واشنگٹن ڈی سی سے تعلق رکھنے والے سراغرسانی کے ماہر اور مرخ میتھیو ایڈ کا کہنا ہے کہ این ایس اے نے یورپ کے مقابلے میں مشرق وسطی اور اس کے آس پاس کے علاقے کی زیادہ کڑی نگرانی کی ہے۔
وہ شامی بحران کے تناظر میں امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ این ایس اے نے سعودی عرب کی بھی سراغرسانی کے مقاصد کے لیے کڑی نگرانی کی ہے اور ایک ماہ میں سعودی عرب کی سات ارب اسی کروڑ فون کالز کو جدید آلات کے ذریعے پکڑا اور ریکارڈ کیا ہے۔
میتھیو ایڈ نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی غیر بیانیہ تاریخ کے عنوان سے 2009 میں ایک کتاب شائع کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ این ایس اے کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے جو خفیہ دستاویزات منکشف کی ہیں،ان میں امریکی ایجنسی کی مشرق وسطی کی نگرانی کے لیے سرگرمیوں پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی ہے۔
مسٹر ایڈ نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں جوتے کے گرنے کا انتظار رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ سنوڈن کے ساتھیوں کی جانب سے صرف ان ممالک اور حکومتوں کی دستاویزات سامنے لائی گئی ہیں،جو پریس میں فوری طور پر ردعمل ظاہر کرسکتے تھے۔
امریکی ادارے کی خفیہ دستاویزات کو شائع کرنے والی ڈیجیٹل لائبریری کریپٹوم کے مطابق این ایس اے نے سعودی عرب کے علاوہ عراق کی بھی ایک ماہ کے دوران سات ارب اسی کروڑ مرتبہ فون کالز ریکارڈ کی تھیں۔مصر کی ایک ارب اسی کروڑ مرتبہ ،اردن کی ایک ارب ساٹھ کروڑ اور ایران کی ایک ارب ستر کروڑ فون کالز جدید آلات کی مدد سے سراغ لگاکر ریکارڈ کی گئی تھیں۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے گلوبل انٹیلی جنس کے ماہر اور اوٹاوا یونیورسٹی کے پروفیسر ویسلے وارک نے این ایس اے کے منظرعام پر آنے والے خفیہ ڈیٹا کے بارے میں بتایا ہے کہ ریکارڈ کی گئی ان فون کالز کی کثیر تعداد کو تو سنا بھی نہیں گیا ہوگا۔
انھوں نے العربیہ کو بتایا کہ این ایس اے پہلے بہت سا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے اور پھر اس میں سے مفید مواد کو الگ کر لیا جاتا ہے۔انھوں نے این ایس اے پر امریکا کے اندر سے سیاسی دبا اوربین الاقوامی سطح حالیہ غوغا آرائی کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے امریکی خفیہ ادارے میں کچھ بدلنے کا نہیں اور وہ حسب معمول کام کرتا رہے گا۔
امریکی حکومت کے اتحادی ممالک فرانس اور جرمنی وغیرہ نے اپنے لیڈروں اور شہریوں کے ٹیلی فونز ٹیپ ہونے کی اطلاعات منظرعام پر آنے کے بعد سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اپنے ہاں متعین امریکی سفیروں کو طلب کرکے ان سے اس معاملے کی بازپرس کی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر مشرق وسطی کے ممالک سے امریکا کے خلاف اس قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
کینیڈین پروفیسر وارک اس کا ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ رپورٹ میں مشرق وسطی کے جن ممالک کا حوالہ دیا گیا ہے،وہ پہلے ہی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ وہ امریکا کے کڑی نگرانی کے پروگرام کا ہدف ہیں۔وہ سالہا سال سے یہ بات جانتے تھے کہ امریکا ان کی خفیہ نگرانی کررہا ہے۔
مسٹر میتھیو ایڈ نے کریپٹوم کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خفیہ دستاویزات کے حوالے سے ایک اور اہم بات کی بھی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ عرب خطے کے بہت سے ممالک شام ،کویت ،بحرین اور قطر کے بارے میں اس مواد میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ان کے بہ قول:پزل کے بہت سے اہم حصے غائب ہیں۔تاہم سنوڈن کی منکشف کردہ خفیہ دستاویزات سے ایک بات تو واضح ہوئی ہے کہ امریکا خطے کی بھرپور طریقے سے کڑی نگرانی کررہا ہے۔مشرق وسطی میں این ایس اے کے خفیہ آپریشنز کے بارے میں ابھی بہت کچھ منظرعام پر لانے اور کہنے کی ضرورت ہیکیونکہ سنوڈن کی دستاویزات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے،وہ تمام ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔(مصدقہ ذرائع)
جواب دیں