اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیسویں صدی کے فراعنہ امریکہ و اسرائیل دجال اکبر کی شکل میں اناربکم الاعلی کے رو ا یت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ،کیاآج کی دنیا (عالم اسلام )روکوع کی حالت میں نظر آرہی ہیں؟چنانچہ فلسطین پر ہونے والے مظالم اور عالم اسلام کے پس منظر میںیہود یت کے اغراض و مقاصد کا مطالعہ کرتے ہیں تا کہ انا ربکم الاعلی کو عربی گھوڑوں سے روندنے میں آسانی ہو ۔اول ذکر یہ ہے کہ دنیا میں مذہب اسلام کے ظہور کے ساتھ دو بڑی اسلام مخالف طاقتیں یہود و نصاری ہر محاذ پر آمنے سامنے رہی ہیںیہ دو نو ں مذاہب بنی اسرائیل کی نسل میں تھے یہو د یت اور نصرانیت دونوں ہی آسمانی مذاہب تھے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ توراۃکو اور نصاریٰ حضرت عیسی علیہ ا لسلام پر نازل شدہ انجیل کو مانتے تھے۔ دونوں ہی نسل ابراہیمی سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلا م کو اپنا جداعلی اور روحانی پیشوا مانتے تھے یہ دونو عالمی قدیم مذاہب اور صاحب کتا ب ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف دینی برتر ی کی جنگ میں ہمیشہ لگے رہے یہ دونوں چونکہ آسمانی تھے اس لئے توراۃ اور انجیل کی ہزار تحریف کے بعد بھی ان میں ایسی پیشن گوئیاں موجو د تھیں جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کا آخری نبیؐ عرب کی سر زمین پر عنقریب مبعوث ہونے والا ہے ۔چنانچہ اس اعلان کا شدت سے انتظا ر کرنے لگے ۔مآ بعد مکہ سے اعلان ہوا کہ بنی اسماعیل میں ایک نبی کی بعشت کا اعلان ہوا ہے جو نہ صرف عربوں کو بلکہ ساری دنیا کو نبوت پر ایما ن لانے کی دعوت دے رہے ہیں جس میں یہود ونصاری بھی شامل ہیں اس اعلان سے ان کے کان کھڑ ے ہوگئے اور انہیں مستقبل میں خطر ہ محسوس ہونے لگا کیونکہ نبوت کا سلسلہ بنی اسرائیل سے نکل کر اب بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہو گیا جو ان کے لئے ناقابل برداشت تھا اور تو ر اۃ اور انجیل کی اہمیت قران کے بعد ختم ہونے والی تھی یہاں تک کہ دنیا کا مذہبی پایہ تخت یروشلم سے منتقل ہو کر ان کے جد اعلی حضرت ابراہیم علیہالسلام کے تعمیر کردہ کعبتہ اللہ کی طر ف منتقل ہو گیا۔ جہاں ساری دنیا کے لوگ یہودیت اور نصرانیت کو چھوڑ کر اسلام کے پرچم تلے جمع ہو نگے اور قران نے ان تمام جھوٹے عقاید کا پردہ فاش کرنا شروع کیا ساتھ ہی انہیں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے قیصروکسریٰ کا محل لرز تے دکھائی دینے لگا انہیں اب یقین ہو گیا تھا کی اگر خاموشی برتی گئی تو اسلام کی شعائیں سارے عالم میں پھیل جائینگی اسی بنا پر ایک طرف ان دونوں مذاہب نے اسلام کے خلاف نفرت کی مہم چلائی اور اسلام اور پیغمبر اسلام و ان کے متبعین پر بدترین قسم کے الزامات لگا ئے دوسری طرف ان کی حکومتو ں نے ہر طرف سے اسلامی قلعوں پر فوجی حملہ شروع کردیا جو آج تک جاری ہے۔
دوئم ذ کر یہ ہے کہ یہودیت کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور ابلیس و دجال اکبر کے مابین کون سا رشتہ ہے اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا ملعون نے رب العزت کی قسم کھائی کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرونگا،،چنانچہ رب کا حکم ہواجبرئیل علیہ السلام آدم علیہ السلام کو وادی نعمان میں لے جاؤاور اپنے پروں کو ان کی پشت پر مل دو ،، اس پشت سے بے شمار ذریات نکلی اور عالم ان کی اولاد سے بھر گئیںآدم ؐ نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں کہا یہ تمہاری او لاد ہیں اللہ کا حکم ہوا آدم ذریات صف باندھکرمشرق سے مغرب تک کھڑی ہوں آدم ؐ کے دائیں جانب جو لوگ کھڑے تھے سب مومن تھے اور جو لوگ بائیں جانب تھے وہ کافر تھے کیوں کہ دائیں جانب کے لوگوں نے پہلے اللہ کا سجدہ کیا اور دوسری مرتبہ سجدہ شکر ادا کیا لیکن بائیں جانب کے لوگوں نے سجدہ نہیں کیا یہیں سے کافر ،متکبر کی ابتداء ہو ئی اور ملعو ن اللہ مخالف دشمنی پر مامور ہو گیا ۔ابلیس نے وحدانیت کے دشمنو ں کو تلاش کرنا شرو ع کیا آدم ؐ کے فرزند قابیل کو ہابیل کا قتل کرنے کی ترکیب ملعون ابلیس ہی نے بتائی تھی کیونکہ قا بیل اپنے بھا ئی ہابیل کا دشمن تھا آدم علیہ السلام کے بعد نبیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔تمام نبیوں نے وحدانیت کی دعوت دی جو لوگ ایمان لا ئے وہ فلاح پالئے اور جن لوگوں نے ایمان نہیں لایا ان کے حال سے عالم اسلام واقف ہے لھٰذا جہا ں تک انا ربکم الاعلی کا دعوا شداد و نمرود سے شروع ہوا جس کے تسلسل کو فرعون نے برقرار رکھا ۔یہودی نبیوں کی آ مد اور اور اللہ کی دعوت سے خوف زدہ تھے جس کی اصل وجہ آخر ت میں عذاب الہٰی سے تھا اس لئے نبیوں سے طرح طرح کے سوال کرتے اوربدلے میں جواب کے ساتھ معجزات بھی دیکھتے باوجود اللہ اور نبی پر ایمان نہیں لائے۔ انھوں نے نبیوں کا قتل کرنا شروع کردیاابلیس ملعون نے یہودیوں کو باور کرایا کہ اللہ رب العالمین کا خاتمہ کرکے ’’کون ،، مقا م محمود پر قبصہ کرتاہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور خلیفہ بنایا ۔ابلیس کو خلافت سے محروم رکھااور اس موت کا خاتمہ کردینا جس سے ابلیس کو قیامت کے دن اور یہودیت کو دنیا میں ملنے والی ہے ،آخرت کا خاتمہ کردینا جس کی سزا کا اسے خوف ہے ،ان فرشتوں کا خاتمہ کرد یناجو یہودیوں کی راہ میں حائل ہے چنانچہ ابلیس اور یہودیوں کا یہی منصوبہ ہے جس پر اس نے کائینات کی بہت سی مخلوقات سے تحالف کیا ہے جن میں یہود خاص ہیں ۔
سوئم ذکر یہ ہے کہ دور رسالت ؐکا زمانہ آیا قران کا نزول ہوا جس میں یہودیوں کی من گڑھت کہانیوں اور برائیوں کا پردہ فاش کرنا شروع کیا اس خوف سے یہودیوں نے اسلام کی بڑھتی شعاؤں کو روکنے کی کو شش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے اور جب ان کی تباہی و بربا دی کا سلسلہ شروع ہوا تو ان لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی نبی ﷺاور قرآن کے نزول کے بعدملعون نے یہودیوں کو باور کرایا کہ فتح حا صل کرنا ہے تو قران کا مطالعہ کرو جس میں ان کی روحانی قوت کا راز ہے یہودیوں نے اپنے آقا عزازیل علیہ اللعنتہ کے حکم پر عمل کرنا شروع کردیا کیو ں کہ دور رسالت اور خلافت راشدہ میں کافروں سے ہونے والی جنگ سے واقف تھے عربی گھوڑوں کی فتح یا بی کی ٹاپ ان کے کانو ں میں گونجتی تھی اسلئے قرآن کا جتنا مطالعہ یہودیوں نے کیا اتنا کسی نے نہیں کیااگر اتنا مطالعہ امت محمدیہ کرتی تو آج منظر کچھ اور ہی ہوتا ؟ چنانچہ یہودیوں نے مطالعہ میں پایا کہ امت محمدیہ مسلمہ کی روحانی قوت کا راز اللہ کی وحدانیت ،قران،حضور اکرم ﷺکی شخصیت و سنت اور جہاد فی سبیل اللہ میں ہے اگر اس کو امت مسلمہ میں بحث و مباحثہ بنا دیا جائے تو ان کی روحانی قوت کا خاتمہ ہو جائیگا آج عالم اسلام کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا امت مسلمہ جسے ماضی حال اور مستقبل کاکافی علم دیا گیا ناوقف راہ بھٹک رہی ہے۔
آخر ی بات یہ ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں عالم اسلام کی حالت تبدیل ہو چکی ۔یہودیوں نے مسلمانوں کی روحانی قوت کے چہر ے کو مسخ کرنے کی کوششوں کے بعد ارض مقدس سے لیکرعرش محمودہ پراپنی نگاہیں مرکوز کی ہیں اس لئے خلافت راشدہ کے بعد یہودیوں نے فلسطین پرقبضہ کرنے کی کوشش کی جس میں ان کو کامیابی بھی ملی لیکن صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کویہودیوں کے چنگل سے آزاد کرواکر مسلمانوں کے حوالے کیا بیسویں صدی میں عالم اسلام کوکرب ناک واقعہ سے دوچار ہونا پڑا ۱۹۲۳ میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا ،۱۹۴۸میں یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے غاصب ریاست اسرائیل کا قیام کیا ۔۱۹۹۲ میں جزیرۃ عرب میںیہودیوں کا داخل ہونا جیسے واقعات نے اسلانی قلعہ کی دہلیز کو ہلا کر رکھ دیا ۔گذشتہ مہینوں سے یہودی ریاست اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا قابل غور بات یہ ہے کہ یہودی فوجوں نے سب سے پہلے معصوم بچوں کو قتل کر نا شروع کیا ۔اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ بچوں کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟کیوں کہ جس طرح سے شداد ،نمرود اور فرعون علیہ اللعنتہ نے مختلف خواب میں مختلف تباہی و بربادی کے اشارات دیکھے تھے اور ان کے نجومیو ں نے بتایا تھا کہ ایک لڑکا (نبی) پیدا ہو گا جو تمہاری تباہی و بربادی کی وجہ بنے گا۔جس کے پیش نظر حاملہ عورتوں کے پیٹ کو چاک کرکے بچوں کا قتل کروا دیا تھا ٹھیک اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو اور ان کے حوارین کو خواب میں تباہی و بربادی کا وہ منظر دکھا دیا ہے اور بتا دیا ہے جس طرح سے شداد،نمرود ،فرعون ودیگر کو ہلاک وتباہ ہونا پڑاٹھیک اسی طرح تم بھی ہوجاؤگے اور لگتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا دوور آ ئیگا جو انا ربکم الاعلی کی تباہی اور ہلاکت کی وجہ بنے گی ۔انشاء اللہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطین میں صلا ح ا لدین ایوبی جیسی شخصیت کی پرورش ہورہی ہے اس لئے یہودیوں نے اپنے حوارین کی مد دسے بچوں اورمظلوم مسلمانوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہے تا کہ اپنی تباہی و بربادی کو روک سکیں لیکن امت محمدیہ کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس احکام خداوند ی پر عمل کرتے ہیں جس کا حکم قران نے ہمیں دیا ہے ؟اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو ،فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹو،ورنہ تم پر ظالم حکمراں مسلط کر دئے جائینگے،تم نیکی کا حکم دینے والے اور برائیوں کو روکنے والوں میں سے ہو،اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ضمیر سے اس کا جواب پوچھ لیں تو بہتر ہوگا اوراگر اس کا جواب ہم نے نہیں پوچھا تو یہ مان کے چلئے کہ جس طرح سے صف میںآدم علیہ السلام کے دائیں جانب مومن تھے اور بائیں جانب کافر تھے لیکن ہم کہاں ہیں؟
جواب دیں