یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ پیرو کی سرزمین میں قدرت نے بے پناہ خذانے دفن کر رکھے ہیں۔’’لیما ‘‘یہاں کا دارالحکومت ہے جو اپنے ملک کی جملہ سرگرمیوں کامرکز بھی ہے اور ملک کی ایک چوتھائی آبادی اسی شہر میں مقیم ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس ملک میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف انتقال کا رجحان پیدا ہوا جس کے باعث اب ملک کی دوتہائی آبادی شہروں میں مقیم ہے۔
پیرو کی سرزمین پر انسانی قدموں کے نشانوں کی تاریخ تیرہ ہزار سال پرانی ہے،اس دوران متعدد قبائل اور کئی تہذیبوں نے یہاں ڈیرے ڈالے ،ان میں سے کچھ کے نشانات اب بھی ملتے ہیں۔ازمنہ متوسطہ میں انڈین بھی یہاں آئے اور انہوں نے شکار کی غرض سے اس سرزمین پراپنے تیر چلائے اور ایک عرصہ تک اس خطے کو اپنے قدموں تلے پامال کرتے رہے یہاں تک کہ 1250قبل مسیح میں کچھ وقت کی ترقی یافتہ تہذیبوں نے یہاں کا رخ کر لیا،کیونکہ یہ فطری نظام ہے کہ ثقافتی حبس سے پیداہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے بدیسی تہذیبی ہوائیں پہنچ جایاکرتی ہیں۔’’چاون‘‘،چیمو‘‘،’’نازکا‘‘اور’’تیواناکو‘‘نامی تہذیبوں کے نام تاریخ نے محفوظ کیے ہیں کہ انہوں نے پیرو کی سرزمین کو یا اسکے کچھ حصوں کو اپنی روایات سے آباد کیا اور مدتوں تک یہاں کے وارث بنے رہے۔1438ء میں ’’اینکا‘‘نامی قوم نے یہاں کا نظم و نسق سنبھالیااور انہوں نے بھی ایک بہت شانداراور جاندار تہذیب و ثقافت کی مضبوط بنیادیں رکھیں۔انہوں نے ’’کوزکا‘‘ نامی شہر کو اپنا مرکزبنایااور پیرو سمیت ارجنٹینیا ،چلی،ایکواڈوراوربولیویا تک کو اپنی شمشیر کی لپیٹ میں لے لیا۔’’اینکا‘‘نے ایک مطلق العنان حکومت قائم کی ،چھوٹے بڑے سرداروں کو اپنے اپنے قبائل میں جزوی اختیارات دیے ،ان کے فیصلوں کو سرکاری سطح پر قبول کیا اور یوں ایک بہت بڑے جغرافیائی خطے پر جو کم و بیش پورے براعظم پر محیط تھااپنی جرات و بہادری اور دانشمندی سے حکومت کرتے رہے۔’’اینکا‘‘دور کی باقیات اب بھی پیرو میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
نومبر1533میں اسپینیوں نے ’’اینکا‘‘ کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا اور یوں ایک شاندار دور اپنے اختتام کو پہنچا کہ اس دنیامیں صرف ایک خدا کی بادشاہت ہی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔پیرو پر اسپینیوں کے دورکا آغاز ہو گیا،اس نوواردقابض یورپی گروہ نے اپنی مجبوریوں کے باعث ’’لیما‘‘کو دارالحکومت بنالیاجو اب تک اسی حیثیت کا حامل شہر ہے۔اسپینیوں کی آمد کے وقت اس ملک کی بیشتر آبادی دیہاتوں میں ہی مقیم تھی ۔نئے فاتحین نے پیرو کی معاشرتی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں کیں ،انہوں نے دہقانوں کے ذریعے جاگیرداری نظام کو اس طرح منظم کر کے تورائج کیا کہ گزشتہ صدی کے نصف تک وہ نظام پیرو کی معاشرتی زندگی میں اہم کرداراداکرتارہا۔اسپینیوں نے پیرو کی تہذیب ،ثقافت،مذہب اورمعاشی زندگی میں بہت زیادہ اثرات چھوڑے ،رومن کیتھولک مذہب،اسپینی زبان اور یورپی طرز کی بودوباش اوراسپینی خاندانی روایات یہاں پوری قوت سے منتقل کی گئیں۔یہ وہ دورتھاجب کم و بیش پوری دنیامیں مشرق سے مغرب تک ایک نظام اپنی عمر پوری کر کے تو دوسرے کے لیے جگہ خالی کر رہاتھا۔قرآن مجید نے فرمایا کہ آ’’یہ ایام ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں‘‘،ایک ہزار سالوں تک ایشیا نے دنیامیں اپنی باری کھیلی تھی اور اب سکہ یورپ کے ہاتھ میں تھا۔اسپینیوں سے آزادی کی تحریکیں پورے امریکہ میں چلنے لگیں اور یوں بیرونی سامراج کمزور پڑنے لگا،پیرو کی آزادی کی جنگ کا بہت بڑا حصہ پیرو سے باہر ہی لڑا گیا اور 28جولائی1821ء کو اسپینی فاتحین کا بستر یہاں سے گول ہوگیااب یہ دن وہاں پر یوم آزادی کے طورپر پورے قومی تہوارکے انداز میں منایاجاتاہے۔برطانیہ جس طرح پاک و ہند کو آزادی کے بعد عدم استحکام کا شکارکر گیا کچھ اسی طرح کی صورتحال اسپنیوں نے پیرو میں بھی کی اور کم و بیش ڈیڑھ صدی تک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار رہنے کے بعد گزشتہ صدی کے آخر کے بعد سے اب پیرو کے لوگوں نے اپنی زندگی میں مستحکم نظام دیکھاہے۔
پیرو کے لوگ زمانہ قدیم سے ہی کچھ مشرکانہ رسوم و عقائد کے مالک تھے،’’وراکوچا‘‘یہاں کا سب سے بڑا دیوتا تھاجسے خالق کائنات کے ساتھ ساتھ انسان کے باپ ہونے کا مقام بھی حاصل تھا،اور’’پاچاماما‘‘اس زمین کی ماں سمجھی جاتی تھی ۔سورج چاند،پہاڑ اور دیگر مظاہر قدرت کی پوجاکاعام رواج تھا۔اسپینیوں نے یہاں پر عیسائیت کو متعارف کرایااور سینکڑوں کی تعداد میں گرجاگھرنظر آنے لگے۔اب آئین کے مطابق اگرچہ مذہبی آزادی ہے لیکن رومن کیتھولک فرقے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔اسپنی زبان کو یہاں دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے جبکہ مقامی زبانیں الگ سے بولی جاتی ہیں۔2005کے مطابق آبادی تین کروڑ کی تعدادکو چھورہی ہے۔آبادی میں87.7%شرح کے حساب سے شرح خواندگی ہے۔پیروکے ساحلی علاقوں میں پنگوئین کثرت سے پائے جاتے ہیں،جبکہ جنگلات میں بندروں اور بن مانسوں کی کچھ نایاب نسلیں بھی ملتی ہیں۔
پیرو کی معیشیت خام مال کی برآمدات سے وابسطہ ہے ۔پیرو میں کاپر اور سلور دنیابھر میں سب سے زیادہ پیدا ہوتاہے اورمچھلی کی صنعت اس ملک کی معیشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔حال ہی میں اس ملک نے صنعتوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی ہے جس کے باعث معیشیت میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔زراعت کی طرف سے معیشیت کو کوئی بہت زیادہ معاونت نہیں ہے اس لیے کھانے پینے کی اکثر اشیا دوسرے ملکوں سے منگوانا پڑتی ہیں جس پر ملکی زرمبادلہ کابہت بڑا حصہ خرچ ہو جاتاہے۔کاپر،آئرن،زنک،سلور اور گندھک کی اعلی اقسام پیرو کی زمینوں میں دفن ہیں۔ماضی قریب میں سونے اور تیل کے ذخائر کا بھی پتہ لگالیاگیاہے۔اس سب کے باوجود بھی ایک تہائی لوگ صرف زراعت سے وابسطہ ہیں اورآلو ،گندم،کونین اور مکئی یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔
تاریخی سیاسی عدم استحکام کے بعد 1979سے ملک میں ایک آئین نافذ ہے جس کے مطابق براہ راست منتخب ہونے والا صدر ملک کا سربراہ اور افواج کا کماندار ہوتاہے۔صدر مملکت ہی وزیراعظم اور وزراء مملکت کا تقرر کرتاہے۔قومی اسمبلی کے اراکین پانچ سالوں کے لیے چنے جاتے ہیں جبکہ سینٹ کاادارہ ایوان بالا کے طور پر کام کرتاہے۔نیشنل جوڈیشیل کونسل جو نام بھیجتی ہے ان میں صدر مملکت کچھ کو سپریم کورٹ کے جج مقررکردیتاہے جو ستر سال کی عمر تک اپنے فرائض اداکرتے ہیں۔انتظامی طور پر مملکت کو 24صوبوں میں تقسیم کیاگیاہے۔صوبوں میں بھی منتخب حکومتیں انتظامیہ کے ساتھ مل کرریاست کاکاروبارچلاتی ہیں
پیرومیں اسلام کی آمدمسلمان اسپینیوں کی مرہون منت ہے۔اسپین میں سقوط غرناطہ کے بعد صلیبیوں کے مظالم سے بھاک کر آنے والے مسلمانوں نے پیرو میں نور توحید کی شمع روشن کی۔چونکہ یہ لوگ اسپین میں بہت اعلی معاشرتی مقام کے حامل تھے اس لیے ان اسپینی مسلمانوں نے پیرو میں اسلام کی اشاعت سمیت پیروکی معاشرت ،سیاست،اکل و شرب اور لباس و طورواطوارمیں بھی بہت اہم کردار اداکیا۔اب تک بھی حجاب والی خواتین کو وہاں پر قدر والی نگاہ سے دیکھاجاتاہے کہ یہ اعلی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔لیما کی گلیوں میں چلتے ہوئے آج بھی گھروں کے باہر اسی طرح کی بالکونیاں نظر آتی ہیں جیسی اندلس میں ہوتی تھیں اور چلنے والا محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ قرطبہ کی گلیوں میں چل رہاہو۔عیسائیوں نے یہاں بھی اسلام کو پھیلتے ہوئے دیکھ کر مسلمانوں پر پابندیاں لگائیں چنانچہ مسلمان چھپ چھپ کر اپنا ایمان تازہ کرتے رہے۔1940ء کے بعد سے اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی لبنان اور فلسطین سے آنے والے مسلمانوں نے یہاں اسلام کی تجدید کی،لیکن غربت نے مسلمانوں کے ہاں ابھی بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔چنانچہ دو مساجد تعمیر کے بعد ختم ہو گئیں کہ فنڈز نہیں تھے ۔کچھ عرصہ قبل پیروکے شہر ’’ٹکنا‘‘میں ایک مسجد قائم کی گئی ہے جس میں پانچ وقتہ نماز،صلوۃ جمعہ رمضان المبارک میں تراویح اور قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام بھی ہے۔اب لاطینی امریکہ کی مسلمان تنظیموں نے پیرومیں مسلمان یتیم بچوں پر توجہ دینی شروع کی ہے اور پیرو کے مسلمان نوجوانوں نے پیرومیں اسلام اور مسلمانوں کے حالات پر ایک ویب سائٹ بھی تیار کی ہے۔(یو این این)
جواب دیں