ اور سعودی عرب کو کوئی پریشانی نہیں تو ایران یا شمالی کوریا پر قدغن کیوں ہے؟ 
ہم ایک بات جانتے ہیں کہ اب دنیا ہر طرح کی آمریت ،ملوکیت اور فسطائیت سے آزادی اور انصاف کی بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اب یہ دنیا انشاء اللہ بہت جلد اُسی طرح عدل و انصاف سے مملو ہونے والی ہے جس طرح وہ اس وقت ظلم اور ناانصافی سے بھری ہوئی ہے اور ایران سے بہتر اس حقیقت کو اور کون سمجھ سکتا ہے۔ ہم ایران کو ایک اسلامی دینی ریاست سمجھتے ہیں۔ ابھی تک تو ہم مسلم ریاستوں کو روتے آئے ہیں جو طاغوت کو اپنا ولی مولیٰ دوست اور سرپرست بنائے بیٹھے ہیں اور صریحاً قرآنی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن جب کوئی اسلامی ریاست بھی’P5+1‘جیسے ’وفاقِ کفر‘ کے سامنے سرنگوں ہو جائے تو ہم کہاں فریاد کریں؟ 
’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اُس سے ڈرو۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑدیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تو اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کی راہ میں جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو اپنا جگری دوست نہیں بنایا۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔ (سورۂ توبہ آیات13تا16)
اِس وقت پوری دنیا ایران کے گُن گان میں لگی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو چھوڑ کر بقیہ سبھی لوگ 24 نومبر 2013کے جنیوا معاہدے میں ایران کی سفارتی کامیابی کے معترف ہیں، جس کا ایران کو محض جزوی فائدہ پہنچا ہے یا اگلے چھ ماہ کے دوران مئی 2014تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بعض مغربی لکھاریوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب تنہا ہوگیا ہے کیونکہ امریکہ کے لیے اب اس سے زیادہ ایران کی مدد مفید ہوگی۔ 2014میں امریکہ کو افغانستان سے مکمل انخلا کرنا ہے شام کے خلاف فوج کشی مغرب نے پوری طرح مسترد کردی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ شام عراق اور افغانسان میں اب مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان اور سعودی عرب سے زیادہ ایران مؤثرثابت ہو سکتا ہے۔ امریکہ ابھی تک جو کام پاکستان سے لیتا رہا ہے وہ ایران کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے یعنی امریکی مفادات ایران افغانستان ہندستان تروئکا کی مدد سے زیادہ محفوظ ہیں بَہ نِسبَت پاکستان و افغانستان کے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کے بعض مبصرین نے حکومت پاکستان کو ہوشیار بھی کیا ہے کہ وہ اب کچھ اور سوچے کیونکہ محض ناٹو سپلائی کی بندش کے نعرے لگانا شاید اب مستقبل میں زیادہ سود مند نہ ثابت ہو۔ اور کچھ ہندستانی (غیرمسلم) لکھاریوں نے تو جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کے دلوں میں چھپی ہوئی مسلم دشمنی بلکہ اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ مثلاً سواگتو گنگولی نے لکھا کہ’’ایران کی جانب امریکہ کا یہ رُخ اسلامی انتہا پسندی پر مغرب کی فتح کی کلید بھی بن سکتا ہے جس طرح 1972میں چین کی جانب امریکہ کے رُخ کے بعد اشتراکی دنیا میں دراڑ پڑگئی تھی اور انجام کار سرد جنگ میں امریکہ کی فتح ہوئی تھی۔ اس سمجھوتے کے بعد نہ صرف تیل کے سلسلے میں خلیج پر امریکہ اور مغرب کا انحصار کم ہو جائے گا بلکہ اس سے’’سُنّی وَہابی اِسلام‘‘کو شکست دینے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ شیعہ سُنّی کشمکش اب مزید بڑھے گی‘‘(ٹائمز آف انڈیا27نومبر2013)یعنی غیر مسلم اس لیے جنیوا معاہدے سے خوش ہیں کہ اس سے شیعہ سنی تفریق میں اضافہ ہوگا جو مسلم دنیا کو اندر سے مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو امریکہ،سعودی تعلقات میں بھی دراڑدیکھنے لگے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گروہ اچانک خود کو شیعوں کا دوست ثابت کرنے پر تل گیا ہے اور اسے پاکستان وعراق وغیرہ میں شیعوں پر ہونے والے مظالم کا سَدِّ باب ایران، امریکہ دوستی میں دکھائی دینے لگا ہے!
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، اور وہ تعداد میں بہت کم ہیں، جو اس سہل پسندی کے برخلاف فراست و بصیرت سے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ جنیوا معاہدے سے ملنے والے اشارے ایران کو بہی خواہِ اُمّت اور قائد اُمّت کے منصب سے ہٹاکر محض اُمّت کے ایک چھوٹے سے حصے کے دُنیوی مفادات کا محافظ ثابت کررہے ہیں۔ ہم خود کو اِسی گروہ ثانی الذکر کا ہم خیال پاتے ہیں صرف اِس تحفظ کے ساتھ کہ ہمارے نزدیک یہ معاہدہ ایران اور ایرانی قوم کا بھی وہ بھلا شاید نہ کر سکے جس کے خواب دیکھے اور دکھائے جارہے ہیں۔
کہاں یہ خواب کہ ’’اگر ایران عالم اسلام کا جنیوا بن جائے تو کرۂ ارض کی تقدیر بدل سکتی ہے‘‘ اور کہاں یہ تعبیر کہ ایران نے اُسی جنیوا میں محض تھوڑے سے مادّی فائدے کے لیے پوری اُمّت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے!
اول تو ہم شامی،عراقی،بلوچی اور افغان عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کے تئیں مجموعی ایرانی رویے ہی کی تاویل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اسلام تو مظلوم کی تائیدواعانت کا داعی ہے اور نبیوں کا مقصد بعثت ہی عدل و قسط کا قیام ہے۔چہ جاے کہ برمی اور انگولاکے مظلوم مسلم افریقی عوام کے ساتھ اُس کا سلوک!کیا وِلایت فقیہہ کے علم بردار اور پوری ایک اَرب ستر کروڑ اُمّت مسلمۂ عالَمیاں کی اِمامَت کے دَعویدار ملک کا برما اور انگولا کے معاملے میں یہی رویہ ہونا چاہیے جو ہے؟ برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، انہیں تمام بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا گیا ہے اور ایران خاموش ہے؟ انگولا کے ایک لاکھ مسلمانوں کو اپنے مذہب پر چلنے کے بنیادی حق سے محروم کرتے ہوئے کئی سو مساجد کو بلڈوزروں سے منہدم کرکے بقیہ پر سرکاری تالے ڈال دیے گئے ہیں اور ایران کو صرف اپنے معاشی حقوق کی فکر ہے؟ کیا یہ مرگ برامریکہ کا نعرہ لگانے والے ایران کی’شیطان بزرگ‘ سے دوستی کا آغاز نہیں ہے؟ اور کیا اس کے بعدمرگ براسرائیل کے نعرے کی کوئی اَہمیت رہ جاتی ہے؟اور بقول ’اورِیامَقبول جان‘ایران کا ایک اور نعرہ تھا’’مرگ بَرضِدِّولایت فقیہہ‘‘ یعنی ایک مکمل اور خالص اسلامی معاشرے کا قیام جس میں ملوکیت قدیم اور اِباحیتِ جدید کی کوئی جگہ نہ ہو۔ اب پوری مغربی دنیا اور تمام سیکولر لبرل طاقتیں اِس نعرے کے بھی خاتمے کے انتظار میں ہیں کیونکہ اِس کی بنیاد تو اِیران نے خود ہی ہلادی ہے!فاعْتَبِرُو ایااُولیِ الْابْصَار!

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے