تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
حالیہ ایام میں کئی مسلم مخالف واقعات ہوئے مگر کسی میں بھی متاثرین کوانصاف نہیں ملا۔حالانکہ اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ 73سال میں بڑے بڑے مسلم مخالف دنگے ہوئے ان میں بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا۔ میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ، مرادآباد،بہار شریف، بھاگلپور،ممبئی، احمدآباد سے لے کر حالیہ مظفرنگر دنگوں تک ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مارے گئے مگر کتنے قاتلوں کو سزائیں ہوئی؟کتنے زانیوں کو جیل بھیجا گیا؟ کتنے ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا؟ ظاہر ہے کہ محض اس لئے ناانصافی ہوئی کہ ان تمام معاملات میں مظلوم اور متاثر مسلمان تھے۔اس ناانصافی کے لئے بھاجپاسے زیادہ کانگریس،آرجے ڈی،سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی سرکاریں ذمہ دار تھیں۔ بیشتر دنگے کانگریس کے عہد حکومت میں ہوئے۔ حالیہ ایام میں ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوں کو مارنے کے واقعات بھی خوب ہوئے مگر کسی ایک کیس میں بھی انصاف نہیں ہوابلکہ ملزموں کی رہائی میں خود صاحبان اقتدار نے شرمناک کردار نبھایا۔ظاہر ہے کہ اس سب کے لئے حکومت میں بیٹھے لوگ اور پولس وانتظامیہ کی ذہنیت ذمہ دار ہے۔ حال ہی میں آئی ایک سروے رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ پولس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی سرشت میں ہی جرم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب پولس کی ایسی سوچ ہوگی تو نشانے پر مسلمان آئیں گے ہی۔یہی سبب ہے کی دنگوں میں پولس کی گولیوں سے مسلمان مرتے ہیں اور پھر قتل اور فساد کا الزام بھی انھیں کے سرڈال کر انھیں جیلوں میں قید کیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ پولس اور حکومت میں بیٹھے لوگوں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کرینگے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
پولس کی ذہنیت
رپورٹ کے مطابق ہر 2 میں سے ایک پولیس اہلکار یہ محسوس کرتا ہے کہ مسلمان فطری طور پر جرم کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اسٹیٹ آف پولیسنگ ان انڈیا رپورٹ 2019 میں کہی گئی ہے۔یہ رپورٹ غیر سرکاری تنظیم کامن کاز اور سینٹرفاردی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس) کے ’لوکنیتی‘ پروگرام نے تیار کی ہے۔ 27 اگست کو، سپریم کورٹ کے سابق جج جے چیلمشور نے یہ رپورٹ جاری کی تھی۔ ملک کی 21 ریاستوں میں، ہر دوسرے پولیس اہلکار کا خیال ہے کہ قدرتی طور پر مسلمان جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔یہ رپورٹ 12ہزارپولیس اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس سروے میں پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کے قریب 11ہزار ارکان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
تبریز کو کسی نے نہیں مارا
مسلمانوں سے جڑے ہوئے مقدموں میں پولس کا رویہ کیا ہوتاہے؟ اس کی مثال تبریز انصاری لیچنگ کیس میں مل جاتی ہے جسے قتل ہوتے ساری دنیا نے دیکھا مگر پولیس نے ابتدا میں تمام 13 ملزمان کے خلاف قتل کے الزامات خارج کردیئے تھے۔ جھارکھنڈ کے سرائے کیلا،کھرساواں علاقے میں تبریز انصاری نامی ایک مسلم نوجوان کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا تھا۔ اسے موت سے پہلے ’جے شری رام‘ کہنے پر بھی مجبور کیا گیا تھا۔اس پورے معاملے کا ویڈیو بھی بنایا گیا تھا جو سوشل میڈیا میں وائرل ہوگیا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی ایک مٹینگ میں بھی یہ معاملہ اٹھا اور سب ہونے کے بعد جھارکھنڈ پولس نے ملزموں کے خلاف قتل کے الزامات (آئی پی سی کی دفعہ 302)کے تحت مقدمہ بھی درج کیا مگر اسے دفعہ 304 (غیرارادی قتل) میں تبدیل کردیا گیا۔ حالانکہ اس پر تنقید کے بعد پولس نے دوبارہ قتل کی دفعہ جوڑدی۔
پہلوخان کا قاتل کوئی نہیں
تبریز انصاری کے قاتلوں کو بچانے کی سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیں مگر اس سے پہلے راجستھان کے پہلو خان لنچنگ معاملے میں بھی تمام 6 ملزموں کو بری کردیا گیا۔ وہ بھی ایسے میں جب اسے سرعام مارا پیٹا گیا۔ لنچنگ کی ویڈیو بنائی گئی۔ اس کی واضح تصاویر تھیں۔ پہلو خان نے اپنی موت سے پہلے بیان دیا تھا اور مار پیٹ کرنے والوں کے نام بتائے تھے اور پہلو خان کے دونوں بیٹے عینی شاہد تھے۔علاوہ ازیں این ڈی ٹی وی کے ایک اسٹنگ آپریشن میں ملزموں نے اقرار جرم کیا تھا۔ اس کے باوجود تمام ملزمان کو بری کردیا گیا۔ ان کے اہل خانہ اور وکلا نے الزام لگایا کہ کیس کو ہر سطح پر کمزور کیا گیا ہے۔ ساری تحقیقات کا عمل وسندھرا راجے کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ تاہم، گہلوت کی سربراہی میں کانگریس کی حکومت بنی تب بھی ستم کم نہیں ہوا، الٹا پہلو خان کے دوبیٹوں کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کیا گیا جو کیس میں گواہ بھی تھے۔
اخلاق کے قاتلوں کے ساتھ بھاجپائی
دادری میں محمد اخلاق قتل کیس میں بھی اسی طرح کی کمی دیکھی گئی۔ بیسہڑا گاؤں میں ستمبر 2015 میں، 52 سالہ اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالاتھا۔ واقعے کے بعد اخلاق کے کنبے کو تناؤ کے سبب گاؤں چھوڑنا پڑا۔ اب کیس کے تمام ملزم، ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔ وہ بی جے پی نیتاؤں سے بھی قریب ہیں۔اسی سال اپریل میں، جب وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ، دادری میں ایک ریلی سے خطاب کررہے تھے،تو اخلاق قتل کے ملزم، تالیاں بجانے اور نعرے بازی کرنے میں سب سے آگے تھے۔ اس میں مرکزی ملزم وشال رانا بھی شامل تھا۔وشال رانا، بی جے پی ضلع کمیٹی کے ممبر سنجے رانا کا بیٹا ہے۔ مرکزی وزیر مہیش شرمااور مظفر نگر فسادات کے ملزم سنگیت سوم اس واقعے کا سیاسی فائدہ اٹھانے والوں میں پیش پیش رہے ہیں۔
جنیدخان کے قاتلوں کی رہائی
جنید خان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جنید اپنے بھائی کے ہمراہ دہلی سے عید کی خریداری کر ہریانہ جارہا تھا۔ ہجوم نے اسے بلبھ گڑھ کے قریب پیٹا اور چاقو سے وار کیا۔ اس معاملے میں، چھ میں سے چار ملزمان کو تین ماہ کے اندر ضمانت مل گئی۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ ہریانہ ریلوے پولیس نے چارج شیٹ سے ہنگامہ آرائی اور غیر قانونی بھیڑ جیسے متعدد الزامات کو واپس لے لیا تھا۔
قاتلوں کی عزت افزائی
اسی طرح کا معاملہ جھارکھنڈ میں ہوا۔ علیم الدین انصاری کو جون 2017 میں رام گڑھ میں بیف کے الزام میں پیٹ کر قتل کردیا گیا۔ اس معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت نے آٹھ افراد کو سزا سنائی لیکن ہائی کورٹ نے جولائی 2018 میں ضمانت منظور کرلی۔ 2018 میں مرکزی وزیر مملکت، جینت سنہا نے ان 8 افراد کا استقبال کیا۔ انتہا یہ کہ انہوں نے ان کے ساتھ کی تصاویر، فخر سے سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
انصاف کے دروازے بند
حالات بتارہے ہیں کہ تبریز انصاری کے قاتلوں کی ہمدردبن چکی ہے جھارکھنڈ پولس۔اس سے پہلے بھی محمد اخلاق، پہلو خان، جنید خان، علیم الدین انصاری کے معاملوں میں بھی ایسا ہی ہواتوکیا ہم مان لیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے لئے انصاف کے دروازے بند ہوچکے ہیں؟مسلمان کا قتل ہوگا، ماب لنچنگ ہوگی مگر مجرم کو سزا نہیں ملے گی؟ ساری دنیا قتل ہوتے دیکھے گی اور ویڈیو بھی بنایا جائے گا،سوشل میڈیا پر وائرل کیا جائے گامگر قاتلوں کو سزا دینے کے بجائے،ان کی عزت افزائی کی جائیگی۔ تبریز انصاری کو سرعام مارا پیٹا گیا اور پٹائی کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی مگر جھارکھنڈ پولس کا کہنا ہے کہ اس کی موت پٹائی سے نہیں، ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی ماب لنچنگ کے جو واقعات ہوئے ہیں،ان میں مرنے والوں نے موت سے پہلے مجرموں کے نام بتائے، عینی شاہدین نے آنکھوں دیکھی بیان کی، پھر بھی کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم مودی بار بار کہتے ہیں کہ لنچنگ کے مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا۔اس کے برعکس سرکاریں اور بھاجپا کے نیتا مجرموں کے ساتھ دکھائی دیتے رہے ہیں۔ایک طرف مودی ماب لنچنگ کے مجرموں کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے وزیر جینت سنہا ایسے مجرموں کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم،ماب لنچنگ کے خلاف بیان دیتے ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی کے نیتا،محمد اخلاق کے قاتلوں سے ملنے، ان کے گھر جاتے ہیں۔بات صرف جھارکھنڈ کے تبریز انصاری معاملے کی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے دوسرے معاملوں میں بھی کب منصفانہ تحقیقات کی گئی؟
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں