مذاکرات کوناکام کرنے کیلئے کئی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کوئی تیسری قوت امن نہیں چاہتی اورکسی نے یہ خبرچلادی کہ حکومت اور فوج مذاکرات کو طول دے کر غیراعلانیہ جنگ بندی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ادھرابھی مذاکراتی ٹیموں کا رویہ زیربحث تھاکہ قصہ خانی بازارپشاورمیں امام بارگاہ کے ساتھ واقع ریسٹورنٹ میں خودکش دہماکہ میں آٹھ افرادکوشہیدکردیاگیااوردوسری جانب کرچی میں ٹرین کی پٹڑی کواس وقت بم سے اڑادیاگیاجب شالیمارٹرین گزررہی تھی جس سے۴بوگیاں الٹ گئیں اور ۱۱ متاثرہوئیں ۔سیاسی تجزیہ نگاروں اورسیکورٹی ماہرین کے مطابق یہ سب کچھ مذاکرات مخالف قوتوں کی کارستانی دکھائی دیتی ہے۔
ادھرمولانا سمیع الحق کی پریس کانفرنس نے بھی نسبتاغیریقینی صورتحال پیداکردی تھی لیکن دونوں اطراف سے فوری طورپرعقل ودانش کامظاہرہ کرتے ہوئے ان حالات پرقابو تو پا لیا گیا لیکن طالبان کی طرف سے مقررکردہ کمیٹی کے ایک فاضل رکن سابق امام وخطیب جناب عبدالعزیزکی جانب سے شریعت کے نفاذتک مذاکرات سے علیحدگی کے اعلان نے معاملہ کوایک دفعہ پھرخطرہ میں ڈال دیااوراس بیان کے ساتھ میڈیاکی طرف سے طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہدکابی بی سی کو انٹرویومیں شریعت کے مطالبے نے معاملات کو مزید گھمبیربنادیا لیکن خداکاشکرہے کہ مذاکراتی ٹیم کوحکومت کی طرف سے ایک ہیلی کاپٹرمہیاکردیاجس سے معاملات ایک مثبت راستے پرچل نکلے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں طالبان سے بات چیت کے بعد پروفیسر ابراہیم ، مولانا یوسف اور مولانا حسیب پر مشتمل طالبان کی امن کمیٹی ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس پہنچ گئی ہے ۔ وزیرستان میں موجودگی کے دوران ڈرون طیاروں کی پروازیں بھی جاری رہیں جس کی وجہ سے بار بار مقام بھی تبدیل ہوتے رہے۔ کمیٹی اور طالبان کے مابین ہونے والی مذاکراتوں میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ملک کے موجودہ آئین پر کسی قسم کا اختلاف نہیں کیونکہ اس کی منظوری کے وقت کئی جید علما پارلیمنٹ میں موجود تھے جنہوں نے اس پر دستخط کئے اصل مسئلہ آئین پر عملدرآمد نہ ہونے کا ہے،اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت کام کیا ہے لیکن وہ الماریوں میں پڑی ہیں اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان سفارشات کے تحت قانون سازی کرے اورانہوں نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ قوم کوجلد خوشخبری سنائیں گے۔
ادھرمذاکرات سے پہلے ہی دودہماکے ہوگئے ۔قصہ خانی بازارمیں دہماکے سے تین دن پہلے بھی ایک دہماکہ ہواتھااوریہ دونوں دہماکوں کی وارداتیں بالکل ایک جیسی ہیں جس کے پس پردہ غیرملکی قوتوں کے نقش پادکھائی دیتے ہیں۔بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بتایاہے کہ اس واردات میں چینی ساختہ دستی بم استعمال ہوئے اوریہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں چینی ساختہ اسلحہ استعمال ہواہے۔واردات کا طریقہ اوربموں کی ساخت دیکھ کر ہی یقین سے کہاجاسکتاہے کہ یہ تحریک طالبان کے کسی گروپ کی کاروائی نہیں کہ تحریک طالبان اس طرح کی واردات کرتی ہے نہ ہی اس طرح کا اسلحہ استعمال کرتی ہے جبکہ منگل باغ گروپ بھی گرینیڈکی بجائے ٹائم ڈیوائس اور ریموٹ استعمال کرتاہے۔
اسلام آبادمیں انسداددہشتگردی کے ذرائع کادعوی ہے کہ چینی ساختہ گرینیڈاس امرکی علامت ہیں کہ اس واردات میں امریکی ایجنسیاں شامل ہیں اورانہوں نے کسی مرحلے پر بھارت کوبھی شریک رکھاہواہے کیونکہ تاریخی طورپریہ بات ثابت شدہ ہے کہ امریکی جس ملک کوبدنام یاجس کے خلاف کاروائی کاارادہ رکھتے ہوں تو اس کااسلحہ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں سوویت کااسلحہ استعمال کیاگیااورسابق سوویت سرحدسے چین کے اندرجاکردہشتگردی کرنے والی ترکمانستان ملیشیاکے لوگ چینی اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔انہی ذرائع کادعوی ہے کہ جنداللہ کی جانب سے اس حملے کااعتراف بھی ایک اہم اشارہ ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کاجنداللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ تنظیم بلوچستان کے راستے سے ایران میں متحرک رہی ہے اوراب تازہ ترین انٹیلی جنس ذرائع سے دستیاب اطلاعات کے مطابق امریکی رکن کانگرس’’ ڈانا روہراباچیو‘‘اوراس کے ساتھیوں نے ایرانی بلوچستان سیستان میں جنداللہ عناصر سے رابطہ قائم کرلیاہے اوراس سلسلے میں ایک ملاقات بھی ہوچکی ہے۔
گزشتہ برس حکیم اللہ محسود کی زندگی میں مذاکرات کی بات چیت شروع ہوئی تواس وقت بھی جنداللہ نے ایک واردات کی تھی جس پرحکیم اللہ محسود نے جنداللہ پر امریکاکیلئے کام کرنے کاالزام عائدکرتے ہوئے فاٹاکی تمام ایجنسیوں سے نکل جانے کاحکم دے دیاتھا اورایک کمانڈرکویہ ذمہ داری سونپ کریقینی بنایاتھاکہ تمام قبائلی ایجنسیوں سے جنداللہ کوبے دخل کر دیاجائے۔اب جبکہ مذاکرات ایک بارپھر شروع ہونے کی امیددکھائی دے رہی ہے توایسے میں جنداللہ کاپھرسے ایک واردات کے ساتھ دستک دینااس امرکی علامت ہے کہ امریکی ایجنسیاں مذاکرات کے خلاف متحرک ہوچکی ہیں اوردوسری جانب الیکٹرانک میڈیامیں موجودان کے نمائندے بھی مذاکرات کے مستقبل کومشکوک بنانے کیلئے موہوم خدشات کوحقیقت بناکرپروپیگنڈہ شروع کرچکے ہیں۔
دریں اثنا وزیرستان سے دستیاب اطلاع میں کہاگیاہے کہ مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بننے کے بعدوزیرستان میں موجودغیرملکی جن میں ازبک اورچیچن سرفہرست ہیں،ان میں تشویش کی لہردوڑگئی ہے اورانہوں نے چھوٹے عسکری گروپوں سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔پاکستان سے جنگ کے ایک مخالف ایک دھڑے کے امیر سے یہ بھی معلوم ہواکہ غیرملکی خصوصاً ازبک چھوٹے گروپس کوبھاری مالی امداداورفنڈکالالچ دیکراس امرپراکسانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اگران کاساتھ دیں اورغیرملکیوں کے خلاف کاروائی والے ایشو پرمذاکرات سے انکارکردیں توانہیں مالامال کردیاجائے گا لیکن کہایہ جارہاہے کہ مذاکرات کے حق میں قبائلیوں کی رائے مستحکم ہوچکی ہے جس کودیکھ کرچھوٹے بڑے گروپس اس پریکسوہیں کہ اگربات نہ کی گئی توایک طرف فوج مارے گی اوردوسری جانب قبائل پناہ نہیں دیں گے ،اس لئے غیرملکیوں سے معاہدہ کرنے کیلئے کوئی بھی تیارنہیں ہورہا۔
ایک دوسرے ذریعے نے جوطویل عرصے تک غیرملکیوں کے ساتھ رہاہے بتایاکہ القاعدہ سے متعلق غیرملکی اب یہاں نہیں رہے ہیں جوہیں وہ صرف فیملیزکی خدمت اورتحفظ کی حد تک متحرک ہیں۔ان کی کوشش یہ ہے کہ امن قائم ہواوران سے کوئی تعرض نہ کرے مگرباقی غیرملکی جن میں ازبک اورچیچن زیادہ ہیں ،ان میں نظریاتی جہادی بہت کم ہیں جبکہ کریمنل زیادہ ہیں اوریہ لوگ فنڈزکے معاملے میں ہمیشہ سے ہی بے نیازاورکھلے ہاتھ سے خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان مذاکرات کے حوالے سے ایک طرف وہ پریشان ہیں تو دوسری جانب یہ بھی یقین دلارہے ہیں کہ لوگ مطمئن رہیں،بات چیت کسی نتیجے پرپہنچے بغیرختم ہوجائے گی۔ قبائل کے بعض ایسے کریمنل گروپس بھی بات چیت کاماحول بنتے دیکھ کر پریشان دکھائی دے رہے ہیں جوٹی ٹی پی گروپس کی کاروائیوں کے دوران اپنی وارداتیں کرکے مال کما رہے تھے۔ان قبائلی کریمنلزکے غیرملکیوں سے روابط کی صورت میں آنے والے دنوں میں دہشتگردی کاروائیاں بڑھ سکتی ہیں۔
اسلام آبادمیں سیکورٹی ذرائع نے اس خدشے کااظہاربھی کیاہے کہ جونہی امن مذاکرات کاسلسلہ آگے بڑھے گا،امن مخالف طاقتیں اورغیرملکی ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان بھرمیں دہشتگردی کی وارداتوں کاخطرہ بڑھ سکتاہے اوراس خطرے سے صوبہ پنجاب ،پختونخواہ اورکراچی میں عوامی سطح پراوراسلام آبادوراولپنڈی میں سرکاری تنصیبات پرحملوں کا شدیدخطرہ ہے۔اس سلسلے میں تمام سیکورٹی ایجنسیوں اورپولیس حکام کوہائی الرٹ رہنے کاحکم دے دیاگیاہے۔
اسلام آبادمیں اعلی سرکاری ذرائع کادعوی ہے کہ حکومت سے زیادہ عسکری قیادت مذاکرات کاکامیابی کی خواہاں ہے کیونکہ گزشتہ دنوں افغان انٹیلی جنس اورراکی مددسے ہونے والی سازش نے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں اوراس سے نمٹنے کاایک ہی راستہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے حالات کوسنبھالاجائے کیونکہ آپریشن دشمن کی سازشوں میں رنگ بھرنے کے مترادف ہوگا۔بتایاجاتاہے کہ عسکری قیادت ایک بڑے آپریشن کیلئے بالکل تیارتھی مگرسازشی عناصرکومتحرک دیکھ کرفیصلہ تبدیل کرناپڑا مگراب بھی ملک دشمن عناصرکی جانب سے مذاکراتی عمل سبوتاژکرنے کیلئے بڑی تخریب کاری کے خطرے کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
اسلام آبادمیں قومی سلامتی کے ایک ذمہ دارادارہ نے انکشاف کیاہے کہ ۵۰۰۲ سے لیکر۹۰۰۲ تک ملک میں جڑیں پھیلانے والے بلیک واٹرکوپوری طرح سے اکھاڑا نہیں جاسکا۔ یہ تنظیم پاکستان میں مقامی این جی اوزکی آڑمیں بے شمارایجنٹ بھرتی کرچکی ہے اورمختلف ناموں کے ساتھ کاروائیاں بھی کررہی ہے۔ملکی اداروں میں ایسے تمام عناصر کو ریمنڈ ڈیوس ٹائپ نیٹ ورککانام دیاجاتاہے۔بلیک واٹرکی باقیات ایک عرصے تک ژی ورلڈوائڈکانام استعما ل کرتی رہی اوربعدازاں ٹوٹل سلوشن کانام اختیارکرلیاتھاجبکہ ان دنوں ٹارچ لائٹ اوردیگرناموں کی این جی اوزکی آڑمیں کام کررہی ہیں۔وزیرداخلہ نے پولیس کوایک ہفتے میں اسلام آبادکوبلیک واٹرسے پاک کرنے کا حکم دیاتھالیکن پولیس آج تک ان کی یقینی لوکیشن ہی معلوم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے بعدیہ ٹاسک ملک کے ایک بڑے سیکورٹی ادارے کو سونپ دیاگیاہے۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق امریکی اداروں نے مختلف این جی اوزکے تحت گزشتہ مہینوں میں کراچی سے بڑی تعدادمیں بھرتیاں کی ہیں جن کوبھاری معاوضہ بھی دیاجا رہا ہے اس کے علاوہ بلیک واٹرسی اے الیون اوردیگرناموں سے فاٹامیں بھی بڑی تعدادمیں ایجنٹ بھرتی کرچکی ہے جونہ صرف ڈرون حملوں کیلئے مخبری کاکام کرتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں کوقتل بھی ان کی کارستانی ہے تاکہ باہم کشیدگی میں اضافہ کرکے ان کوآپس میں لڑوادیاجائے اورامن مذاکرات کاپہیہ جام کردیاجائے ۔ ادھرمغربی میڈیا میں اچانک پاکستان کی عسکری تنصیبات اورایٹمی اثاثہ جات کے خلاف مہم شروع کردی گئی ہے۔ماضی کاتجربہ یہ رہاہے کہ جب بھی ایساہواپاکستان کی تنصیبات پردہشتگردحملے شروع ہوگئے اس لئے اس امرکاخطرہ موجودہے کہ غیرملکی ایجنسیاں ملک میں حساس تنصیبات کونشانہ بنانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔انہی ذرائع
کے مطابق رپورٹس میں یہ چیزبھی سامنے آئی ہے کہ سی آئی اے دیگرممالک کی انٹیلی ایجنسیوں کوبھی استعمال کررہی ہے جس کی تصدیق سیکرٹری داخلہ جنرل یسین بھی کرچکے ہیں اور ان ایجنسیوں کے فاٹامیں اہم اورمضبوط رابطے ہیں جن میں بعض چھوٹے گروپس کے ساتھ ساتھ ان کے ایجنٹس غیرملکی عسکریت پسندوں کے روپ میں متحرک ہیں اورچونکہ یہ امرپہلے سے طے شدہ ہے کہ ہرقیمت پر غیر ملکیوں کونکالاجائے گالہنداخدشہ ہے کہ کہ سی آئی اے ان غیرملکی عناصریااپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے کوئی بڑی کاروائی کرکے مذاکرات کے عمل کوڈی ریل کرنے کیلئے مذاکرات کے حامیوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوسکتی ہے۔
ادھرافغانستان بھرمیں امریکیوں نے امریکی ملیشیاکے نام سے گروپس بنارکھے ہیں جن کابنیادی مقصدطالبان کے خلاف مزاحمت ہے لیکن ۳۱۰۲ میں ان تمام ملیشیاز کوٹوٹل سلوشنکے ماتحت کردیاگیاہے جوجوائنٹ اسپیشل آپریشن کمانڈکے تحت امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطرپاکستان میں کاروائیاں کرسکیں گے۔خطرہ ہے کہ امریکی ملیشیاکے ذریعے افغان انٹیلی جنس پاکستان میں کوئی بڑی واردات کراسکتی ہے تاہم اس سلسلے میں ملک کے سیکورٹی نیٹ ورک میں اہم فیصلے کرلئے گئے ہیں اور ذرائع کادعوی ہے کہ طالبان کو یہ پیغام بھیجاگیاہے کہ وہ اپنی صفوں پربھی کڑی نظررکھیں۔ ادھر بظاہر امریکانے سرتاج عزیزکومذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن امریکاکی کسی بھی بات کا یقین کرناخودکودھوکہ دینے کے مترادف ہوگاکیونکہ بلیک واٹرجیسی مافیاکے ذریعے کوئی بھی خوفناک کاروائی کاخدشہ بہرحال موجودہے اورہمیں ہرحال میں مذاکرات کے فریقین کی فول پروف سیکورٹی کویقینی بناناہوگا۔
جواب دیں