اندھیر نگری، چوپٹ راج

از: مفتی صدیق احمد

انڈیا میں ہر آنے والا دن بد سے بد تر ہوتا جارہا ہے، پھیلی ہوئی وبا سے کثرت  سے اموات واقع ہورہی ہیں؛ لیکن اس وبا کی آڑ میں ظلم و تشدد، غنڈہ گردی، حق تلفی، معاشی تباہی، لوٹ مار، انتظامی امور کی لاپرواہی، بھوک مری اور ملک کے سست رو سسٹم کی وجہ سے، وبا سے کہیں زیادہ، لوگ تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں، مودی راج جو کہ موب لنچنگ، مار پیٹ، عصمت دری، دروغ گوئی، دھوکا دھڑی، گھوٹالا بازی، غریب دشمنی اور مذہب کے نام پر متعصبانہ رویہ برتنے والا دور ہے، جس میں اقلیت کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ان کو ڈرا دھمکا کر خود ان کے ہی خلاف میڈیا کے ذریعے نفرت کا پروپگینڈا کیا جارہا ہے، مسلمانوں کی باتوں کا بتنگڑ بنانے میں کسی قسم کی بھی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے، جب کہ بی جی پی آرایس ایس کی غنڈہ گردیوں اور حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں، اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ان پر بے جا ظلم تشدد کیا جارہا ہے، فسادات میں ان کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں اور پھر ان ہی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی جاتی ہے، گویا معاملہ ایسا ہوگیا ہے کہ"الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" انصاف کے ٹھیکے دار ادارے ہوں یا سرکاری اہل کار؛ ہر ایک جبر واستبداد کا ننگا ناچ کر رہے ہیں، سیاسی  پارٹیاں ہوں یا موجودہ سرکار، ہر ایک  اپنا اُلُّو سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے اور حکومت عوام کی تکالیف و مشقت اور پریشانیوں کی پرواہ کیے بغیر، بد حال عوام کے آنسو پونچھنے کے بجائے محض  اپنا ہی راگ الاپنے میں لگی ہوئی ہے اور ووٹ بینک کی گندگی سیاست کرنے میں مشغول ہے.
کرونا وائرس کی وجہ سے بغیر پلان اور بغیر انتظام کے نافذ ہونے والا لوک ڈاؤن، ترتیب  وار چار مراحل طے کرکے اب پانچویں مرحلے میں داخل ہوچکاہے؛ جس کی ابتدا 25 مارچ سے 14 اپریل تک پہلے مرحلے سے ہوئی، دوسرا مرحلہ 15 اپریل سے 3 مئی تک جاری رہا، اس کے بعد تیسرا مرحلہ 4 مئ سے17 مئی تک، اور چوتھا مرحلہ 18 مئی سے 31 مئی کو پورا ہوا؛ اب پانچواں مرحلہ 1جون سے 30 جون تک کا ہے، جس میں 8 جون سے مذہبی مقامات یعنی عبادت گاہیں، ہوٹل اور شاپنگ مول کھولنے کی مشروط اجازت رہے گی ـ
اس درمیان رونما ہونے والے ملکی حالات و واقعات عوام کی بے بسی اور حکومت کی بے رحمی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں، اب تو معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ ملک کے شہری چھپ کر ہی آہ و بکا کرسکتے ہیں، بصورت دیگر ان کو بھی اقتدار پر قابض حکمراں غدّار وطن  قرار دینے میں ذرّہ  برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گےـ
آئین ہند کی دفعہ 14 -15 -16 کو بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے، نیز اظہار رائے کی آزادی جو آئین ہند نے ہمیں فراہم کی ہے ہر شہری سے ظلمًا اسے چھینا جا رہا ہےـ
کرونا وباء پر موجودہ حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے، کیوں کہ پہلے لوک ڈاؤن کے نفاذ کے وقت ملک بھر میں کرونا کے مریض تقریبا 500 تھے، اب ان کی تعداد تقریبا دو لاکھ   سے   متجاوز  ہوچکی ہے اور آئے دن بڑی تیزی سے بڑھتی ہی جارہی ہے اور اب تک اس کی وجہ سے ملک بھر میں 5500  سے زائد لوگوں کی اموات بھی ہوچکی ہے. 
