صنعا میں حوثیوں کی بغاوت اور صدر کی نظر بندی کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے صنعا میں موجود اپنے سفارت خانے بند کردئے تھے اور سعودی عرب و دیگرخلیجی ممالک صنعا سے اپنے سفارت خانے عدن منتقل کرلئے تھے۔ صدر عبد ربہ منصور ہادی کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور 25؍ مارچ ، چہارشنبہ کو حوثیوں کی جانب سے عدن سے 60کلو میٹر دور یمن کے سب سے بڑے فضائی اڈے پر قبضہ کرلینے کی اطلاع سرکاری ٹی وی چینل جس پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے اعلان ہونے کے بعدیمنی صدر عدن سے فرار ہوکر نامعلوم مقام منتقل ہوگئے ، اس فضائی اڈے پر گذشتہ ہفتہ تک امریکی اور مغربی فوجی ماہرین کا کنٹرول تھا جو القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں گذشتہ کئی سال سے یمن کی افواج کی رہنمائی کررہے تھے، امریکی اور مغربی فوج گذشتہ ہفتہ اس فضائی اڈے کوچھوڑ کر چلے جانے کے بعد شیعہ حوثیوں کے حوصلے اور بڑھ گئے اور حوثی قبائل نے عدن کے اطراف و اکناف کے قصبوں پر حملے کرتے ہوئے عدن تک پہنچ گئے اور اب حالات انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں۔ عبد ربہ منصور ہادی نے عدن کے محل سے روانہ ہونے سے قبل خلیجی ممالک اور اقوام متحدہ سے مدد مانگی تھی ۔ حوثی باغیوں نے سرکاری ٹی وی چینل کے ذریعہ صدر منصور ہادی کی گرفتاری پر ایک لاکھ ڈالر انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر کے مطابق عبد ربہ منصوری ہادی کی قانونی حکومت کو بچانے کیلئے سعودی عرب نے جمعرات کے روزحوثی قبائیلوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب ہمسایہ ملک یمن کے عوام کی حفاظت اور یمن کی قانونی حکومت کو بچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ فوجی کارروائی میں فضائی طاقت استعمال کی جارہی ہے اور اس میں دیگر خلیجی ممالک کی حمایت بھی شامل ہے۔ سعودی عرب اپنی سرحد پر پہلے ہی فوج کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا کیونکہ یمن میں جاری یہ لڑائی خطے کے حالات کو سنگین بنا سکتی ہے اور ایران سعودی عرب کی اس کارروائی کے خلاف حوثیوں کو مزید تعاون فراہم کرسکتا ہے ۔
یمن میں اب سہ طرفہ لڑائی جاری ہے۔ ایک طرف القاعدہ اور دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کی شدت پسند سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب شیعہ حوثی گروہ اپنی باغیانہ سرگرمیوں کو تیز کرتے ہوئے شمالی علاقوں سے اب جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے ، شیعہ حوثی قبائل شمال میں اپنے زیر انتظام علاقوں سے مقامی فوجوں سے لڑتے ہوئے جنوب کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں ۔ اس پیش قدمی نے حوثی باغیوں اور عبد ربہ منصور ہادی کی وفادار فوجوں کے مابین جنگ خطرناک صورتحال اختیار کررہی ہے کیونکہ حوثی باغیوں کو ایران کی جانب سے مدد فراہم کی جارہی ہے تو اب سعودی عرب حکمراں صدر کی فوج کی مدد کررہا ہے۔شیعہ حوثی گروہ کی جانب سے جنوب کی جانب پیش قدمی کوخلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب نے پہلے ہی سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے پیر کے روز یمن میں عدم استحکام کا پرامن حل نہ نکلنے کی صورت میں خلیجی ممالک کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ’’ناگزیر اقدامات‘‘ کرنے کی وارننگ دی تھی اور انہوں نے یمن میں ایرانی مداخلت کی بھی مذمت کی تھی۔ حوثی باغیوں کی جانب سے یمن کے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کو اقوام متحدہ نے بھی خانہ جنگی سے تعبیر کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے یمنی وزیر خارجہ ریاض یاسین کے اس بیان پر جس میں انہوں نے خلیجی عرب ریاستوں سے یمن میں مداخلت کرنے اور حوثیوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے نوفلائی زون قائم کرنے کی اپیل کی تھی جس کے جواب میں سعود الفیصل نے مثبت ردّعمل کا اظہار کیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ نے صدر ہادی کو فوجی امداد فراہم کرنے کا تیقن دیتے ہوئے کہا تھا کہ عرب دنیا خطے کو جارحیت سے بچانے کے لئے ناگزیر اقدامات کریں گے جس کا سعودی عرب نے جمعرات کے روز فضائی حملوں کے ذریعہ آغاز کردیا۔ حکام کے مطابق ملک یمن کے وزیر دفاع میجر جنرل محمود الصباحی اور انکے اعلیٰ فوجی مشیروں کو جنوبی شہر لہج سے گرفتار کرلیاہے۔حوثیوں اور سابق صدرعلی عبداللہ صالح کے حامی فوجی ساحلی شہر مخا اور ضالع میں داخل ہوگئے جو توپ خانے، جہاز گرانے والی توپوں ، خودکار ہتھیاروں سے مسلح ہیں ان کے اور منصور ہادی کی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق باغیوں نے گورنر کے دفتر پر بھی قبضہ کرلیا ہے ، ضالع صوبہ کا دارالحکومت بھی ہے اس کے علاوہ ملک کے تیسرے بڑے شہر تعزپر بھی حوثیوں کا قبضہ ہوچکا ہے اور تعز سے مغرب کی جانب واقع ساحلی شہر مخا میں بھی یہ لوگ داخل ہوچکے ہیں ۔ یہ شہر دفاعی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بحیرہ قلزم اور خلیج عدن کو ملانے والی آبنائے باب المندب پر واقع ہے اور یہ تیل کی تجارت کا ایک مصروف سمندری راستہ ہے جس پر حوثیوں کا قبضہ کسی صورت نہ ہونے دینے کے لئے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سخت کارروائی کرسکتے ہیں۔یمن کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی بھیانک صورتحال دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس تین طرفہ لڑائی کا نتیجہ انتہائی خطرناک موڑ اختیار کرسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ یمن کے حالات کا جائزہ لے کر فوراً عملی اقدامات کریں اگر اقوام متحدہ ان حالات میں بیان بازی کے ذریعہ حوثی گروہ کے خلاف صرف کارروائی کا انتباہ دیتی رہی تو حالات مزید بدتر ہوجائیں گے جتنا جلد ممکن ہوسکے اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ایران کی جانب سے حوثیوں کو تعاون اورداعش و القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سفاکانہ کارروائیاں ملک کے لئے سنگین نتائج کا بیش خیمہ ہے۔ گذشتہ جمعہ کو دارالحکومت صنعا میں حوثی قبائلیوں کی دو مساجد پر خودکش حملے کئے گئے جس میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،ان حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ عراق و شام نے قبول کی۔اب حوثی اور داعش کے درمیان بھی شدت سے لڑائی ہوسکتی ہے اور یہ لڑائی مسالک کی بنیاد پر ہوگی جس میں عام لوگ نشانہ بن سکتے ہیں۔ داعش اپنی خلافت کو وسعت دینے کے لئے خطے میں سفاکانہ کارروائیاں انجام دے رہی ہے تاکہ عوام اس کے آگے سر تسلیم خم کرلیں اور اس کی بیعت میں آجائے بصورت دیگر شدید عتاب کا شکار ہونے تیار رہیں۔ امریکہ جو دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویدار ہے اس نے یمن سے اپنی فوج کو ہٹاکر بذدلی کا مظاہرہ کیا ہے یا پھر ہوسکتا ہے کہ وہ خطے کے حالات کو جتنا ممکن ہوسکے خراب کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے فوجی سازو سامان اور ہتھیار کی آسانی سے فروخت ہو۔مغربی ممالک کی فوج یمن سے فرار ہونے کو غنیمت سمجھ لی ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ایک طرف حوثی قبائل تو دوسری جانب سفاکانہ کارروائیاں انجام دینے والے خطرناک نام نہاد جہادی یعنی داعش کے شدت پسند کا کہیں وہ نشانہ نہ بن جائیں۔ امریکہ اور مغربی فوج اس تین طرفہ جنگ میں کودنے کے بجائے خاموشی سے بوریا بستر لپیٹ لینے کو ترجیح دی ۔
اگر اقوام متحدہ اور امریکہ واقعی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو ایران پر زور دے کہ وہ یمن میں حوثیوں کو کسی بھی قسم کی امداد فراہم نہ کریں اوریمن کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کریں ورنہ عالم عرب بہت جلد شدید ترین مسائل سے دوچار ہوجائے گا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق دشمنانِ اسلام ، اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے آپس میں لڑائی کو فرو غ دے رہے ہیں۔ یمن ہو کہ عراق و شام، مصر ہو کہ افغانسان و پاکستان ، ان ممالک میں حالات سدھرنے کے بجائے مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قیادت عالمی سطح پر مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حالات کا جائزہ لے کر لائحہ عمل ترتیب دیں اور عالمِ اسلام میں جو دہشت گرد سرگرمیاں جاری ہیں اس کے سدّباب کے لئے مؤثر حکمت عملی اختیار کریں۔ امریکہ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اپنی فوج متعین کرتا ہے تو دوسری جانب حالات کے پیش نظر اپنی فوج کو ہٹالیتا ہے جس کی کھلی مثال یمن اور افغانستان سے لی جاسکتی ہے۔ یمن کے سب سے بڑے ہوائی اڈے سے امریکہ اپنی فوج نہ ہٹا تا تو شاید عدن میں حوثی قبائل قبضہ نہ کرتے۔امریکہ کی اس پالیسی کئی شکوک و شبہات کا اظہارہورہا ہے۔امریکی صدر بارک اوباما سے اشرف غنی لون صدر افغانستان کی ملاقات وائٹ ہاؤس میں گذشتہ دنوں ہوئی، ان دونوں قائدین کے درمیان خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔ امریکی صدر نے افغانستان میں اس سال کے آخر تک دس ہزار امریکی فوج کو رکھنے کا اعلان کیا جو انسداد دہشت گرد کارروائیوں میں افغان فوج کی مدد کریں گی جبکہ امریکہ نے ایک ایسے وقت یمن کے سب سے بڑے فضائی اڈے سے اپنی فوج کو ہٹالیا اور حوثی گروہ کو قبضہ کرنے کی راہ فراہم کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ امن و سلامتی نہیں چاہتا بلکہ اپنے مفاد کے لئے وہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کارروائی کرتا ہے۔ امریکہ کے لئے افغانستان بہت اہم سڑھی کی حیثیت رکھتا ہے اسی لئے وہ افغانستان میں اب بھی اپنی دس ہزار فوجی رکھنے کو ترجیح دیتا ہے ۔
جواب دیں