امن کے پیامی صوفیوں کی درگاہوں کو سیاست سے دور رکھا جائے

اس سال عرس خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر جہاں ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ کے واحد ’’مردمومن‘‘حضرت مختار عباس نقوی قبلہ کی معرفت سیاسی چادر بھیجی وہیں دوسری طرف کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بھی اپنی پارٹی کے ’’عظیم الشان‘‘ مسلمانوں کے مبارک ہاتھوں سے چادر بھجوائی۔ مودی اور سونیا دونوں نے ہی چادر ارسال کرنے سے قبل میڈیا کے سامنے فوٹو سشن کرایا۔ اسی طرح امریکی صدر کی طرف سے چادر بھیجی گئی جو سات سمندر پار سے کسی امریکی صدر کی طرف سے آنے والی پہلی چادر تھی۔چادر تو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے بھی بھیجی گئی مگر چونکہ اب وہ وزیر اعظم نہیں ہیں اور نہ سیاست میں سرگرم ہیں لہٰذا ان کی چادر کا جلوس بہت پھیکا رہا۔ پہلے فلم اسٹارس کی طرف سے چادریں پیش کی جاتی تھیں اور فلمی حسینائیں یہاں آکر دعائیں مانگتی تھیں کہ ان کی اگلی فلم ہٹ ہوجائے اور ان کی ننگی ٹانگیں، مٹکتے کولہے اور لٹکے جھٹکے پر پوری دنیا فدا ہوجائے مگر اب یہاں سیاسی لوگوں کا ہجوم لگنے لگا ہے اور انھیں لگتا ہے کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں ،بس چادر پوشی سے ہی ان کا کام بن جائے گا۔ ملک کے سیدھے سادے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کام کی نہیں ،مکاری کی ضرورت ہے۔ 
سیاسی چادریں
اجمیر شریف حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ میں ہونے والے عرس کی اس بار خاص بات یہ رہی کہ امریکی صدر باراک حسین ابامہ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مزار کے لئے چادر بھجوائی۔حالانکہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بھی چادربھیجی ہے مگر انھوں نے پہلی بار نہیں بھیجی۔ خواجہ صاحب کا یہ 803 واں عرس گذرا ہے۔اوباما نے سرخ رنگ کی چادر بھیجی ہے جس پر خوبصورت کڑھائی کی گئی ہے۔ اسے اوباما کی طرف سے درگاہ میں چڑھایا گیا۔اجمیر چشتی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر حاجی سید سلمان چشتی نے بتایاکہ ابامہ کے نمائندے اورامریکی سفیر رچرڈ ورما کی طرف سے یہ چادر درگاہ کمیٹی کے سپرد کی گئی۔حاجی سلمان چشتی نے کہا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے اور ہم اس لمحے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ایسا پہلی بار ہوا جب ساؤتھ ایشیا کے باہر کے ملک نے اجمیر شریف کے لئے چادر بھیجی ہے۔
پاکستان اور سری لنکا کے علاوہ دوسرے کئی ممالک کے سربراہ اجمیر شریف درگاہ پر چادر چڑھا چکے ہیں۔اس سے الگ، کانگریس صدر سونیا گاندھی کی جانب سے بھی ایک چادر اجمیر درگاہ پر چڑھانے کے لئے بھجوایا ۔ان کی طرف سے چادر لے جانے والوں میں کانگریس کے کچھ مسلمان لیڈر شامل تھے جب کہ وزیر اعظم ہند کی سے طرف سے مرکزی وزیرمملکت وزیر برائے اقلیتی امورمختار عباس نقوی چادر لے کر حاضر ہوئے۔ نقوی کے ساتھ بی جے پی کے سیکرٹری شاکر حسین، تنظیمی انچارج آر پی سنگھ، ریاست کے وزیر تعلیم واسودیو وغیرہ بھی وزیر اعظم کی چادر چڑھاتے وقت موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے درگاہ پر چادر چڑھانے کے بعد ملک میں امن وچین کی دعا مانگی۔
وزیر اعظم کا پیغام
مختار عباس نقوی نے بعد میں بلند دروازے پر وزیر اعظم کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ مودی نے خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کے موقع پر اپنے تحریری پیغام میں کہا،کہ خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کے موقع پر دنیا بھر میں رہ رہے ان کے پیروکاروں کو میری نیک خواہشات اور مبارکباد۔انہوں نے مزید کہا،بھارت کی زمین ہزاروں برس سے رشیوں،منیوں، سنتوں اور پیر،پیغمبروں کو پیدا کرتی رہی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی نے ہندوستان کی صوفی سنت روایت کو قائم رکھتے ہوئے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو آپس میں پریم اور بھائی چارے سے رہنے کا عظیم پیغام دیا ہے۔ غریب نواز کا یہ پیغام آج بھی بامعنی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات۔
سابق وزیر اعظم کی پھیکی چادر