ملکی حالات اور موجودہ حکومت کے رویے سے بہت سے ایسے سوالات  ابھر کر سامنے آرہے ہیں، جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے؛ ان ہی سوالات سے بچنے اور اپنی ناکامیوں کو چھپا کر اسکا بوجھ دوسروں کے سر منڈھنے کے لیے میڈیا کو ہندو مسلم، تبلیغی جماعت اور پاکستان، نیز اسلام کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے میں استعمال کیا جارہا ہے، اور لوک ڈاؤن کا ناجائز فائدہ  اٹھا کر کالے قوانین کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہنے والے مظاہرین کو یکے بعد دیگرے مختلف جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے، صفورا زرگر، ڈاکٹر کفیل، اعظم خان، میران  حیدر، خالد سیفی، عامر منٹوئ، عمر خالد، آصف اقبال فرحان شرجیل امام  اور اسی طرح نہ جانے کتنے اور نوجوان مسلم چہرے ہیں جنہیں لوک ڈاؤن کے درمیان جھوٹے الزامات عائد کرکے گرفتار کر لیا گیا ہےـ
دوسری طرف بی جی پی اور آر ایس ایس کے بڑے بڑے غنڈوں اور بھڑکاؤ بیان دینے والوں کو جو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنی سزا کاٹ رہے تھے انہیں کرونا کے بہانے رہا کیا جارہا ہے، اور بہت سوں کو تو اب تک جرم ثابت ہونے کے باوجود گرفتار ہی نہیں کیا گیا، اب تو یک طرفہ کارراوئی  ہو رہی ہے، پولیس والے بے دردی کے ساتھ  نہتے عوام پر کھلم کھلا ڈنڈے لاٹھی کی برسات کر رہے ہیں، اور چلنے والی گاڑیوں سے غیر قانونی طور پر بے شمار جرمانہ  وصول کیا جارہا ہے، دوسری طرف سرکاری ملکیت یکے بعد دیگرے پرائیویٹ ہاتھوں میں دی جارہی ہے، ڈاکٹروں کو طبی سہولیات فراہم  کرنے میں حکومت ناکام ثابت ہو رہی ہے، مودی  بھگت، بھاجپا اور آر ایس ایس کے افراد لوک ڈاؤن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، مختلف پارٹیوں میں شرکت کر رہے ہیں، برتھ ڈے پارٹیاں منا رہے ہیں ، سرکاری کارندے لوک ڈاؤن توڑ کر من مانی طور پر جو چاہے کر رہے ہیں، جہاں جی چاہے جا اور آ رہے ہیں؛ لیکن نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے نہ ہی شنوائی،  میڈیا مسلمانوں کو کرونا پھیلانے کا ذمہ دار بتا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مسلسل فروغ دینے میں لگا ہوا ہے، نفرت کا زہر اُگلنے والی میڈیا کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز اور واجبی حقوق کی حصولیابی کے لیے اٹھنے والے ہر قدم کو دبایا جا رہا ہے، ساتھ ہی دہشت  گردی کا تمغہ دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے، مریضوں کو اسپتالوں میں مذہب کےنام پر دیکھا بھالا جا رہا ہے، بعض جگہوں سے تو صحت مند افراد کو معمولی سی سردی کی وجہ سے کرونا کے نام  پر لے جایا جاتا ہے اور دو تین دن میں ان کے اہل خانہ کو ان کی نعش حوالے کی جارہی ہے، اور بہت سی جگہوں سے مسلمانوں کو اسپتال میں زہر کا انجکشن دیئے جانے کی مبینہ خبریں آرہی ہے،  اور اس کام پر ابھارنے والی کانپور میڈیکل کالج کی  پرنسپل آرتی لال چندانی کی ویڈیو سامنے  آرہی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ "مسلم  مریضوں پر اتنا پیسہ اور وسائل خرچ کرنے کے بجائے ان کو کسی نہ کسی طریقے سے مار ڈالنا چاہیے"، ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی  کی جانی چاہیے.
بی جے پی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے ہی مسلسل بڑی بڑی رقموں کو بلاوجہ کی چیزوں میں خرچ کیا جا رہا ہے، ٹرمپ کے استقبال میں کروڑوں خرچ کیے گئے، نام و نمود کے لیے مورتیوں پر نہ جانے کتنے ہزار کروڑ خرچ کردیے گئے، لوک ڈاؤن کے درمیان ایک ایک پائی کے لیے ٹرپتے غرباء، فقراء ،مساکین  اِدھر اُدھر پھنسے ہوئے لوگوں اور متوسط طبقے کے لوگوں  کو معمولی سی رقم  کی لالچ دے کر بعض جگہوں پر این پی آر کے لیے مبینہ فارم بھرواتے ہوئے بھی لوگوں کو پکڑا گیا، اور بعض جگہوں پر ان سے دس گنا کرایہ وصول کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا؛ تعجب ہے جس وقت پورا ملک پریشانی میں حکومت کی طرف سے پُر اُمید ہو کر بھوک مری اور پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے مقام تک بحفاظت پہنچانے کے لیے حکومت کی  مدد کا انتظار کر رہا ہے اس وقت حکومت اندھی بہری اور گونگی ہو کر بیٹھی ملک کی بے یارو مددگار مظلوم و بے بس اور لاچار عوام کا تماشا دیکھنے میں لگی ہوئی ہے، میڈیا ہو یا سرکاری بھگت سب صاحب کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں، اور ان سب میں ملک کی  سلامتی کے لیے فکرمند ہونے اور طبی سہولیات اور ویکیسن کا انتظام  کرنے کے بجائے کرونا بھگانے کے لیے کبھی تالی تو کبھی تھالی بجانے کا نامعقول فرمان جاری کیا جا رہا ہے، میڈیا کے زہریلے اثرات کی وجہ سے اب ہندو مسلمانوں کے گھر سامان پہنچانے سے بھی کترا رہے ہیں، اور میڈیا مسلسل تبلیغی مرکز، جماعت اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں لگا ہوا ہے، ان کے خلاف ٹویٹر ٹرینڈ چلایا گیا، ایف آئی آر درج کرائ گئ؛ لیکن نہ ہی سخت کارروائی ہو رہی ہے نہ ہی ایسے میڈیا اہلکاروں کو گرفتار کیا جارہا ہے، آخر کب  تک اس طرح  کی غنڈہ گردی چلتی رہے گی؟
ملک بھر میں اقتدار کا سہارا لے کر کمزور و مزدور طبقے اور اقلیتوں  پر کھلم کھلا ظلم ہو رہاہے، اذان پر پابندی بھی لگائی گئ تھی، مسلم  پاک دامن لڑکیوں کی عصمت کو داغ دار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، انکے خلاف بہتان بازی اور الزام تراشی ہو رہی ہے؛ اور ایسے لوگوں کے خلاف ثبوت کے باوجود گرفتاری نہیں ہو رہی ہے، مختلف جگہوں پر دنگے بھڑکائے جارہے ہیں، سبزی فروشوں کو مذہب کے نام  پر مارا جارہا ہے، انڈین پولیس چوراہوں پر اور گھروں میں گھس کر لوگوں پر ڈنڈے چلا رہی ہے، مزدوروں کا بے رحمی سے قتل کیا جا رہاہے، سواری  کا انتظام نہ کرنے کی وجہ سے پیدل میلوں سفر کر کے جارہے ہیں، بھوک پیاس اور گرمی کی شدت انہیں موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، ان سب اموات کی ذمہ دار حکومت کا غیر منصوبہ بند اچانک نافذ کیا جانے والا لوک ڈاؤن ہے، جس نے نہ جانے کتنوں کی زندگیاں وبا کے لگنے سے قبل ہی لے لی اور کتنوں کی لے رہا ہے، ملک کی حکومت عوام سے ٹیکس لیتی ہے،  سرکاری امدادی فنڈ میں ہزاروں کروڑوں کی امداد بھیجی گئ، آخر وہ سارے پیسے کیا اسی لیے دیے گئے تھے کہ اپنے دوستوں کے قرضے معاف کریں، اور غرباء کو سسکتا، بلکتا، مرتا اور تڑپتا ہوا چھوڑدیں؟
کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال بھی بس ایسے ہی کی جارہی ہے، کورنٹین بھی اس طرح کیا جارہا ہے جس کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا نظر آرہا ہے، مہاجر مزدوروں کی بے بسی پر چو طرفہ ملامت کے بعد ٹرینوں کا انتظام کیا گیا تو پہلے اس میں بھی  بھاری کرایہ وصول کیا گیا ،نیز سفر کو طویل اور پُر مشقت بنایا جارہا ہے، بہت سی ٹرینیں غلط روٹ پر چلی گئیں، ایسی رپورٹس آ رہی ہیں کہ اب تک شرمک اسپیشل ٹرین میں 80 مہاجر مزدوروں  کی موت ہوچکی ہے،  ٹرین کو جانا ہے بہار تو وہ بنگلور پہنچ رہی ہے، ان سب انتظامی لاپرواہی  اور اتنی اموات کا ذمہ دار آخر کون ہے؟
نیز ٹرینوں کو آدھے آدھے دن تک ایک جگہ اشیائے خورد و نوش کے انتظام کے بغیر روکا جارہا ہے،  کیا یہ سب غریب مزدوروں  اور بے بس عوام کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سبب نہیں ہے؟
ملک کے اس قدر متعصبانہ و ظالمانہ ماحول میں بھی وہ مسلمان قابل مبارک باد ہیں جنہوں نے نفرت کا جواب محبت سے دے کر ایک نئی مثال قائم کردی، بلا تفریق مذہب و ملت راستوں پر مزدوروں کو پانی، ہائی وے پر بھوکوں کو کھانا، ٹرینوں اور بسوں میں کھانے کا انتظام اور بسکٹ کے پیکٹس دے کر، پیدل  چلنے والوں کو چپل، بچوں کو دودھ کے  پیکٹس، مجبوروں کو اپنی گاڑیوں سے طویل مسافت تک مفت میں پہنچا کر، دھوپ میں  پھل دے کر، بیماروں کو اپنا خون دے کر، ضرورت مندوں کو گھر گھر غلّے پہنچا کر ،تیار کھانا بھیج کر دنیا کے سامنے انسانیت کی ایک عظیم مثال پیش کی، کورونا بیماری کی وجہ سے غیروں کی ہونے والی  اموات (جن سے اعزہ و اقارب میت کی آخری رسوم  پوری کرنے سے دور بھاگ رہے تھے) کی آخری رسوم  ان کے مذہب کے مطابق ادا کرکے آزادی کے بعد سے اب تک بھائی چارے کی ایک مثال قائم کردی، واقعی مسلمانوں  کا یہ ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال آزادی کے بعد سے اب تک نہیں ملتی ہے؛ غرض امداد  90  فیصد مسلم اور ان کی تنظیموں  اور دیگر افراد کی طرف سے ہوئی ہیں؛ حکومت کا امدادی پیکیج تو صرف مال داروں، بڑی کمپنیوں کے مالکان پر مہربانی اور نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، جس میں غرباء، فقراء اور عام شہری کا کوئ حصہ نہیں، ایسے پیکیج کا کیا فائدہ؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ سرکار صرف مالداروں کی سرکار ہے ، جس میں غریب مزدور کے لیے کوئی راحت نہیں ، مکان مالکان  سے کہہ دیا   گیا کہ  کرایہ  معاف  کردو؛  لیکن   سرکار  لائٹ بل  کیوں  معاف   نہیں  کر رہی ہے؟ آن  لائن  کلاس  کے  ذریعے  اسکول  برائے  نام  کھول  کر  کیوں  فیس  لی جارہی ہے؟  جنکے  پاس  کھانے کے لیے  پیسے نہیں وہ موبائل، انٹرنیٹ اور  اسکول کی فیس   کا پیسہ  کہاں سے   لائیں   گے ؟
یادرکھئے!  آئین نے ہر شہری کو یہ تمام سوالات پوچھنے کا حق دیا ہے، اگرآئین کو نہیں مانتے ہیں  تو سب سے پہلے آپ کو اقتدار سے قبضہ ہٹانا ہوگا، کیوں کہ اسی آئین کی بدولت آپ آج اقتدار پر قابض ہیں،آپ کی ذمہ داری ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت، عوام کو مساوات اور برابری کے ساتھ  لے کر چلیں، ان کی  فریاد سنیں، ان کی  پریشانیوں کا حل نکالیں، اگر آپ اسی طرح ذات دھرم اور کپڑا دیکھ کر پہچان کراتے رہے تو جب سب کے پیٹ پر لات پڑے  گا اور سب آپ کو کٹھہرے میں کھڑا  کر کے سوالات پوچھیں گے، اس وقت نہ ہی پہچان کا موقع ملےگا اور نہ ہی کسی اور چیز کا، آپ خود ہی جانتے ہیں کہ ایک انسان کس حد تک پیٹ کی وجہ سے جا سکتا ہے، ایسے پریشان کُن حالات میں لوک ڈاؤن پر عمل درآمد کرانے کے لیے فوج کی مدد مانگی جارہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں حالات کس قدر نازک ہیں ـ
ظلم کی حکومت زیادہ دن تک نہیں چلتی، کیوں کہ جب ظلم حد سے گزر جاتاہے تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لیکن وہ ظالم کو سبق سکھا کر اس کی  زندگی برباد کر کے ہی جاتا ہے، چوں کہ اس ظلم کے ساتھ کتنوں کی آہیں لگی ہوئی ہوتی ہیں ـ
ادھر ملک کے حالات کورونا وائرس کی وجہ سے اس قدر خراب ہیں اور دوسری طرف چین سرحد پر دراندازی کر رہا ہے، نا ہی میڈیا اس خبر کو دکھا رہی ہے اور نہ مودی حکومت اس پر کچھ بول رہی ہے، کیوں کہ ہندو مسلم کھیلنے سے ان سب کو فرصت نہیں ہے، شاید ایسے مسئلے کو سامنے لانے سے میڈیا کا نفرت کا کاروبار بند ہوجائے گا، آخر ملک پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، پھر بھی اسکا حل  نکالنے کے بجائے ایوان اقتدار اور میڈیا میں گہری خاموشی کیوں نظر آرہی ہے؟
کرونا کو لے کر سیاسی ہلچل خوب تیز ہے، ادھر مودی جی اپنی ریلی کی تیاری میں مصروف ہیں، کیجریوال ہو یا کانگریس  پارٹی یا کوئ اور سیاسی پارٹی، ہر ایک دو چہرا رکھ کر دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر عوام کے ساتھ دھوکہ دھڑی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، تمام پارٹیاں عوام کا اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے اور مقصد پورا ہونے پر لات مار کر اپنی موج و مستی کے ایجنڈے میں لگ جاتی ہیں، ہاں ایسے لوگ بھی ہیں ہر پارٹی میں جو رعایا کے لیے دل و جان سے خدمات انجام دیتے ہیں اور عوام بھی ان کی عزت کرتی ہے، لیکن انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے؛عدلیہ بھی زر خرید غلام ، غنڈوں اور نفرت کے پوجاریوں کو روک نہیں پا رہی ہے؛ آخر کب تک ملک اس طرح  بے قابو  رہےگا؟ کب تک ظلم و تشدد کا بازار گرم رہے گا ؟  موجودہ حکومت کب  ان تمام  چیزوں پر ایکشن لےگی اور ملک میں امن  و سلامتی قائم کرنے کے لیے بھائی  چارہ کو  فروغ دینے کے لیے کچھ مؤثر  اقدامات کرے گی؟
آخر حکومت ایسے وقت میں زبان کھولےگی جب کہ نصف آبادی ظلم و تشدد کا نشانہ بن چکی ہوگی، پھر اس وقت اس آبادی کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہوگا؟
ہماری  یہ تحریر ملک کے ہر سیکولر اور ملک کی بقا و سلامتی کے لیے فکرمند افراد کی آوز اور ان کادرد ہے، ہمارا یہ درد حکومت اور اس کے کارندے اور دیگر سیاسی  پارٹیوں کو سمجھ کر مناسب اقدام کرنا چاہیے؛تاکہ عوام کے درد کا مداوا ہو سکے اور ان کی پریشانیوں کا حل نکل سکے، اور دوبارہ ملک میں امن و آشتی اور سلامتی، اخوّت و محبت  اور بھائی چارے کی فضا قائم  ہوسکے۔

یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے جس سے ادارہ کا  متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

03 جون 2020  (ادارہ فکروخبربھٹکل) 

«
»

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا حکومت ملنے پر لوگوں سے خطاب

منصبِ افتاء مقامِ حزم واحتیاط ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے