امریکا میں آنے والا حالیہ بحران نیا نہیں ہے تاہم پہلے سے شدید ضرور ہے کہ 17 سال کے بعد پہلی مرتبہ حکومت کو شٹ ڈان کی کال دینی پڑی۔اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں انتہائی تفصیل کے ساتھ میں نے یہ بتایا ہے کہ دنیا پر ایک عالمگیرشیطانی حکومت کے قیام کے لیے کس طرح شیطان کے ماننے والوں نے دنیا میں بینکاری نظام کی بنیاد رکھی او رسب سے پہلے بینک آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ برطانیہ کے بعد فرانس اور امریکا ، سب ایک ایک کرکے ان کے تسلط میں آتے چلے گئے۔ فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا کے قیام کے ساتھ ہی دنیا بھر پر ان کے قبضے کی راہ ہموار ہوگئی اور اب یورپ، امریکا، ایشیا، افریقہ، دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جو ان بینکاروں کے اشاروں پر نہیں ناچ رہا۔ کون سا ایسا ملک بچا ہے جہاں پر ان کی کٹھ پتلی حکومت قائم نہیں ہے۔ اسی طرح میں اکثر اپنے کالموں میں اس موضوع پرلکھتا رہا ہوں کہ موجودہ تیسری عالمگیر جنگ جس کا آغاز افغانستان پر روسی حملے کے آغاز سے ہوا تھا، کے سب سے بڑے متاثر فرسٹ ورلڈ کے ہی باسی ہیں۔ امریکا، برطانیہ ، فرانس اور وہ تمام ممالک جو ان بینکاروں کے اشاروں پر دنیا بھر میں فوج کشی کرتے پھر رہے ہیں، کے عوام ہی اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ جب 2010 میں ، میں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ امریکا روز چار ارب ڈالر کا مقروض ہوجاتا ہے اور برطانیہ کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے تو بہت سارے لوگوں کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
بینکاروں کے طریقہ واردات کو ہم ایک مثال سے بہت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی بینکار آپ کا کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہو، آپ کو اس وقت تک ایک ہزار روپے کا قرض نہیں دے گا جب تک وہ آپ کی دو ہزار روپے کی جائداد بطور ضمانت اپنے پاس گروی نہیں رکھ لے گا۔ فرض کریں کہ آپ نے قرض پانچ سال کے لیے لیا ہے اور آپ باقاعدگی سے وقت پر سود سمیت اس کی قسطیں بھی ادا کررہے ہیں تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ آپ کو مزید قرض دے۔ اگر آپ پانچ سال کے بجائے ایک سال میں ہی اس کا قرض ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کی تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے۔اگر آپ اپنے قرض کی یکمشت ادائیگی پر اصرار کریں گے تو وہ آپ پر پنالٹی عائد کردے گا۔ ہاں اگر آپ پانچ سال کے بجائے بیس سال تک کی قسطیں کرانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو چائے ٹھنڈا بھی پلائے گا اور ایسا فورا کردے گا۔ اب اس بینکار کی کوشش ہوگی کہ آپ اس سے مزید قرض لے لیں۔ ایسا ہی آپ کریڈٹ کارڈ کے معاملے پر دیکھیں۔ اگر آپ کی حد پچاس ہزار روپے ہے اور آپ وقت پر ادائیگی کررہے ہیں تو بینک آپ کی حد فورا پانچ لاکھ کردے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ آپ کسی طرح ڈیفالٹ کرجائیں اور ماہانہ قسطوں پر آجائیں۔ اس سے جو قرض لیا ہے وہ ادا نہ کرسکیں اور اس قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیں۔ ظاہر ہے مزید قرض کی ادائیگی کے لیے آپ اپنی مزید جائداد اس کے پاس گروی رکھیں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ آپ کے پاس جائداد ہے۔ جیسے ہی جائداد ختم ہوگی وہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو غلام بنالے گا۔
بالکل یہی صورتحال ممالک کے ساتھ بینکوں کی ہے۔یہ بینک ممالک کو بھی قرضے اثاثوں کو گروی رکھے بغیر جاری نہیں کرتے۔ یہ بینک کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ایجنٹ حکمراں مسلسل قرض لیتے رہیں اور پورے ملک کو یکے بعد دیگرے ان کے پاس گروی رکھتے رہیں۔ جیسے ہی اثاثے ختم ہوں گے، انسانی اثاثے غلام بننا شروع ہوجائیں گے اور یہی ان بینکاروں کا حتمی ہدف ہے۔چاہے امریکا ہو، برطانیہ ہو ، عرب ممالک ہوں یا پاکستان ہو، ذرا یہ تو دیکھیے کہ ان ممالک کو قرض دیتا کون ہے۔ یہی بینکار۔
اب امریکا کی قرض حاصل کرنے کی حد ختم ہوگئی ہے تو یہ بینکار پاگل ہوگئے ہیں اور انہوں نے امریکی قوم کا بازو موڑنا شروع کردیا ہے کہ مزید قرض لو ورنہ تمہارا حشر کردیا جائے گا۔ یہ تو امریکا ہے جہاں کی صورتحال واضح ہے۔ ذرا پاکستان کی تو خبر لیجئے کہ نئی حکومت نے محض ساڑھے تین ماہ میں مزید کتنا قرض لیا۔ آئی ایم ایف یعنی بینکاروں کے پاس کیا کیا گروی رکھا اور کن شرائط پر رکھا۔اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ چاہے مشرف ہو، زرداری ہو یا نواز شریف، یہ سب کے سب اسی طرح دیے گئے اسکرپٹ پر کام کرتے ہیں جس طرح بش اور اوباما کرتے ہیں۔
جان لیجیے اور سمجھ لیجیے کہ یہ بینکار ہی ہیں جو اس دنیا پر شیطان کی ایک عالمگیر حکومت کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار سود ہی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کوشش کرکے انفرادی طور پر تو اس سے بچ سکتے ہیں مگر بحیثیت قوم بے بس ہیں کہ مشرف، زرداری، شریف، بش، اوباما وغیرہ وغیرہ ان ہی کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
جواب دیں