سابق وزیر اعظم بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی کی جانب سے خواجہ صاحب کے عرس کے موقع پر ان کی مزار شریف پر چادر اور عقیدت کے پھول پیش کئے گئے۔ واجپئی کی جانب سے درگاہ میں ملک میں امن چین اور ترقی کی دعا کی گئی۔سابق وزیر اعظم واجپئی کے مشیر اور معاون شیو کمار شرما چادر لے کر درگاہ پہنچے۔ انہوں نے خواجہ صاحب کی بارگاہ میں حاضری دے کر مزار شریف پر واجپئی کی جانب سے بھیجی گئی چادر اور عقیدت کے پھول پیش کئے۔ شیو کمار نے واجپئی کے صحت مند رہنے کی دعا کی۔ خادم سید عبدالباری چشتی نے انہیں زیارت کرائی اور دستاربندی کر تبرک نذرکی۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی چادر پیش کرنے کے دوران ضلع کے وزیر، رکن اسمبلی اور بی جے پی عہدیدار ندارد رتھے۔ واجپئی کی جانب سے چادر پیش کرنے کا اعلان اخبارات میں شائع کیا گیا تھا۔ بی جے پی کے ریاستی لیڈر پروفیسر بھگوتی پرساد سارسوت نے پانچ اراکین اسمبلی کو اس کی اطلاع دے دی تھی لیکن چادر پیش کرنے کے دوران نہ تو کوئی وزیر تھا، نہ ہی کوئی رکن اسمبلی۔یہاں تک کہ پرسادسارسوت خود بھی موجود نہیں تھے۔ جبکہ شہر بی جے پی صدر اروند یادو کا کہنا ہے انہیں معلومات ہی نہیں ملی۔ اس موقع پر بی جے پی اقلیتی مورچہ کے سید ابراہیم اور اسٹیفن سیمسن وغیرہ موجود تھے۔
معصوموں کے خون میں لت پت امریکی صدر کی چادر
امریکہ کے صدارتی محل میں ہرسال افطار پارٹی ہوتی ہے جس میں دنیا بھر کے سفیروں کو بلایا جاتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی مسلمان شرکت کرتے ہیں۔ افطار پارٹی کی روایت ابامہ سے پہلے کی ہے اور بل کلنٹن و جارج ڈبلیو بش بھی اس قسم کی پارٹیاں کیا
کرتے تھے۔ اس موقع پر امریکی صدر کی جانب سے ایک مختصر تقریر کا بھی رواج ہے جس میں وہ اسلام کے پیغام امن اور روزے کے فوائد پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ افطار پارٹی اُسی صدارتی محل میں ہوتی ہے جس میں فلسطین کی تباہی کے منصوبے بنائے گئے۔ جہاں عراق کو نیست ونابود کرنے کا پلان عمل میں لانے کی بات طے ہوئی، جہاں افغانستان کے معصوم بچوں، بوڑھوں، خواتین اور عام شہریوں کو خاک وخون میں تڑپانے کے پروگرام بنے، جہاں شام کو تہس نہس کرنے کی سازش رچی گئی، جہاں ایران، یمن،مصر، پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کو خفیہ سازشوں کے مکڑ جال میں کسنے کی باتیں ہوئیں۔ آج اسی صدارتی محل کی جانب سے امن وامان کے علمبردار خواجہ غریب نواز کی قبر کے لئے چادر پیش کی گئی جس میں یقیناًان لاکھوں معصومو ں کی آہیں اور سسکیاں بھی شامل ہونگی جو امریکی مظالم کے سبب نیست ونابود ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ کسی نے امریکی صدر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خواجہ صاحب کی مزار پر چادر پیش کردیں تو مسلمان خوش ہوجائیں گے کیونکہ وہ اللہ والوں سے عقیدت رکھتے ہیں اور اس قسم کے عمل کے سبب وہ بھول جائیں گے کہ عراق میں لاکھوں بے قصور افراد کوموت کے گھات اتاردیا گیا اور ننھے ننھے بچوں تک کو ان کے جسمانی اعضا سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیا گیا۔ افغانستان کو تاریخ کے تاریک ترین دور میں پہنچا دیا گیا۔ فلسطینیوں کی زندگی کو موت سے بدتر بنا دیا گیا اور عالم اسلام میں سازشوں کا جال بچھا دیا گیا۔ 
مسلم چاپلوسی کی چادر
بھارت کے وزیر اعظم کی چادر کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔نریندر مودی کی شناخت ایک ایسے ہندو ہردے سمراٹ کی ہے جس نے ہمیشہ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھا اور جسے لگا کہ مسلمانوں سے قریب گئے تو ہندو ووٹر ان سے دور ہوجائیں گے۔ وہ ایک مدت تک گجرات فسادات کے لئے نشانہ تنقید رہے مگر انھوں نے فساد زدہ مسلمانوں کو دیکھنے جانا بھی گوارا نہیں کیا۔ جب فسادات کے زخم ذرامندمل ہوئے اور انھیں کسی مسلمان نے ٹوپی پیش کی تو انھوں نے اسے سرپر رکھنے سے انکار کردیا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس ٹوپی کے سبب ان کی امیج کو نقصان پہنچے گا،حالانکہ سچ پوچھوتو ’اسکل کیپ‘جو آج کل مسلمانوں میں مقبول ہے وہ کوئی اسلامی توپی بھی نہیں ہے اس قسم کی ٹوپیاں یہودیوں میں رائج رہی ہیں۔ وہ وزیر اعظم جنھوں نے ہر قسم کی ٹوپیاں پہنیں مگر مسلمانوں کی ٹوپی پہننے سے انکار کردیا ان کی جانب سے خواجہ صاحب کی درگاہ پر چادر کی پیشی کم حیرت انگیز نہیں۔ہم ان سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں کوئی کام کریں گے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی چاپلوسی بھی نہیں کریں گے۔ ان کی ڈکشنری میں ’’مسلمان‘‘لفظ کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس بات سے مایوسی ہوئی کہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے جو حرکت اب تک کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، جنتادل (یو) اور اشٹریہ جنتادل جیسی پارٹیوں کے لیڈران کرتے رہے ہیں، وہی حرکت اب نریندر مودی بھی کرنے لگے ہیں۔

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے