امریکی سماج کے امتیازی سلوک کا ایک اہم نشانہ امریکہ کے وہ قدیم باشندے ہیں جو امریکہ کی جدید دریافت سے پہلے وہاں آباد تھے امریکہ میں انہیں مقامی امریکیوں کے نام سے جانا جاتا ہے انہیں امریکی سماج میں بڑے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے جس کا بنیادی سبب ان کی وہ قدیم شناخت ہے جسے وہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، امریکی سماج کا دوسرا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ وہاں کا مسلم طبقہ ہے جو اپنے مذہب کے باعث عام امریکیوں کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے کیونکہ امریکی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر اپنے شہریوں کے سامنے پیش کی ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ اسلام اور مسلمان کا نام لیتے ہی ایک عام امریکی کے ذہن میں انتہا پسند اور دہشت گرد کا تصور ابھر آتا ہے جو ظاہر ہے کہ میڈیا کے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ ۱۱ ستمبر کا دہشت پسندانہ حملہ تو ابھی پچھلے سال ہوا ہے، اس سے کافی پہلے سے مسلمان وہاں مختلف امتیازات اور جانبداری کے شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایک سروے کروایا جس میں پایاگیا کہ امریکہ میں دیگر گروپوں کے حالات تو ٹھیک ہیں لیکن مقامی امریکیوں اور مسلمانوں کے ساتھ امریکہ میں عدم رواداری کا رویہ عام ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک خصوصی تفتیش کار عبدالفتاح آمور نے مذہبی عدم رواداری کی بنیاد پر جب یہ سروے کیاتھا تو انہوں نے پایا کہ امریکہ میں رومن کیتھولک، پروٹسٹنٹ، یہودی، ہندو، بدھسٹ، گواہان، یہوہ، مارمن اور دیگر مذہبی گروہ عام طور پر مطمئن ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ میں سبھی مذاہب اور نسلوں کا یوں تو خیر مقدم ہوتا ہے لیکن مسلم اقلیت کے بارے میں بلاکسی شک وشبہے کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسے اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ کو لے کر مسائل کا سامنا ہے۔ گوکہ سرکاری سطح پر اس طرح کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ لیکن عملاً انہیں جانبداری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آمور کے خیال میں اسلام بآسانی امریکہ میں پھل پھول سکتا ہے لیکن وہاں اسلامی فوبیا کے پروپیگنڈے نے مذہبی اور نسلی عدم رواداری کو جنم دیا ہے۔ عبدالفتاح آمور اس کے لئے براہ راست یہودی میڈیا اور پریس کو مور د الزام ٹھہراتے ہیں جس نے اسلام کی تصویر مسخ کرکے پیش کی ہے اس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی ہے انہیں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے کر نفرت کے پیغام کو گھر تک پہونچایا ہے آمور نے امریکی میڈیا پر زور دیاتھا کہ جس طرح اس نے اسلام کی تصویر مسخ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اسی طرح اسے چاہئے کہ اسلام کی صاف ستھری اور واضح تصویر پیش کرنے کو اپنی روایات میں شامل کرے، ان کے خیال مین تعلیم کا شعبہ بھی اس سلسلے میں ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
عبدالفتاح آمور نے اپنی سروے رپورٹ ، امریکی دارالحکومت واشنگٹن ، شکاگو، نیویارک، اٹلانٹا، سالٹ لیک سٹی، لاس اینجلس اور آری زونا جیسے اہم مقامات کا دورہ کرنے کے بعد تیار کی تھی اور اس کے لئے انہوں نے امریکی حکومت کے عہدیداروں، سپریم کورٹ کے ججوں، رضاکار اور مذہبی گروپوں سے خاص طور پر ملاقات کی۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ عدم رواداری کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے بات چیت اور رابطہ کو فروغ دیا جائے جس کا تجزیہ خلیجی جنگ کے بعد کیلی فورنیا میں کیا جاچکا ہے ۔ اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اس کے ساتھ ہی ایک اور کام جس پر امریکی مسلمانوں کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پریس یا میڈیا کے ذریعہ اسلام کی تصویر خراب کرنے کے لئے جو غلط پروپیگنڈہ ہوتا ہے اس کا ہر سطح پر نوٹس لیاجائے اور اسی پریس کو اس پروپیگنڈہ کوکاؤنٹر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے البتہ اس کے لئے انہیں سخت محنت کرنی ہوگی۔ سونے کے سکوں اور ڈالر کے نوٹوں کے خول سے باہر نکلنا پڑیگا۔ انہیں جلد یا بدیر یہ کام کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے امریکہ میں فضا سازگار نہیں ہوسکتی۔ بالخصوص یہودیوں کی وجہ سے جو امریکہ کے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں اور مسلم دشمنی ان کی جبلت میں شامل ہے۔
جواب دیں