اَمَر سِنگھ کا سیکولرزم اور ہماری سادگی !!

 

 

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی 

 

کل رات مشہور سیاسی لیڈر اور سابق سماج وادی نیتا "اَمَر سِنگھ" کے سنگاپور میں فوت ہونے کی خبر ملی تو موصوف سے جڑے کئی قصے سطح ذہن پر ابھر آئے۔موصوف کی موت کے بعد یہ عُقدہ بھی کھلا وہ اپنی کروڑوں کی پشتینی جائداد، آر ایس ایس کے نام کر گئے ہیں۔بہت سارے افراد کو یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگا کیوں کہ امر سنگھ کی شخصیت اور امیج "سیکولر اور لبرل نیتا" کی تھی لیکن فقیر کو ان کی "سیکولر شبیہ" پر کبھی یقین نہیں رہا اس لیے مذکورہ انکشاف کے بعد حیرت نہیں خوشی ہوئی، ممکن ہے کہ آئندہ ہماری قوم "سیکولرزم" کے نام پر سیاسی چارہ بننے سے خود کو بچا سکے۔

یادش بخیر!

پندرہویں لوک سبھا(2009) کا پارلیمانی انتخاب قریب تھا۔سیاسی مجلسوں کا دور چل رہا تھا، ایسی ہی ایک مجلس اَمَر سِنگھ کی دہلی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی تھی۔ایک عزیز کے بلاوے پر ہم بھی شریک محفل تھے۔دوران گفتگو اَمر سِنگھ نے اپنی سیکولر امیج پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "بٹلا ہاؤس انکاؤنٹر پر جب سارے سیاسی لیڈران خاموش تھے تو ہم نے انکاؤنٹر میں مارے گئے مسلم نوجوانوں کی آواز اٹھائی۔"

اس بات پر انہیں ٹوکتے ہوئے میں نے کہا تھا:

"آواز اٹھانے کا شکریہ لیکن آپ نے انکاؤنٹر میں مارے گئے انسپکٹر کو "شہید" قرار دیا ہے۔ شہید تو وہی ہوتا ہے جو دشمن کے ہاتھوں مارا جائے،اس طرح آپ نے بھی ان نوجوانوں کو وطن دشمن ہی کہا،بس صاف کہنے کی بجائے ذرا گھما کر بات کی ہے تاکہ شرپسند بھی خوش رہیں اور آپ کی سیکولر امیج بھی برقرار رہے"

خلاف توقع اپنی ہی محفل میں یہ بات سن کر موصوف گڑبڑا گئے، جواب دینے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہم بھی تیار تھے سو اگلا سوال داغ دیا، بات آگے جاتی کہ "میر محفل" نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا سو تعمیل حکم میں بات وہیں ختم ہوگئی۔

 ———2009 میں یوپی کی سیاست میں ایک بڑا الٹ پھیر ہوا تھا۔"مولانا" کہے جانے والے "ملائم سنگھ یادو" اور وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے بابری مسجد شہید کرانے والے "کلیان سنگھ" کے مابین دوستی ہوچکی تھی۔یہ دوستی اَمَر سِنگھ کی "سیاسی سیٹنگ" کا کمال تھا کہ سخت ترین حریف اب سیاسی حلیف بن گئے تھے۔ایک طرف پورب وپچھم کا ملاپ ہوا تو دوسری جانب ملائم سنگھ کے دست راست اعظم خان نے اس دوستی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔

یہ سیاسی دوستی اپنے آپ میں بے حد حیران کن تھی۔1990 میں بابری مسجد پر حملہ کرنے والے "کار سیوَکوں" پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ نے گولی چلوا دی تھی جس کی بنیاد پر کلیان سنگھ اور بی جے پی انہیں "رام بھکتوں کا قاتل" کہتے تھے۔1992 میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تو وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ تھے، اس مجرمانہ کرتوت پر کلیان سنگھ کو سپریم کورٹ نے ایک دن کی علامتی سزا بھی سنائی تھی لیکن کلیان سنگھ نے ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کہ ان کے دورِ وزارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔

ایسے متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے لیڈروں کی دوستی ایک انہونی تھی جو امر سنگھ کی "سیٹنگ" سے ہونی میں بدل چکی تھی۔

_______ اعظم خان سماج وادی پارٹی کے ستون سمجھے جاتے تھے لیکن "امر سنگھ" کی رقابت اور کلیان سنگھ کی آمد کے بعد ان کے سیاسی رفیق ملائم سنگھ نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خانصاحب کی قربانیوں سے آنکھیں موند لیں۔

اعظم خان ایک بڑے مسلم لیڈر تھے جن کی بنا پر یوپی کے مسلمانوں کی اکثریت سماج وادی پارٹی سے وابستہ تھی۔خان صاحب کی ناراضگی سے مسلم ووٹروں کے ناراض ہونے کا ڈر تھا اس لیے پارٹی نے "امر سنگھ" کو مسلمانوں کو پارٹی سے جوڑے رکھنے کا ذمہ سونپا۔

امر سنگھ نے اپنی "سیٹنگ" کا کمال دکھاتے ہوئے اعظم خان کی مخالفت میں درجنوں مشاہیر علما ومشائخ کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ چند دنوں بعد اعظم مخالفین کا قافلہ وارد دہلی ہوا جہاں امر سنگھ کی رہائش گاہ پر منعقدہ پریس کانفرنس میں اعظم خان کو "مسلم مخالف، ظالم اور کرپٹ لیڈر" ڈکلئیر کیا گیا۔

اس طرح درجنوں علما ومشائخ کو اپنے ساتھ لاکر،اعظم خان کی کرادر کشی کرکے پارٹی ہائی کمان کو یہ دکھانے کی کوشش ہوئی کہ اعظم خان کے بغیر بھی مسلم ووٹروں کو لبھایا جاسکتا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں نامور علما ومشائخ کو جمع کرنا بھی اَمر سِنگھ کی "سیاسی سیٹنگ" کا ہی کمال تھا۔

———اعظم خان کو انہیں کے شہر رامپور میں مات دینے کے لیے امر سنگھ نے فلمی اداکارہ "جیا پردا" کو اتارا جو ایک بار پہلے بھی رامپور سے ایم پی رہ چکی تھیں۔کانگریس سے نواب خاندان کی بہو "بیگم نور بانو" میدان میں تھیں، سماج وادی پارٹی اور امر سنگھ کو اپنے قد کا احساس کرانے کے لیے اعظم خان نے اپنی دیرینہ سیاسی حریف "بیگم نور بانو" کی حمایت کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے نے ملائم سنگھ اور امر سنگھ کے کان کھڑے کر دئے کیوں کہ رامپور پارلیمانی سیٹ پر نواب خاندان اور اعظم خان کا سیاسی دبدبہ تھا، دونوں کے ایک ہوجانے پر جیا پردا کی ہار یقینی تھی،ایسے میں امر سنگھ نے "سیاسی سیٹنگ" کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنے قریبی علما ومشائخ کو اعظم مخالفت پر مامور کیا اور پس پردہ بی جے پی سے گَٹھ جَوڑ کرلیا۔ایک طرف علما ومشائخ امر سنگھ کی سیکولر امیج پر بھروسہ کرتے ہوئے اعظم خان کی مخالفت کر رہے تھے تو اندرون خانہ بی جے پی کارکنان جیا پردا کے لیے محنت کر رہے تھے،بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی نے تو کھل کر جیا پردا کو ووٹ دلائے۔امر سنگھ کی "سیٹنگ" کام کر گئی اور اعظم خان کی حمایت کے بعد بھی "بیگم نور بانو" ہار گئیں اس شکست کو اعظم خان کی شکست سے تعبیر کیا گیا اسی لیے الیکشن رزلٹ کے بعد ہی اعظم خان کو پارٹی سے باہر کردیا گیا۔

________2010 میں ایک بار پھر وقت نے پلٹا کھایا،اور اعظم خان کی پارٹی میں واپسی ہوئی۔وجہ یہ رہی کہ اعظم خان کی ناراضگی سماج وادی پارٹی کو بھاری پڑی اور 2009 کے الیکشن میں پارٹی 39 سیٹ سے 21 پر آگئی اور تو اور اپنی خاندانی سیٹ فیروزآباد میں بھی ملائم سنگھ کی بہو کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔

سیاسی قلابازی میں ماہر ملائم سنگھ نے پلٹی ماری اور مسلمانوں سے معافی مانگتے ہوئے اعظم خان کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرلیا۔خانصاحب کی واپسی کے ساتھ ہی امر سنگھ کی "سیاسی سیٹنگ" بھی اپنا جادو کھونے لگی اور بالآخر امر سنگھ کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔اس کے بعد امر سنگھ کی ہر کوشش ناکام رہی اور وہ ہر گزرتے دن سیاسی محرومی کے بادلوں میں گم ہوتے گئے۔2019 کے الیکشن میں اعظم خان کے خلاف جیا پردا کو بی جے پی سے ٹکٹ دلا کر ایک بار پھر اپنی "سیٹنگ" کا جال بچھایا گیا لیکن اس بار اعظم خان کی سیاسی سوجھ بوجھ کے آگے ہر سیٹنگ ناکام ہوئی اور خانصاحب نے پچھلی ہزیمت کا سود سمیت بدلہ لیتے ہوئے جیا پردا اور امر سنگھ کو کراری شکست دی۔سیاست میں امر سنگھ کی یہ آخری کوشش تھی جو ناکام رہی اس کے بعد وہ دائمی مریض ہوگئے یہاں کہ آج ان کے فوت ہونے کی خبر آئی۔بعد موت ہی یہ راز کھلا کہ وہ اپنی کروڑوں کی جائداد آر ایس ایس کو سونپ گئے ہیں۔یہاں مسلمانوں کی سادہ لوحی پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص ہمارا نظریاتی دشمن ہوکر بھی ہمیں اپنی میٹھی باتوں میں پھنسا کر سیاست کر لیتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا یہاں تک زندگی پوری کرکے چلا جاتا ہے !!

____ کاش ہمیں سیاسی بازیگروں کی چالیں سمجھنے کا شعور آئے اور ہم کسی کے  ہاتھوں استعمال نہ ہوں،اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو کسی نئے "امر سنگھ" کا انتظار کریں جو "سیکولرزم" کی مالا جپتا ہماری بستیوں کے آس پاس ہی ہوگا۔

«
»

یومِ آزادی: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟

مرحوم مظفر کولا : خادم نونہال ، تاجر خوش خصال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے