اس قرارداد کے بعد پاکستان کی جو تحریک مسلم لیگ نے شروع کی اس کی بنیاد انتہائی بدتمیزی اور بدلحاظی پر رکھی گئی جس طرح کے اخلاقی معیار سے گرے ہوئے نعرے گلی گلی اور گاؤں گاؤں میں لگے انہیں سوچ کر آج بھی شرم آتی ہے اورمسلم لیگ کے لیڈروں نے جو الفاظ اور جیسا لہجہ اختیار کیا وہ انتہائی شرم ناک تھا ۔ لیکن پاکستان والوں کو وہ آج بھی عزیز ہے اسی لئے پچھترسال کے بعد ہمیں یہ سننے کا موقع ملا کہ ’’ہندوبنیااور پنڈت برہمن‘‘کسی کے دوست نہیں ہوسکتے ۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہندوستان میں الیکشن کے نتائج آنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے نریندرمودی صاحب کو مبارک باد دی ۔ اب جب کہ حلف برداری کی تاریخ اور وقت طے ہوگیا تو مودی جی نے اپنے پڑوسی سارک ملکوں کے سربراہوں کو دعوت دی کہ ہندوستان کی خوشی میں وہ شریک ہوں ۔ سارک کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کے وزیراعظم کوبھی دعوت نامہ بھیجا گیا ۔ اور یہ مسئلہ دونوں ملکوں میں بحث کا موضوع بن گیا ۔ اور شریف کے آنے نہ آنے کو ہندوستان کی عزت اور ذلت کا سوال بنادیا جو بالکل بے وجہ تھا ۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتاہے کہ انتخابی مہم سے پہلے بھی ہندوستان کے نرم رویہ پر ہمیشہ مودی جی تنقید کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان کے صدر جب اجمیر میں خواجہ غریب نواز کے مزارپر حاضری دینے آئے تو حکومت نے سلمان خورشید کو جے پور بھیجا انہوں نے صدر کے قیام اور کھانے کا انتظام کیا اس پر بھی مودی جی نے بہت ہی توہین آمیزرویہ اپنایا تھا ۔ انہوں نے پاکستان کو نہیں منموہن حکومت کو کہا تھا کہ جس ملک کے فوجی ہمارے جوانوں کو مار کر ان کے سرکاٹ کر لے جائیں اور ہم اس ملک کے صدر کو جے پور جاکر بریانی کھلائیں ؟اس کے بعد انتخابی مہم کے دوران بھی پاکستان پر مودی جی کی سنگ باری جاری رہی۔ لیکن یہ ہر سیاسی آدمی جانتاہے کہ حکومت حاصل کرنے کی جدوجہدمیں عوام سے ہو کہاجاتاہے جو وہ سننا چاہتے ہیں لیکن حکومت حاصل ہوجانے کے بعد رہ کیا جاتاہے جو باجپئی جی نے کیا اور منموہن سنگھ دس سال سے کررہے تھے اس لئے کہ حکومت کے بعد حکمراں کی شخصیت دنیا بھر کے سربراہوں کی ٹیم کے ایک رکن کی ہوجاتی ہے اور اسے وہ کرنا پڑتاہے جس سے پوری دنیا میں کوئی انگلی نہ اٹھاسکے ۔
حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کے آنے نہ آنے پر طرح طرح کے خیالات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ جیسے یہ کہ فوج اگر چاہے گی تو وہ آئیں گے ورنہ نہیں ۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے آنے نہ آنے کا مسئلہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔ براک اوبامہ اگرکہیں گے تو ہر مخالفت کے باوجود وہ آئیں گے اوران کااشارہ نہیں ہوا تو کوئی انہیں لا نہیں سکتا۔ پاکستان کے لئے شرم کی بات ہے کہ اس کا روأں روأں امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔ رہے حافظ سعید یا لیاقت بلوچ تو پاکستان میں ان کی حیثیت رہی ہے جو ہندوستان میں پروین توگڑیا یا سبرامنیم سوامی کی ہے ۔ وہ ان کے ہی بیٹے یا داماد ہوں گے جو تقسیم سے پہلے نعرے لگایا کرتے تھے کہ دھتیا راج نہیں چلے گا ،لٹیا راج نہیں چلے گااور چٹیا راج نہیں چلے گا ۔ افسوس کہ پچھتر سال گذرنے کے بعد بھی کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہی ۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا وہاں سب سے زیادہ بااثر جماعت اسلامی تھی اور سب سے محترم شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تھی ۔ بجائے اس کے کہ پچھترسال میں وہ مودودی صاحب کی تحریروں اور تحریک کی بدولت پوری دنیا کو اسلامی قدروں کا پابند بناتا خودسماجی اعتبار سے انتہائی گرا ہواملک بن گیا ہے۔پاکستان میں کیا کیا کہایا لکھا جاتاہے ہمیں نہیں معلوم لیکن ہندوستان میں ہردوسرے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں اور یہ بھی سننے کو ملتاہے کہ لشکر طیبہ کے لڑکے آئے تھے جو مارگرائے گئے۔ جسے حافظ سعید کہا جاتاہے وہ تواس لئے بھی قابل گردن زنی ہے کہ نہ جانے اس نے کتنے خاندانوں کے ان نوجوانوں کو جنت بھیجنے کی لالچ میں جہنم بھجوادیا اور گھروں کے چراغ گل کردئے ۔ پاکستان کا قانون اس کا کچھ اسلئے نہیں بگاڑسکتاکہ فوج کی پشت پناہی اسے حاصل ہے وہی اس کی آمدنی کا ذریعہ ہے اور وہی جدید ترین اسلحہ کا ۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ نواز شریف کاکیا جواب آئے گا لیکن ہم اتنا ضرور کہیں کہ اب انہیں جس حکومت سے سابقہ پڑے گاوہ منموہن حکومت سے بہت مختلف ہوگی اور جس طرح سعید اور بلوچ ہندوبنیا اور برہمن کہہ کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ اب جن کی بدولت حکومت بدلی ہے ان کا نشانہ ہندوستان میں داڑھی اور ٹوپی ہے اور 95فیصد ی ان میں وہ ہیں جو پاکستان کا وجودہی ختم کردینے کے حق میں ہیں رہاپاکستان تو وہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے برابرہے ظاہر ہے اس کی فوجی طاقت بھی اسی تناسب سے ہوگی ۔ افسوس اس کا ہے اس کے پاس وہ طاقت بھی نہیں جس کے سامنے دنیاکی ہر طاقت ہیچ ہے یعنی ایمان ۔ وہ ایسابددین ملک بن گیا ہے جہاں مسجدوں میں نمازیوں کا خون بہا یا جاتاہے جہاں برادرکشی ایک فیشن ہے۔ اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ ہندوستان کو بڑابھائی مان کر اس سے تعلقات اچھے کرے ۔ رہا چین تو اس پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر کے وہ بہت بڑی غلطی کرے گا ۔
جواب دیں