شکیل رشید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی صد سالہ تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی کا نام سن کر اردو زبان کے عظیم ترین شاعر مرزا غالب کا ایک مصرعہ یاد آگیا،کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالباس سے پہلے کہ اس مصرعے کے یاد آنے کی […]
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی صد سالہ تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی کا نام سن کر اردو زبان کے عظیم ترین شاعر مرزا غالب کا ایک مصرعہ یاد آگیا، کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب اس سے پہلے کہ اس مصرعے کے یاد آنے کی وجہ پر کوئی بات کروں یہ بتانا ضروری ہے کہ مودی اے ایم یو کی کسی تقریب میں شرکت کرنے والے ملک کے دوسرے وزیراعظم ہوں گے، ان سے پہلے 1964ء میں لال بہادر شاستری نے وزیراعظم کی حیثیت سے یونیورسٹی کی ایک تقریب میں حصہ لیا اور کنوؤکیشن خطبہ دیا تھا۔ لیکن اْن کا تقریب میں حصہ لینا نہ ہی تو یونیورسٹی کے لیے نیک فال ثابت ہوا تھا اور نہ ہی ملک کی اقلیت کے لیے۔ اب یہ دوسرا موقع ہوگا جب کوئی وزیراعظم یونیورسٹی کا مہمانِ خصوصی ہوگا، دل میں ایک خوف، ایک ڈر، اور تشویش ہے کہ کہیں پہلے کی طرح ہی اس بار وزیراعظم کی شرکت کا یہ دوسرا موقع بھی یونیورسٹی کے لیے بد فال نہ ثابت ہو جائے۔ ویسے بھی مودی کی اس سرکار کے اے ایم یو کے لیے کیا منصوبے ہیں ان چھ برسوں کے دوران لوگ بہت کچھ جان گیے ہیں۔ خیر اس پر تو آگے بات ہو گی ہی اس سے پہلے شاستری جی کے دور میں جو کچھ یونیورسٹی میں ہوا تھا کچھ تذکرہ اس کا ہو جائے۔ جو کچھ ہوا تھا وہ شاستری جی کی واپسی کے بعد ہوا تھا۔ ہوا یہ کہ 25 اپریل 1965ء کو اے ایم یو میں وائس چانسلر بنا کر بھیجے گیے علی یاور جنگ نے، جو بعد میں مہاراشٹرکے گورنر بنانے گیے تھے، فنی تعلیم کے شعبوں میں علی گڑھ کے اندرونی طلبہ کے داخلے کو 75 فیصدی سے گھٹا کر 50 فیصدی کر دیا، یہ فیصلہ طلبہ کے مستقبل سے ایک کھلواڑ تھا۔ اس معاملے کی تفصیل مولانا سجاد نعمانی نے اپنے پرچے الفرقان کے اس شمارہ میں دی ہے جو مرحوم حفیظ نعمانی کی یاد میں شائع کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مرحوم علی گڑھ تحریک میں سب سے پہلی صف میں تھے، اور علی گڑھ کے اقلیتی کردار کے تحفظ کے لیے پورے نو مہینے تک لکھنؤ کی جیل میں قید تھے۔ علی یاور جنگ کے فیصلے کے خلاف مسلم طلبہ کے ساتھ ہندو طلبہ نے بھی آواز اٹھائی تھی کیونکہ یہ فیصلہ ان کے مستقبل سے بھی کھلواڑ تھا۔ طلبہ نے ایک مجلسِ عمل بنائی، مطالبات پیش کیے مگر وائس چانسلر نے پولیس بلا لی، اور پولیس و طلبہ کے درمیان کچھ دھکم دھکا ہوئی بھر کسی مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر پولیس نے گولی چلا دی، جس میں دو طلبہ کی جان گئی اور بہت سے زخمی ہونے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شاستری جی یونیورسٹی میں کیا دیکھ کر گیے تھے کہ انہوں نے وائس چانسلر کو ایک ایسے فیصلے کی چھوٹ دے دی جو طلبہ کے مفادات کے خلاف تھا، اور جس کا لازمی نتیجہ بے چینی تھی؟ اس سوال کا جواب سامنے ہے۔ آج کی طرح گزرے ہوئے کل کو بھی فرقہ پرستوں کو، جن میں کانگریسی سرِفہرست تھے، یونیورسٹی کا اقلیتی کردار اور یونیورسٹی کے ساتھ لفظ مسلم ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ شاستری جی کو بھی جو پنڈت جواہر لال نہرو کے بہت قریب تھے، یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے محبت نہیں تھی۔ تو ہوا یہ کہ گولی باری کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلہ نے……. جنہیں عام طور پر ایم سی چھاگلہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جو بعدازموت اپنی وصیت کے مطابق دفن نہیں کیے گیے، جلائے گیے تھے…… گولی باری کو جائز ٹھہراتے ہوئے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ چونکہ پکے نیشنلسٹ علی یاور جنگ مسلم یونیورسٹی میں سیکولر نظام کا چلن قائم کرنا چاہتے تھے اس لیے ان پر سازش رچ کر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ پولیس کی گولی باری سازشیوں کا دفاع ٹھہری۔ مسٹر چھاگلہ ایک آرڈیننس لے کر آے، جیسے ان دنوں مودی سرکار اور یوگی سرکار آرڈیننس لاتی ہے، جس کے تحت مسلم یونیورسٹی کے قانون کومعطل کردیا گیا اور اس کے ابتداء سے چلے آ رہے اقلیتی کردار کو چھین لیا گیا، حالانکہ اس یونیورسٹی کا قیام سرسید احمد خان کی قیادت میں مسلمانوں نے ہی کیا تھا۔ الفرقان میں مسلم یونیورسٹی کے ایکٹ پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے جو پیش ہے:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انتظام کے لیے ایک جماعت بنی تھی جسے کورٹ کہتے ہیں، نئے قانون کے تحت 1920ء میں جب یونیورسٹی وجود میں آئی تھی تو کورٹ کے تمام ممبران قانوناً مسلمان ہوتے تھے، 1951ء میں جب دوسرا ایکٹ پاس ہوا تو اس میں غیر مسلموں کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی، مگر اس میں طریقہ انتخاب ایسا تھاکہ اکثریت مسلمانوں ہی کی رہتی تھی۔ 1965ء میں چھاگلہ صاحب کے زمانے میں بنیادی نوعیت کی ترمیمیں کرکے کورٹ کا اختیار چھین لیا گیا، اور اس کی حیثیت صرف مشاورتی کمیٹی بنا دی گئی۔اور کورٹ اور ایکزیکویٹو کونسل کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار صدر جمہوریہ (یعنی مرکزی حکومت) کو دے دیا گیا؛ یعنی یونیورسٹی کے انتظامی اختیارات مسلمانوں سے چھین کر حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔۔۔۔ جس قانون کے تحت 1920ء میں مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اس میں 1951ء میں کچھ ترمیمات ہوئیں، تاہم قانون کی اصل روح باقی رہی۔ اس قانون کی دفعہ 5 کی ذیلی دفعہ 2 میں صاف درج ہے: علوم مشرقیہ و تعلیمات اسلامی کو ترقی دینا اور علوم اسلامی اور مذہب اسلام کی تعلیم دہنا اور اخلاقی و جسمانی تربیت بہم پہنچانا۔۔۔۔ یہ ہے مسلم یونیورسٹی کا وہ اصل کردار جس کے لیے ماضی میں جنگ لڑی گئی، یونیورسٹی سے لفظ مسلم ہٹانے کے خلاف وزیراعظم اندرا گاندھی تک سے لوہا لیا گیا۔ ادھر 2005ء سے یونیورسٹی سے جڑا لفظ مسلم پھر کچھ لوگوں کو کھٹکنے لگا ہے، خیر کھٹکتا تو ہمیشہ رہا ہے لیکن یہ کھٹکنا باطن سے ظاہر میں آ گیا ہے، اور اس میں شدت 2014ء کے بعد کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ کبھی سنگھ پریوار کے ساتھ کانگریس کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں سارے فساد کی جڑ اس سے جڑا ہوا لفظ مسلم ہے، اسے ہٹایا جائے، اب یہ کہنے والے مزید پیدا ہو گیے ہیں۔ اس لفظ کی گونج عدالتوں اور پارلیمنٹ میں سنائی دی ہے۔ بس معاملہ یہ ہے کہ اے ایم یو کے طلبہ ہمیشہ ملک اور قوم کے مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوے ہیں۔ اور ہمیشہ ہی گولیاں کھائی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کہا کرتے تھے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس طرح قومی زندگی کے مختلف معاملات میں حصہ لیتی ہے اسی سے ہندوستان کی قومی زندگی میں مسلمانوں کے مقام کا فیصلہ ہوگا۔ اور ہندوستان کا جو رویہ علی گڑھ کے ساتھ ہوگا وہی یہ فیصلہ کرے گا کہ مستقبل میں ہماری قومی زندگی کیا رخ اختیار کرے گی۔ اور سچ پہلی بار 1965ء میں سامنے آیا، پھر جب مودی سرکار کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے 11 جنوری 2016ء کو مکل روہتگی نے سپریم کورٹ میں یہ کہا کہ حکومت ہند کا یہ ماننا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی یونیورسٹی نہیں ہے، تب پھر یہ سچ سامنے آ گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہندوستان سے جس رویے کے متمنی تھے، اس پر عمل نہ پہلے ہوا تھا اور نہ اب ہوگا۔ مودی سرکار نے اے ایم یو کی راہ میں کانٹے بونے کے لیے ایک وقت کی انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی سے لے کر امیت شاہ تک سب کو استعمال کیا ہے۔ کانگریس کی طرح مسلمانوں کا بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ضمیرالدین شاہ تو وائس چانسلر کی حیثیت سے مکمل استعمال نہیں ہو پائے، مگر طارق منصور، موجودہ وائس چانسلر کی کہانی کچھ الگ ہے۔ ان کی وائس چانسلری کے دور میں ہی مودی سرکار کا سی اے اے قانون آیا، اور جامعہ کے ساتھ اے ایم یو کے طلبہ نے بھی احتجاج شروع کیا۔ سی اے اے اور ان احتجاجات کو ایک سال بیت گیا ہے۔ 15 دسمبر 2019ء کو جامعہ کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر بھی پولیس نے چڑھائی کی تھی۔ اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ دونوں ہی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات تقریباً ہاتھ اٹھا چکے ہیں، لیکن کیا جو کچھ ہوا اسے بھولا جا سکتا ہے؟ علی یاور جنگ کے دور کی طرح اے ایم یو میں پولیس کا استعمال کیا گیا؟ ساتھ ہی ریپیڈ ایکشن فورس بھیجی گئی، طلبہ پر آنسو گیس کے گولے داغے گیے، ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں اور سْن کرنے والے گرینیڈ پھینکے گیے۔ تین طلبہ شدید طور پر زخمی ہوئے، ایک کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا۔ ہوسٹلوں کے کمروں میں پولیس دروازے توڑ کر گھسی، آنسو گیس چھوڑی جس کے سبب طلبہ میں سے بہت سے بے ہوش ہوگئے، انہیں بابِ سر سید پر لے جا کر انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ طلبہ گرفتار کیے گیے، اور دو ایف آئی آر بنا کر ایک میں 56 افراد کے خلاف اور دوسری میں کوئی تیرہ سو لوگوں کے خلاف مقدمات درج کر دیے گیے۔ اور یہ سب وزیراعظم مودی کے دست راست امیت شاہ کے ملک کا وزیر داخلہ ہونے کی صورت میں ہوا۔ بچے اب بھی مقدمات کی زد میں ہیں اور طارق منصور نے مودی صاحب کو صد سالہ تقریب کا مہمان خصوصی بنا دیا ہے، وہی مودی جن کی حکومت نے سی اے اے قانون بنایا، اور طلبہ نے جس پر احتجاج کیا۔ سوال یہ ہے کہ مودی کس منھ سے اے ایم یو کے طلبہ کا سامنا کریں گے۔ شاید سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے اسی لیے دہلی میں بیٹھ کر 22 دسمبر کو آن لائن خطاب دیں گے۔ لیکن کیا کہیں گے؟ یہ کہ طلبہ کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا، اور یہ کہ اب سی اے اے کے خلاف احتجاج بند کیا جائے؟ میرا مشورہ ہے، حالانکہ پتہ ہے کہ مشورہ سنا نہیں جائے گا، مودی طلبہ کے ساتھ جو ہوا اس پر اظہارِ ندامت کریں، سی اے اے واپس لیں، یہ یقین دلائیں کہ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو چھینا نہیں جائے گا، اور ملک سے کہیں کہ سب کا ساتھ کا یہی طریقہ ہے، ملک اسی طرح امن و امان سے چل سکتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں