امانت و دیانت کے پیکر جناب غیاث الدین صاحب رخصت ہو گئے

تحریر. حافظ عمرسلیم ندوی
                          
انتہائی امین اور دیانت دار  جناب غیاث الدین صاحب سید حسینا مرحوم جمعرات کی صبح بتاریخ 13 اگست 2020 ایک طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون،
نورالله مرقده ورفع درجته فى اعلى جنان الخلد وألهم وذويه الصبر والسلوان،
انسان كو الله تعالی مختلف مصیبتوں سے  ازماتاہے جن میں سے ایک بیماری ہے،
یقینا بیماری چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ہو،بعض لوگ کئی کئی  ماہ بلکہ کئی کئی سال تک بستر سے اٹھ نہیں پا تے اور اسی طرح یہ بیماری ان کیلئے  جان لیواثابت ہوتی ہے، 
بظاہر بیماری ایک زحمت لگتی ہے لیکن ایت کریمہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیماری ایک رحمت ہیجو بندہ کو اس کے گناہوں سے نجات دلاتی ہے، اس کی کوتاہیوں کو اس کے نامہ اعمال سے مٹاتی ہیاور اخرت کے عذاب سے محفوظ رکھتی ہے
 ،(حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا کہ جس کسی مومن مرد یا مومن عورت کویا مسلمان مرد یا مسلمان عورت کو بیماری لگتی ہیتو اللہ تعالی اس کے بدلے اس کی خطاؤں کو معاف فرمادیتے ہیں)
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض  ایک مقررہ مدت کے لیے ہے، اسے ایک نہ ایک دن اس عارضی دنیا سے رخصت  ہونا ہے،جس کی حقیقت کی طرف  اللہ رب العزت نے پوری بنی نوع انسان کو  باخبر کردیا
 ،(ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین) تمھارے لیے زمین میں ٹھکانہ اور(یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ایک خاص مدت کے لییہے،یعنی تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھرنا ہیاور ایک معین میعاد تک کام چلانا ہے، ایک شاعر کہتا ہے
،بہت ہی مختصر کہانی ہے 
زندگی کچھ بھی نہیں فانی ہے،
ایک طرف اس مسلمہ حقیقت پر روز مرہ  انسانی زندگی کے خاتمہ کی شھادتیں تو دوسری طرف  یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ موت کا  انااس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے الیقین سے تعبیر کیا ہے
  (واعبدربک حتی يأتيك اليقين)
يه امر یقینی (یعنی موت)کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو۔سورةحجر۔99،
یہ بات  بلکل واضح ہے  کہ جہاں بعض انسان  کے سانحہ ارتحال سے غم واندوہ کے چشم کوہ سے نالے پھوٹ پڑ تے ہیں قوس قزح سے رنگینی چھین جاتی ہے تو دوسری جانب  ان کی ارواح ساکنان عرش وفرش کے لئے قابل رشک  اور سبب اطمینان و چراغ ہدایت ہوتے ہیں،
مربھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے
 چنانچہ مرحوم غیاث الدین صاحب بھی بے شمار خوبیوں اور اعلی  صفات کے مالک تھے  صوم وصلوہ کے پابند اور اعمال طاعات وخیرات میں ممتاز فرد شمار کئے جاتے، تواضع وسادگی کے پیکر، سنجیدگی وعجز وانکساری ان کا وطیرہ تھا، فخر وتکبر ریا ونمود کا شائبہ بھی نہیں تھا،خوش مزاجی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،
احساس ذمہ داری  ان کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا،امانت و دیانت ان کا طرہ امتیاز تھا، صداقت وشرافت میں بے نظیر تھے *،  *خود ان کے مجازی مالک کی زبانی کہ موصوف  امانت و دیانت کے اعلی کردار کے مالک  تھے
 ،کمپنی کے ہر کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر بہترین انداز میں پورا کرتے، حتی کہ  اپنی ڈیوٹی کے مستقل  پابند انسان تھے
 ،اج جس طرح  ان کی موت کی خبرنے ان کے اہل خانہ  کوحزین وغمگین کردیااسی طرح ہماری کمپنی کے لئے غم واندوہ کا پہاڑ کھڑا کر دیا  
 ،اللہ سے دعا گو ہوں کہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے  اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا کرے۔
یقینا امانت و دیانت کی صفت ایک حیات طیبہ  کے مترادف ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں مشعل راہ ہے، 
چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امین وصادق القاب سے جانے جاتیتھے،جس کی گواہی خود اپ کے دشمن دیتے تھے،
چنانچہ ہر مومن اپنی زندگی کو ایسے اعلی صفات سے منور کریں جو بعد الموت ذخیرہ اخرت ہو،
ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برھان

«
»

کرونا نے ہمیں مسلمان کردیا

توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے