عارف عزیز(بھوپال)
دور جدید میں ترقی، من مانے انداز میں وسائل کے استعمال کی وجہ سے کرہ ارض پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ انسان اپنے مفادات اور خوش حال زندگی بسر کرنے کے لئے جس انداز میں زمین پر تباہی مچا رہا ہے، اُس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی افرا تفری کی نذر ہوگئی ہے۔ نہ صرف انسانی زندگی افراتفری کی نذر ہوئی ہے بلکہ لفظ زندگی کی برقراری پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال گلوبل ورلڈ کی جانب سے جاری کردہ ۶۱۰۲ء رپورٹ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۰۲۰۲ء تک ہر طرح کے جانداروں کی دوتہائی تعداد دنیا سے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔ اِن جانداروں میں جانور پرندے اور مختلف انواع کی مچھلیاں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں جاری ترقی کے تیز رفتار عمل نے زندگیوں کو خطرے کے گھیرے میں لے لیا ہے۔ ۴۱۰۲-۰۷۹۱ء کے عرصہ کے درمیان جانداروں کی تعداد میں ۸۵ فیصد کمی آئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے تو اس سال یہ ۷۶ فیصدہوجائے گا۔ موجودہ طور پر کرہئ ارض پر جانداروں کا صرف ۸۳ فیصد باقی رہ گیا ہے۔ جس میں تازہ پانی پر انحصار کرنے والے جانوروں کا فیصد ۱۸ ہے۔
اس رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ جانوروں کی بقاء میں انسان سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انسانوں کی جانب سے تمام حدود پار کرتے ہوئے جانوروں کو ختم کیا جارہا ہے۔ جنگلات کا خاتمہ کرتے ہوئے زرعی مقاصد کے لئے استعمال معدنیات کی کانکی کے نام پر اراضیات کی تباہی من مانے انداز میں جاری ہے۔ جس کے باعث جنگلات میں زبردست کمی ہورہی ہے، اِس کا یقینا مستقبل میں ماحولیات پر خراب اثر پڑے گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں مانسون کے مزاج میں زبردست تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ دنیا بھر میں موسم کے لحاظ سے برسات نہیں ہورہی بلکہ کہیں زیادہ تو کہیں کم اس کا اوسط ہے۔ جنگلات کی تباہی کے باعث جنگلی جانوروں کی زندگی مزید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جانور غذا کی تلاش میں انسانی آبادیوں کی طرف آرہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ شیر اور ریچھ کی حفاظت مشکل ہوگئی ہے۔ جب جانور انسانی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں تو حضرت انسان اپنی حفاظت کے نام پر جانوروں کا قتل کر دیتے ہیں۔ کرہ ارض پر بسنے والے جملہ جانداروں کا نصف حصہ چین، امریکہ، روس، برازیل اور ہندوستان میں پایا جاتا ہے۔ سابق میں جنگلی جانوروں کی دوسرے ممالک کو اسمگلنگ پر کسی بھی ملک میں توجہ نہیں دی گئی۔ ترقی پذیر ممالک کی صورت بھی مختلف نہیں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جن غلط پالیسیوں کو اختیار کیا گیا، اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ ۰۳ سالوں کے دوران ۷۱ء۱ ملین ہیکٹر جنگلات کو زرعی اراضی میں تبدیل کیا گیا۔ جنگلات کاٹ کر ۳۲ ہزار پراجیکٹس تعمیر کئے گئے۔ جنگلات کا صفایا، جانوروں کو مار کر اگر انسان سمجھتا ہے کہ اس کی بقاء ہو جائے گی تو یہ حضرت انسان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ جانوروں کے تحفظ میں ہی انسان کی بقاء ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں